ارینجڈ شادیاں آج کے دور میں ایک درست فیصلہ نہیں


ارینجڈ شادی سے مراد عموماً ایک ایسی شادی ہے جس میں ایک شادی کے قابل جوان لڑکے اور لڑکی کے والدین مل کر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ان دونوں کی آپس میں شادی کر دی جائے۔ کچھ صورتوں میں تو یہ شادی خاندان میں ہی ہوتی ہے اور خاندان سے باہر ہونے کی صورت میں دو لوگ عموماً بات پکی کرنے یا منگنی کے دن ہی دونوں ایک دوسرے کی صورت دیکھتے ہیں۔ کچھ پڑھے لکھے خاندان اب منگنی کے بعد اتنا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے فون پر بات چیت کرنے دیتے ہیں مگر اس بات چیت کی اجازت بھی اس لئے ہوتی ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے کو سمجھو کیونکہ تم لوگوں نے ساتھ میں رہنا ہے، اس لئے نہیں کہ اگر کچھ پسند نہ آئے تو رشتہ توڑا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں منگنی کا ٹوٹنا شادی ٹوٹنے سے بس کچھ درجے ہی کم لیا جاتا ہے۔
ارینجڈ میرج کی ضد کے طور پر عموماً لو میرج کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مراد ہمارے معاشرے میں عموماً وہ شادی ہوتی ہے جو والدین کی مرضی کے خلاف ان سے بالاتر ہو کر یا گھر سے بھاگ کر کی جاتی ہے اور چونکہ یہ شادی ایک شدید جذباتیت کے تحت ہوتی ہے اس لئے اس کی کامیابی کی بھی کوئی خاص ضمانت نہیں ہوتی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کی گو کہ شادی ایک جذباتی ضرورت کو پورا کرنے کا رشتہ ہے مگر اس کی بنیاد جذباتی باتوں پر نہیں ہونی چاہیے۔

شادی کیا ہے اور ہم رشتے کیوں بناتے ہیں؟ رشتے تو ضروریات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور شادی ایک اہم رشتہ اس لئے ہے کہ جن دو افراد نے اکٹھے زندگی گزارنی ہے وہ ایک دوسرے کی جذباتی ضروریات اور جسمانی ضروریات جن میں تحفظ اور آرام بھی شامل ہیں، سب پورا کر سکیں اور نفسیاتی اور جذباتی ضروریات جیسے حوصلہ، خود اعتمادی، بڑھوتری اور اطمینان کا بھی باعث بنیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی کا باعث بنیں اور زندگی کے لمبے سفر میں زیادہ سے زیادہ مطابقت کے ساتھ دوسرے کے ساتھ چل سکیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مطابقت کا تعین کرنے کے لئے عمومی طور پر جو پیمانے ارینجڈ شادی کی صورت میں استعمال لئے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں والدین ارینجڈ شادی کا فیصلہ عموماً ذات، برادری، قد، شکل، تعلیم، پیسہ اور معاشرے میں حیثیت دیکھ کر کرتے ہیں، مگر کیا یہ پیرامیٹرز کافی اور درست ہیں؟ اور جس طرح ہمارے سے متماثل ہندو معاشرے میں کنڈلی نکالی جاتی ہے، اب بہت صورتوں میں شادی کا فیصلہ استخارے کے نتیجے میں بھی سننے میں آتا ہے۔ ہمارے ہاں ارینجڈ میرج تو فرمانبرداری کی آخری سند سمجھی جاتی ہیں کہ اس نے ماں باپ کی پسند پر سر جھکا دیا۔ مگر کیا کسی کی شکل دیکھ کر آپ اس کے ساتھ تمام عمر گزار سکتے ہیں جب تک کہ آپ ایک دوسرے کی عادتیں نہ برداشت کر سکیں یا ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں؟

ہمارے ہاں زیادہ تر ارینجڈ شادیاں کابیاب سمجھی جاتی ہیں اور اس میں اس بات کا بہت ہاتھ ہے کہ لڑکیوں کو کس طرح سے پالا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو کم سے کم ایکسپوژر دے کر جب کسی سے بھی ان کی شادی کی جاتی ہے تو ایک تو انہیں بتا دیا جاتا ہے کہ تمام سمجھوتے تمہاری طرف سے ہی آنے چاہییں دوسرے انہیں اتنا شعور اور آگہی نہیں دی جاتی کہ وہ ہٹ کر کوئی فیصلہ کر سکیں۔ ایسے سمجھوتوں کو عموماً ایک کامیاب شادی گردانا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں انسان کو ارینجڈ میرج میں دھکیل کر یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ اب وہ اب اپنے جیون ساتھی کی زندگی کی تمام آزمائشوں کا شراکت دار ہے، چاہے شادی سے پہلے اسے علم تھا کہ یہ آزامائشیں سامنے ہوں گی یا نہیں۔ مثلا ایک شخص قرضدار ہے، غیر ذمہ دار ہے، کنجوس ہے اس کے ساتھ گزارا کیونکر ہو؟ مگر یہ وہ باتیں ہیں جن میں سے اکثر کے بارے میں شادی سے پہلے پوچھنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور شادی کے بعد ایسے مسائل کو نصیب کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حالانکہ شادی سے پہلے، مستقبل میں آنے والی زندگی کی تصویر واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر قسمت میں کچھ الٹ پھیر ائے تو اور بات لیکن بنیادی باتیں تو شفاف اور سامنے ہونا چاہییں۔

شادی سے پہلے کرنے اور سمجھنے کی بنیادی باتیں سچے اور کھرے ہونے کے علاوہ یہ ہیں آپ کتنی گفتگو پسند کرتے ہیں اور کس حد تک کھل کر اپنے بارے میں بات کر سکتے ہیں، بات چیت کرنا شادی کے رشتے میں انتہائی اہم ہے۔ اس کے علاوہ آپ زندگی میں کیا چاہتے ہیں، آپ کتنے بچے چاہتے ہیں، آپ پیسہ خرچنے اور سنبھالنے کے بارے میں کیسا سوچتے ہیں، آپ کس شہر میں رہنا چاہتے ہیں، آپ اپنے والدین سے کیسا رشتہ بنانا چاہتے ہیں، آپ گھر کا سامان کیسا پسند کرتے ہیں، آپ کے دوستوں کا آپ کی زندگی میں کیا مقام ہے، آپ ذمہ داریاں کس طرح بانٹنا چاہتے ہیں اور آپ ایک دوسرے کے ساتھ کیسا مستقبل دیکھتے ہیں جس کی بنا پر آپ اکٹھے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں شادی کا فیصلہ عموماً ایک اندھے جوئے کی طرح کیا جاتا ہے اور بعد میں مثالوں سے بھی یہی عائد کیا جاتا ہے کہ یہ تو بس ایک جوا ہی تھا حالانکہ یہ فیصلہ نوکری یا تعلیم کے فیصلے کی طرح حقائق پر مبنی ہو سکتا ہے۔

ہمارے ہاں دونوں مخالف صنفوں میں فاصلہ رکھ کر ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ شادی کے نزدیک خوشی اور ایکسائیٹمنٹ نوجوانوں کے جذبات پر زیادہ غالب ہوتے ہیں اور عملی حقائق کم اور عملی حقائق کے بارے میں کوئی انہیں سمجھاتا بھی نہیں۔

بس ایک اندھی پٹی نوجوانوں کی سوچ پر بانھ دی جاتی ہے کہ بس شادی ایک ایسی چیز ہےجس کے بارے میں والدین ہی ایک بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ مگر میں نے ایسی شادیوں کے بعد بہت سی صورتوں میں والدین کو یہ الزام بھی سہتے دیکھا ہے کہ یہ شادی آپ کا غلط فیصلہ ہے یا یہ شادی ہم ہس آپ کی وجہ سے نبھا رہے ہیں۔ تو کیوں نہ یہ فیصلہ اسی کو کرنے دیا جائے جس نے اسے آخر میں نبھانا ہے؟

میرے خیال میں تو والدین کی سوچ اور فیصلے کی اہلیت تو اسی بات سے سامنے آ جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کتنا شعور دیا ہے، اور اگر وہ اپنے بچوں کو شعور دے سکتے ہیں تو اس کے بعد ان کے لئے بچوں کے مستقبل فیصلہ خود کر کے ان کے ہاتھ میں دینے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ایک انسان خود کو اور اپنی زندگی کو اور ضروریات کو بہت بہتر طور سے سمجھتا ہے اور اسے سمجھنا بھی چاہیے اور اسے اپنی زندگی اور ضرورتوں کو سمجھنے اور پورا کر سکنے کے قابل بنانا والدین کا اصل کام ہے۔

 

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim