کراچی اور لاہور کی آبادی کی جنگ


مردم شماری میں جو سب سے زیادہ حیران کن چیز سامنے آئی وہ کراچی ڈویژن کی آبادی بیس سال میں 98 کروڑ سے بڑھ کر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ اور لاہور ڈسٹرکٹ کی آبادی 63 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ گیارہ لاکھ ہونا تھی۔ اس پر حیرت ظاہر کی جا رہی ہے کہ کراچی کا رقبہ اتنا ہے اور عمارتیں اتنی زیادہ بلند ہیں، اور لاہور کا اتنا کم ہے اور عمارتیں نیچی ہیں، تو آبادی میں اتنا کم فرق کیوں ہے۔

اس میں پہلے تو یہ بات دیکھ لیتے ہیں کہ لاہور کی آبادی زیادہ کرنے سے کیا کسی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے؟ آبادی کی بنیاد پر کسی علاقے میں وسائل اور قومی اسمبلی کی سیٹیں بڑھتی ہیں۔ لاہور کی سیٹیں بڑھنے سے سینٹرل پنجاب کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ بحیثیت مجموعی، اس مردم شماری میں پنجاب کو نقصان ہوا ہے کیونکہ جہاں پاکستان میں کل آبادی 2.40 کی شرح سے بڑھی ہے تو پنجاب کی آبادی ان بیس برس میں محض 2.13 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھی ہے۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی آبادی 2.89 فیصد سالانہ، فاٹا اور سندھ کی 2.41 فیصد، بلوچستان کی 3.37 فیصد اور اسلام آباد کی آباد 4.91 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھی ہے۔ یعنی مجموعی طور پر اس مردم شماری کے نتیجے میں قومی وسائل کی تقسیم اور قومی اسمبلی کی سیٹوں میں سب سے زیادہ نقصان پنجاب کو پہنچا ہے۔

جہاں تک وسائل کی بات ہے، تو وہ بھی آبادی کو ایک طرف رکھ کر اور پنجاب کے پسماندہ علاقوں کو نظرانداز کر کے لاہور پر پہلے ہی لگائے جا رہے ہیں۔ اس لئے لاہور کی آبادی مصنوعی طور پر زیادہ دکھانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔

جہاں تک لاہور یا کراچی کی بات ہے، تو ہماری فہم کے مطابق قومی خزانے سے وسائل صوبوں کو دیے جاتے ہیں اور صوبائی حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس شہر کو کتنا بجٹ دینا ہے۔ اس لئے لاہور کی آبادی کو کراچی کے مقابلے میں بڑھانے کا لاہور یا پنجاب والوں کو کچھ فائدہ نہیں ہے۔

یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ لاہور ڈویژن کی آبادی کراچی ڈویژن سے 1998 میں بھی بہت زیادہ تھی۔ 1998 میں لاہور ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ تھی جبکہ کراچی ڈویژن کی 98 لاکھ۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق لاہور ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ 93 لاکھ ہے اور کراچی کی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ۔ لاہور ڈویژن کی آبادی 2.55 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھی ہے اور کراچی کی 2.60 فیصد سالانہ کی شرح سے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع لاہور کی آبادی کے اعداد و شمار میں کراچی کے برخلاف دیہی آبادی کو شہری ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ 2017 میں ضلع لاہور کی مضافاتی آبادی صفر دکھائی گئی ہے اور ضلع کی تمام آبادی کو شہری تسلیم کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے بھی لاہور شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔

اب کراچی میں مضافات کو کیوں شہر میں شامل نہیں کیا گیا اور اس کی کیا وجوہات ہیں، یہ تو کراچی کے اصحاب ہی بتا سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ کراچی کی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کا ہی ہو گا اور وہی اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ سیاسی پارٹیوں یا دیگر گروہوں کی آپسی چپقلش ہو یا دیگر عوامل ہوں لیکن ہم ان پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔

سوال آخر میں یہی ہے کہ لاہور کی آبادی کو کراچی کے مقابلے میں زیادہ کرنے سے کسی کو کیا فیض پہنچ سکتا ہے جبکہ پنجاب کی آبادی کے تناسب میں کمی ہوئی ہے اور دیگر صوبوں کی آبادی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔

جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ لاہور کی آبادی میں کراچی کی نسبت کیوں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے، تو اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ لاہور میں امن و امان کے ویسے مسائل نہیں ہیں جن کا سامنا کراچی کر رہا ہے۔ کیا کراچی سے انڈسٹری ملک کے دوسرے حصوں اور بیرون ملک منتقل نہیں ہو رہی ہے؟ اس کا اثر بھی آبادی پر پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کراچی کے ارد گرد دور دور تک ویرانہ ہے۔ نزدیک ترین بڑا شہر سترہ لاکھ آبادی والا حیدر آباد ہے جو تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ حیدر آباد کے علاوہ سندھ کا کوئی شہر پاکستان کے دس بڑے شہروں میں شامل نہیں ہے۔ کسی نے پنجاب سے مستقل طور پر کراچی جانا ہو تو بہت سوچ سمجھ کر ہی جاتا ہے۔ جبکہ لاہور کے نواح میں پاکستان کے دس بڑے شہروں میں سے پانچ آباد ہیں۔

قصور کے ضلعے کی شہری آبادی تقریباً نو لاکھ ہے، ایک گھنٹے کی دوری پر واقع گوجرانوالہ کی آبادی بیس لاکھ ہے، شیخوپورہ سات لاکھ شہری آبادی والا ضلع ہے، ضلع اوکاڑہ کی شہری آبادی آٹھ لاکھ ہے۔ فیصل آباد شہر کی آبادی تیس لاکھ ہے۔ یہ چند وہ شہری علاقے ہیں جن کے رہائشی ملازمت یا کاروبار تو کیا کھانا کھانے بھی لاہور آ جاتے ہیں۔ آپ کو لاہور میں جنوبی پنجاب کے بہت سے لوگ بھی بسلسلہ روزگار مقیم ملیں گے۔ آبادی کا یہ حال ہے کہ ایک طرف لاہور کی تعمیرات کا سلسلہ بھارت کی سرحد سے مل چکا ہے، دوسری طرف رائے ونڈ سے آگے نکل چکا ہے اور تیسری جانب گوجرانوالہ تک جا پہنچا ہے۔ ایسے میں لاہور کی طرف پنجابیوں ہی کی بڑی تعداد میں نقل مکانی پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ لاہور کی آبادی میں 116 فیصد اضافے کو دیکھتے ہوئے اگلی دو دہائیوں میں اگر یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر بن جائے تو صبر شکر کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ ویسے بھی سو باتوں کی ایک بات، لہور لہور اے۔

لیکن یہ بات سوچ کر پریشان ہوتے رہیں کہ امن و امان کے مسائل کی وجہ سے ہم نے جس طرح کراچی کا بیڑہ غرق کیا ہے، پورے پاکستان کا وہی حال ہو رہا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اب ہماری مرضی ہے کہ اپنے شہروں اور ملک کے حالات بہتر کر لیں یا پھر پریشان ہوتے رہیں کہ ہم تباہ کیوں ہو رہے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar