کیا انتہا پسند قوم کو غیر انتہا پسند بنانا ممکن ہے؟


کیا انتہا پسند قوم کو غیر انتہا پسند بنانا ممکن ہے؟
’نہیں!‘ رک نے حتمی فیصلہ دیا۔
’سچ تو یہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے انتہا پسندی کے جراثیم نکالنے کا ٹھیکہ بار بار انہی کو سونپ دیا جو اس زہر کو قوم کی رگوں میں اتارنے کے ذمہ دار تھے‘

پچھلے ہفتے جرمنی کی سیاحت کے دوران پوٹسڈیم میں ہفت زبان رچرڈ عرف ریکارڈو عرف رِک ہمارے گروپ کا ٹؤر گائیڈ تھا اس نے ارجنٹائن کے ریٹائرڈ سول انجینئر سے ہسپانوی میں بات کی، دونوں ہم جنس پرست ولندیزی نوجوانوں کو ڈچ میں کوئی لطیفہ سنا کر ہنسایا، شیراز سے آئے طالب علم ایمان کو فارسی میں خوش آمدید کہا اور جب ایمان نے بتایا کہ اس کی ماں کا تعلق ایران نہیں بلکہ جرمنی کے ہمسایہ چیک ریپبلک سے ہے تو رِک کافی دیر اس سے چیک میں بات کرتا رہا۔ پھر وہ ہم چاروں کی طرف متوجہ ہوا۔ بچوں کے لہجے سے وہ جان چکا تھا کہ ہم برطانیہ سے آئے ہیں لیکن جب میں نے بتایا کہ اصلاً ہم پاکستانی ہیں تو وہ ذرا ٹھٹکا اور اردو میں بولا ’آپ کو مرچی تو نہیں لگی!‘ ہم سب کو ہنستا دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا کہ کچھ غلط بول گیا ہے۔ معزرت کرکے کہنے لگا کہ ’پاکستانی‘ زبان سیکھنے سے رہ گیا کیونکہ شاز ونادر ہی کوئی پاکستانی ان مقامات پر آتا ہے۔

برلن کے مین ٹرین سٹیشن سے پوٹسڈیم تک پونے گھنٹے کے سفر میں رِک بولتا گیا اور ہمارے سوالات کے جواب بھی دیتا گیا۔
”دوسری جنگ عظیم کے اواخر میں اتحادی(امریکہ، برطانیہ اور سویت یونین) افواج کے مسلسل ہوائی حملوں نے برلن کو تہس نہس کردیا۔ 16 اپریل 1945ء کو جب سویت ریڈ آرمی کے پچیس لاکھ سپاہیوں نے برلن کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا تو ان کے مدِ مقابل صرف پانچ لاکھ جرمن فوجی تھے۔ پھر برلن کی گلیوں محلوں میں دست بدست لڑائی ہوئی ریڈ آرمی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ اسٹالن کی فوری دخل اندازی سے روسی فوجی باز آگئے لیکن سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کے سینوں میں انتقام کی کیسی آگ دہکی ہوئی ہوگی۔ نہ بھولئے گا کہ دوسری جنگ عظیم میں سب سے زیادہ خونریزی کا سامنا روس نے کیا جس کے تین کروڑ مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے نازی فوج کے ہاتھوں سفاکی سے لقۂ اجل بنے۔ اور اسٹالن گراڈ وہ پہلا معرکہ تھا جس میں نازی فوج کے دانت کھٹے ہوگئے تھے۔ ہٹلر اور اس کے حواریوں نے 1926ء سے مسلسل ایک ایسی قوم کی تعمیر و تربیت کی جس کا بچہ بچہ خود کو دنیا کی سب سے برتر اور ناقابلِ تسخیر قوم کا فرد سمجھتا تھا۔ جس کے جرنیل، ججز، بیوروکریٹ، اساتذہ، سائنسدان حتیٰ کہ ڈاکٹرز بھی اس بات کے قائل تھے کہ یہودیوں کا وجود دنیا کے لئے ایک بوجھ ہے جن کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا ہی اس دائمی مسئلہ کا ”فائنل سولوشن“ یا حتمی علاج ہے۔ جن کے خیال میں کمیونسٹ، سوشل ڈیموکریٹ، جمہوریت پسند سب کے سب اس عظیم قوم کی دنیا پرحکمرانی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں جن کا مکمل صفایا کیے بغیر قومی عظمت کا حصول ممکن نہیں۔ شکست کے بہت نزدیک پہنچ کر بھی نازی ٹولہ عوام کو فرضی فتوحات کی جھوٹی کہانیاں سناتا رہا اور یقین دلاتا رہا کہ ایک معجزاتی ہتھیار (مِریکل ویپن) تیار ہے جو یکایک دشمنوں کو نیست و نابود کردے گا“

ہم پوٹسڈیم کے سٹیشن پہنچ چکے تھے۔ رِک نے ایک سگریٹ سلگائی اور دوبارہ بولنا شروع ہوگیا۔
”اس شہر کی بڑی تاریخی اہمیت ہے۔ پروشیا (جرمنی کا پرانا نام) کے حکمرانوں نے پہلی جنگِ عظیم میں کود پڑنے کا فیصلہ یہیں کیا تھا۔ انیسویں صدی میں یورپ میں تین بڑی فوجی طاقتیں تھیں۔ روس، فرانس اور پروشیا“
”اور سلطنتِ عثمانیہ ترکی؟ “
ہم نے دریافت کیا

مرمریں محل

”وہ معاشی اور فوجی لحاظ سے کمزور ہو چکا تھا اور مدد کے لئے جرمنی اور روس پر انحصار کرتا تھا“
رکِ نے فوراً جواب دیا۔
”سلطنتِ پروشیا کو پورے یورپ میں مذہبی رواداری، آزاد خیالی اور برداشت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دنیا کی پہلی ویلفئیر ریاست کا تصور یہیں چانسلر بسمارک نے پیش کیا۔ اندازہ لگائیے کہ پورے یورپ سے الم زدہ پروٹسٹنٹ یہاں آرہے تھے۔ دوسرے ممالک سے آکر یہودی بھی یہاں بس رہے تھے۔ لیکن جنگ عظیم اول نے جہاں ترکی اور آسٹرو ہنگری ایمپائرز کا شیرازہ بکھیر دیا وہیں پروشیا پر بھی ذلت آمیز ورسائی معاہدوں کا بوجھ ڈال دیا جن کا فائدہ اٹھا کر انتہائی دائیں بازو کے نسل پرست رحجانات کو تقویت ملی۔ وہی قوم جسے تحمل و برداشت کا پیکر سمجھا جارہا تھا دنیا میں نسلی تفاخر کی تکلیف دہ اور المناک مثال بن گئی“

گلائینیکر برج

سامنے سے 93 نمبر کی الیکٹرک ٹرام گزری۔ رِک نے ہم سب کو اس میں سوار ہونے کی ہدایت کی۔
”ہمیں آخری اسٹاپ پر اترنا ہے اس لئے آپ لوگ سکون سے بیٹھ جائیں“
ہم گلائینیکر پل کے سامنے اترے۔ رِک نے بتایا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو امریکہ کے زیرِ اثر مغربی اور سویت یونین کے زیرِ اثر مشرقی حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ پھر دونوں سپر پاورز کے مابین ہونے والی سرد جنگ کے دوران پکڑے جانے والے ایک دوسرے کے جاسوسوں کا تبادلہ اسی پل سے کیا جاتا تھا۔
”یہ ٹرام دیکھ رہے ہیں آپ؟ یہ سب مشرقی جرمنی کا کمال ہے جس نے انفراسٹرکچر پر کافی سرمایہ کاری کی۔ پوٹسڈیم ہی وہ مقام تھا جہاں سویت یونین نے اپنے نیوکلیائی میزائل نصب کیے ہوئے تھے“

قصرِ بہار–سنسوسی پیلیس

ہم ایک بہت وسیع باغ میں داخل ہوگئے جہاں دور سے ایک جھیل نظر آرہی تھی۔
” اس جھیل کو مقدس مانا جاتا تھا۔ یہاں سے ہم کوئی تین کیلومیٹر پیدل چل کر شاہی محل تک جاپہنچیں گے“
رِک بولا
”میں آپ کو متنبہ کردوں کہ یہ جگہ نیچری یا بے لباس لوگوں کا محبوب مقام ہے جن کی تحریک زور پکڑتی جارہی ہے اس لئے یکایک اگر آپ کا سامنا مادرزاد ننگے گروہ سے ہوجائے تو پریشان نہ ہوجائیے گا“

ایمان کو تیزی سے دھوپ کا چشمہ پہنتے دیکھ کر رِک ہنسا اور بولا
”اتنے ابرآلود موسم میں یہ چشمہ چغلی کھائے گا کہ آپ عریاں جسموں سے اپنی آنکھیں سینک رہے ہیں لہذا براہ مہربانی اسے اتار کر سیدھے چلتے رہیں!“
ایمان ذرا جھینپ سا گیا اورسب لوگ رِک کی بات پر ہنسنے لگے۔
”پوٹسڈیم کے کل رقبے کا تین چوتھائی سبزہ ہے۔ یہاں بیس جھیلییں ہیں اور یہ متعدد دریاؤں کی گزرگاہ ہے۔ یہ جو آس پاس مکانات آپ دیکھ رہے ہیں یہ دنیا کے مہنگی ترین رہائشگاہوں میں شمار ہوتی ہیں۔ انجیلینا جولی اور بریڈ پٹ بھی یہیں رہتے رہے ہیں۔ آپ سب کو تو معلوم ہوگا کہ یورپ میں فلمی صنعت کا آغاز اسی شہر سے ہوا“

”کیا اس شہر کا ذریعۂ آمدنی سیاحت ہے؟ “ ارجنٹائینی انجینئر نے دریافت کیا۔
”جیسا کہ میں نے بتایا یہ بہت بڑا فلمی مرکز رہا ہے۔ پھر یہاں کی یونیورسٹیز میں دنیا بھر کے طلباء پڑھنے آتے ہیں۔ سیاحت کو آپ تیسرا نمبر دے سکتے ہیں۔ یہ اونچے اونچے درخت دیکھ رہے ہیں آپ؟ یہ کئی ہزار سال پرانے ہیں۔ جنگِ عظیم کے دوران جب کچھ نہ بچا تو برلن میں تمام درخت کاٹ کر ان کی لکڑی جلائی گئی تاکہ سخت موسمِ سرما گزارا جاسکے نتیجتاً وہاں ایک تنکہ بھی نہ بچا“
ہمارے چاروں اطراف انتہائی صاف ستھری پھولوں سے لدے پودوں کی کیاریاں تھیں۔
”کیونکہ یہ علاقہ سویت فوج کے قبضے میں رہا اور بعد ازاں کے جی بی نے اپنا تحقیقاتی مرکز یہاں بنا لیا اس لئے آپ کو کئی درختوں پر ہتھوڑے اور درانتی کا روایتی کمیونسٹ نشان گدا ہوا دکھائی دے گا“

ملکہ سیسیلیا کا محل جہاں جرمنی کے حصے بخرے کئے گئے

ہم سنگ مرمر کے بنے ایک محل کے قریب سے گزرے سب لوگوں نے تصاویر لیں رِک نے بتایا کہ کوئی دو سو برس پرانے اس محل میں مشرقی جرمنی نے ریڈ آرمی میوزیم قائم کرلیا تھا جسے دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد متحد جرمنی کی حکومت نے ختم کردیا۔
یہاں سے چند سو میٹر چل کر ہم بیلوں سے آراستہ ایک عمارت کے پاس پہنچ گئے جس کے لان میں سرخ پھولوں سے پانچ کونوں والا ستارہ بنا ہوا تھا۔
”یہ حالیہ تاریخ کی سب سے اہم عمارت ملکہ سیسیلیا کا محل ہے جہاں دوسری جنگ عظیم کے فاتحین یعنی امریکی صدر ٹرومین، برطانوی وزیرِ اعظم ایٹلی اور سوویت سربراہ جوزف سٹالن نے اجلاس میں تین اہم فیصلے کیے:

1۔ جرمنی کو اتحادی افواج کے زیرِ اثر علاقوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔
2۔ اس کی فوج سے ہتھیار لے کر تحلیل کردیا جائے گا اور فوجی عدالتوں سے نازی رہنماؤں کو سزا دلوائی جائے گی
3۔ تمام ایسی صنعتیں جن سے فوجی سازوسامان بنایا جاسکے کو ختم کردیا جائے گا

”اور“
رِک نے ہم سب کی طرف دیکھتے ہوئے رک رک کر کہا۔ ”سب سے اہم بات۔ “
”قوم میں سرایت انتہا پسند نازی نظریات کو حذف کرکے جمہوری سوچ کو پروان چڑھایا جائے گا“

”آپ یقین کریں گے!“ رِک نے پراسرار لہجے میں کہا
”کہ یہ کام کبھی کیا ہی نہیں گیا۔ شروع میں کمیونسٹوں نے کسی حد تک اس محاذ پر کام کیا لیکن مغربی طاقتوں کو یہ بات پسند نہیں آئی اس لئے مغربی جرمنی میں اس پروجیکٹ کو فوراً روک دیا گیا۔ ابتدا میں مغربی جرمنی چھوڑ کر مشرق جانے والوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن 1961 میں جب دونوں سپر پاورز ایک دوسرے کے سامنے آکھڑی ہوئیں اور سویت یونین نے بغیر جرمنوں کی رائے لئے اپنے ٹینک پیچھے ہٹا کر دیوارِ برلن کی تعمیر شروع کی تو جلد ہی مشرق میں رہنے والوں کو احساس ہوگیا کہ وہ دراصل ایک مقبوضہ ملک کے محصورین ہیں جنہیں خود سویت یونین میں بھی بغیر ویزا جانے کی اجازت نہیں پھر یکے بعد دیگرے کئی معاشی پروگراموں کی ناکامی کے بعد نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ دیوارِ برلن پھیلانگ کر مغربی جرمنی جانے لگے اور بالآخر 1989 کے انقلاب کے بعد دیوار کو مسمار کردیا گیا اور جرمنی پھر سے ایک ہوگیا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ذہنوں میں بٹھائے گئے تفاخرانہ اور نسلی برتری کے تصورات کے تدارک کے بجائے انہیں مسلسل ہلکی ہلکی ہوا دی گئی تاکہ بوقتِ ضرورت دنیا کی کسی نئی تقسیم کے لئے استعمال کیا جاسکے!“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).