یہ سرکل آف لائف کیا بلا ہے؟


بچہ بچہ جانتا ہے کہ سب نظامِ حیات توازن پر قائم ہے۔ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں۔ ہر چیز توازنِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے ورنہ زندگی لنگڑانے لگے اور غیرمتوازن گرتی پڑتی حیات بھلا کسے پسند؟

ایسی زندگی کیسی ہوتی اگر ہماری دو کے بجائے ایک ٹانگ ہوتی۔ ایک ہاتھ ہوتا۔ یا دو بھی ہوتے تو ایک کمر پر اگا ہوتا۔ دو کے بجائے ایک آنکھ ہوتی۔ یا دونوں ہی ہوتیں مگر چہرے کے بجائے سر کے پچھلی جانب۔ ایک ہی کان ہوتا۔ دو ہوتے بھی تو ایک ران پہ ہوتا۔ اگر چوپائے سہہ پائے ہوتے۔ چلیں چوپائے ہی ہوتے مگر ایک ٹانگ پسلی سے لٹکی ہوتی اور دوسری سینگ سے۔ سمتیں چار ہی کیوں ہیں تین یا پانچ یا دو کیوں نہیں؟ اچھا تو پھر دماغ ایک کیوں؟ اور دل دو کیوں نہیں؟ ( یہ بھی ویسا ہی ایک مغالطہ ہے جس طرح یہ غلط فہمی کہ دل بھی سوچتا، خوش اور مایوس ہوتا یا بلیوں اچھلتا ہے۔ حالانکہ یہ سب کام بھی بچارا دماغ ہی کرتا ہے مگر اس کی داد دل کمینہ سمیٹتا رہتا ہے ) دماغ اور دل دیکھنے میں ون پیس لگتے ہیں مگر یہ بھی چار چار حصوں میں تقسیم ہیں۔ تاکہ انسانی کارخانے میں توانائی کا ہیوی لوڈ مساوی و متوازن رہے۔

زندگی کا دائرہ ( سرکل آف لائف ) کیا ہے؟ میر صاحب کا یہ شعر بیشتر اصحاب جانتے ہیں مگر مفہوم کتنے جانتے ہیں۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

یعنی کیچوا مٹی کھاتا ہے اور زرخیز بناتا ہے۔ پرندے کیچوا کھاتے ہیں، پرندوں کو شکاری کھا جاتے ہیں۔ چھوٹے شکاریوں کو بڑے شکاری کھا جاتے ہیں۔ بڑے شکاریوں کو بیماری اور زخم چاٹ جاتے ہیں اور پھر ان ادھ موؤں کو گدھ کھا جاتے ہیں۔ گدھ کو کثرتِ خوراک یا قلتِ خوراک کھا جاتی ہے اور پھر گدھ کا پنجر مٹی کھا جاتی ہے۔ سمندری دنیا پر بھی یہی قانون لاگو ہے۔ فلکیات پر بھی یہی قانون جاری ہے۔ موت سے زندگی اور زندگی سے موت جنم لیتی ہے۔ گویا زندگی کا دائرہ زنجیر سا ہے۔ اگر اس زنجیر میں سے سب سے چھوٹی کڑی کو بھی زنگ لگ جائے تو اس کا اثر بڑی کڑی کو کمزور کردیتا ہے اور یوں پوری زنجیر کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔

مگر پھر یہ زندگی کی زنجیر آخر ٹوٹتی کیوں نہیں؟ شاید اس لیے کہ فولادی زنجیر کے برعکس حیاتی زنجیر میں کمزور کڑیوں کی جگہ نئی کڑیاں لے لیتی ہیں۔ مگر زندگی دائرے میں ہی کیوں چلتی ہے؟ یہ مستطیل، تکون یا مربع کیوں نہیں؟ شاید رفتار کو یکساں، متوازن اور آگے کی طرف رواں رکھنے کے لیے دائرہ ہی سب سے بہتر شکل ہے۔ (گو انسان واحد جانور ہے جسے اکثر اس پہئے کو الٹا چلانے یا اس کی رفتار پر غالب آنے کا شوق چراتا ہے مگر ہر بار اپنے ہاتھ زخمی کرنے کے باوجود باز نہیں آتا)۔

لیکن سرکل آف لائف میں معنی اور رنگ کون بھرتا ہے۔ شاید تضاد؟ سیاہ یوں سیاہ ہے کہ سفید سامنے کھڑا ہے۔ سچ کا وجود نہ ہو اگر جھوٹ مدِ مقابل نہ ہو۔ پانی کے بغیر خشکی کیسے سمجھ میں آئے گی؟ دنیا کی پوری آبادی یکساں ذہانت کی مالک ہو تو کیا ایسی دنیا ایک انچ بھی آگے بڑھ سکتی ہے؟ بے وقوفی کا وجود نہ ہو تو عقل مندی کو کون پوچھے؟ اگر سب مذکر ہوتا یا سب مونث ہوتا تو دنیا کتنے دن چلتی؟ سب کے پیٹ بھرے ہوتے تو دماغ کو زحمت دینے کی کتنی ضرورت تھی۔ تلاش کا سفر کوئی کیوں اختیار ہوتا۔ محرومی نہ ہوتی تو کوشش، مسابقت اور مقابلے کا تصور کیوں پیدا ہوتا۔ مقابلہ نہ ہوتا تو ترقی کیوں ہوتی۔ شاید یہ سب تضادات ہی زندگی کو متحرک اور متوازن رکھنے والے انجن کا پٹرول ہیں۔

حق اور باطل، ظالم اور مظلوم کی لڑائی؟ کیا یہ اختیار اور بے اختیاری کی لڑائی کے سوا بھی کچھ ہے؟ جب مظلوم غالب اور ظالم مغلوب ہو جاتا ہے تو پھر ایک نیا ظالم کیسے وجود میں آجاتا ہے۔ کیا تمام انسان کسی ایک ظالم یا ایک مظلوم پر کبھی متفق ہو سکے یا سکیں گے؟ ہر ایک کا باطل اور ہر ایک کا حق، ہر ایک کی سچائی اور ہر ایک کا جھوٹ اتنا الگ الگ کیوں؟ اچھا یہ کیوں کہا گیا کہ بے شک انسان ناشکرا ہے اور یہ کیوں کہا گیا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اور پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ شاید تضاد سے پیدا ہونے والی کش مکش ہی زندگی ہے۔
عقل کی حد کہاں سے شروع ہو کے کہاں ختم ہوتی ہے۔ عقیدہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا ہے۔ عشق کیا بلا ہے اور یہ عقل اور عقیدے کے بیچ کہاں کھڑا ہے؟ عقیدہ اور عقل جڑواں ہیں کہ متضاد؟ یہ حریف ہیں کہ حلیف۔ دونوں محدود ہیں کہ لا محدود یا بین بین؟

شاید ان سوالات کا بھی یہی جواب ہو کہ زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے ایک منظم اتھل پتھل ( کنٹرولڈ کیاس ) ضروری ہے ؤرنہ تو سب قبرستان ہے۔
تو کیا یہ سب باتیں سب کی سمجھ میں یا ان میں سے کچھ باتیں کچھ کی سمجھ میں آ سکی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو سفاکی اور لالچ کی جبلت کو دبانے کا بھی کوئی طریقہ اب تک وضع کیوں نہ ہوپایا اور اپنے پیر پہ کلہاڑی مارنے، کھلی آنکھوں مکھی نگلنے اور خود کو ہر صورت درست اور سامنے والے کو نادرست سمجھنے اور ہر حال میں نیچا دکھانے کی شعوری عادت لاشعور کا حصہ کیسے بنتی چلی گئی۔ تو کیا یہ جبلتیں انسانی خمیر میں ہیں یا خارجی ہیں؟

میں یہ کیا باتیں کررہا ہوں۔ مجھے سوجھی کیا ہے۔ ثابت کیا کرنا چاہ رہا ہوں۔ یقین کیجیے خود بھی نہیں معلوم کہ یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے یہ سب میرا لاشعور ہو؟ میرے اندر کا بچہ ہو۔ بچے ہی تو ہیں جو عجیب و غریب سوالات کرتے ہیں مگر یہی سوالات تو جاننے کا تالہ کھولنے کی کنجی ہیں۔ مگر کوئی بھی یہ تالہ پورا نہ کھول پایا۔ شاید کھل گیا تو پھر کس کام کا؟
شاید میں یہ لکھنے بیٹھا تھا کہ جب کوئی فرد، گروہ یا ریاست قدرتی توازن کو بدل کے اپنی مرضی کا توازن بنا نے اور نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی دن سے لڑ کھڑانا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنی غلطی کا احساس بہت بعد میں جاکے کہیں ہوتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب خود تردیدی کی چادر بھی گل سڑ جاتی ہے اور جسمانی و ذہنی توازن بھی ڈولنے لگتا ہے۔ مگر اس کیفیت سے نکلنے کے لیے بھی سوچ اور عقل کی لاٹھی پکڑنے کے بجائے گھبراہٹ میں ہاتھ پاؤں مارنے کی عادت نہیں جاتی اور پھر بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے پڑنے کے سبب اپنی ہی بنائی دلدل میں دھنسنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ شاید زوال اور عروج کا چکر یہی ہے۔

میں شاید لکھنا چاہتا تھا کہ جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بائیں بازو کے خلاف اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں اور اپنے کان خود چیک کرنے کے بجائے کسی اور کے کہنے پر کان چھڑانے کے لیے کتے کے پیچھے دوڑتی رہی تو پھر دائیں بازو کے خلاف کوئی متبادل قوت ( کاؤنٹر فورس ) یا جوابی نظریہ ( کاؤنٹر نیریٹو) باقی نہ رہا۔ مزید یہ ہوا کہ مخلوط المذاہب مشرقی پاکستان ( بیس فیصد غیر مسلم اقلیت ) کی موجودگی سے پاکستانی سماج میں رواداری و روشن خیالی کا جو تھوڑا بہت توازن تھا اس کی بھی سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے بعد وجود میں آنے والے نئے پاکستان کو ضرورت نہ رہی۔ یوں وفاقی و سماجی ترازو کے سیاسی و مذہبی پلڑے پوری طرح ایک طرف کو جھک گئے۔ اب سی سا کے ایک جانب صرف دایاں بازو ہے اور دوسری جانب کے پھٹے پر ریاست اور اس کے لوگ بیٹھے ہوا میں جھول رہے ہیں۔ خوشی خوشی چڑھ تو گئے۔ اب خوشی خوشی اتارے کون؟

(جیسے پورا زور لگا کے سوویت یونین کو ختم کرنے کے بعد غیر متوازن دنیا امریکا کو رو رہی ہے اور امریکا باقی دنیا بالخصوص مسلمانوں کو رو رہا ہے۔ حالانکہ یہاں سے وہاں تک صرف دایاں بازو ہے۔ چین سے اسرائیل تک۔ ایران سے سعودی عرب تک، طالبان سے بی جے پی تک، امریکا سے مصر تک سب جگہ ایک ہی سوچ کم زیادہ شدت کے ساتھ۔ پھر بھی سب ایک دوسرے کو کیوں رو رہے ہیں)۔

اپنی مرضی کا توازن ایجاد کرنے والوں اور ان کے مددگاروں کے ساتھ اکثر یہی ہوتا آیا ہے۔ مگر انسان بہت سخت جان ہے۔ اسے ہلکا نہ لیا جائے پلیز۔ ایک دن توازن پھر بحال ہوجائے گا دوبارہ متوازن ہونے کے لیے۔ آخر سرکل آف لائف بھی تو چلنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).