گرو گرمیت سنگھ ریپ والا اور بھگوان جی


کیا انسان بھی بھگوان ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بھگوان کا روپ بھی دھارسکتا ہے؟ کیا بھگوان جیسے لفظ کو انسان سے جوڑنا چاہیے؟ ہندو عقیدے کے مطابق بھگوان انسانی روپ بدل کر اوتار کی شکل میں زمین پر آتا رہتا ہے۔ خدا تو سب کا ایک ہی ہے چاہے کوئی مانے یا نہ مانے لیکن بھگوان کو انسان کا روپ ماننے والے شاید آج سمجھ جائیں کہ کوئی انسان بھگوان نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسے بھگوان کا روپ ماننا چاہیے کیونکہ اس جیسا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا اور اگر ہوگا تو وہ کبھی بھگوان نہیں ہوگا ہاں البتہ شیطان ضرور ہوسکتا ہے جیسا گرو جی راک اسٹار ریپ والا نکلے۔

کیا بھگوان انسان کا شکار کرتا ہے، کیا لوگوں کو بھگوان سے نفرت کرنے پر مجبور کرتا ہے یا بھگوان کے نام پر مذہب سے محبت کی قیمت ریپ کرکے وصول کرتا ہے؟ ایک عورت کی کہانی ریپ کی زبانی بھی ہوسکتی ہے؟ کیا ریپ بھی کسی عورت کے کرب کی داستان کو بیان کرسکتا ہے؟ اس کی مفلسی؟ اور بے چارگی کو؟

عورت کی عزت کو تار تار کرنے والے خدا کی لاٹھی سے ںہیں ڈرتے، خدا تو سب کا ہے، ہندو کا بھی مسلمان کا بھی، عیسائی کابھی اور یہودی کا بھی لیکن انسان یہ بھول جاتا ہے کہ ایک عادل وہ ہے جو سب کا خدا ہے اور وہ کسی سے ڈرتا نہیں نا ہی اسے وقت گزرجانے کی فکر ہے اور انسان اسے اپنا خدا مانے نہ مانے وہ انسان کو اپنا بندہ ضرور مانتا ہے اور بغیر کسی فائدے نقصان کے اسے نوازتا رہتا ہے چاہے کافر ہو یا مسلمان پھر بھی لوگ انسانوں کو خدا بنانے اور بھگوان بنانے پر تلے ہیں اور خدا کی گرفت سے نہیں ڈرتے۔

کیا ہوگیا انسان کی عقل کو شعور کو مذہب کے نام پر اپنی عقل اور شعور کو بھی قربان کررہا ہے اور ساتھ ہی بیٹی کی عصمت کو بھی، ڈیرہ سچا سودا نامی فرقے کے سربراہ اور خود ساختہ روحانی پیشوا ریپ والا کیوں بنا؟

آخر ریپ کرنے کی ہمت اور حوصلہ آیا کہاں سے؟ عورت کی بےچارگی سے؟ اس کی موجودگی سے؟ یا اس کی مذہبی رواداری اور بھگوان پر مان سے؟

کیا ریپ کسی عورت کے مذہبی تشخص کو جلا بخش سکتا ہے؟ کیا مذہب کو سمجھنے کے لئے مذہب کے قریب ہونا لازمی ہے؟ یا ایک گرو یا مذہبی رہنما کے؟ انسان کب شیطان بن جائے تو انسان کو بھگوان ماننا یا اس کی پیری مریدی اختیار کرنا جائز ہے؟ پھر کیوں ایک ایسے رہنما کو پیشوا مان لیا گیا جو دیناوی محبت اور ارمانوں سے لبریز تھا؟ اور عورت کے وجود اور اس کی حفاظت کرنے کے بجائے اس کا لٹیرا نکلا؟

پاکستان ہو یا بھارت جہالت کا سودا اور عقل کی نیلامی مذہب کو ڈھال بنا کر با آسانی کی جاسکتی ہے اور جعلی پیری مریدی سے عیاشی کا راستہ صاف بھی کیا جسکتا ہے جیسے پاکستان میں بچیوں کو جنسی ہوس کا شکار کرلیا جاتا ہے اور ماں باپ کی عقل اس وقت جاگتی ہے جب بچی یا تو ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہے یا پھر زندگی سے ہار مان جاتی ہے، یہی حال جعلی پیری مریدی کے زیر اثر برباد ہونے والی خواتین اور مرد حضرات کا بھی ہے جو اپنی زندگیاں داؤ پر لگادیتے ہیں لیکن سچ اور حق اور مذہب کے نام پر جعلسازی اور شیطانیت کے کھیل کا پردا فاش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم مذہب کے نام پر انسان کو فرشتہ اور بعض اوقات بھگوان کا روپ مان لیتے ہیں اور بچوں کو ایسے ان کے حوالے کرتے ہیں جیسے کسی شخص کو اس کا ادھار واپس کیا جاتا ہے جو سراسر غلط ہے اور کسی جرم سے کم نہیں۔

ڈیرہ سچا سودا ہریانہ میں بھی ایسا ہی ہوا اور سادھو کے نام پر والدین کی جانب سے خدمت کے لئے ڈیرے پر مامور لڑکی جو ہریانہ سے تعلق رکھتی تھی، کا جنسی استحصال کیا جاتا رہا اور پانچ سال ڈیرے پر بھگوان کی خدمت اور اس سے ملاقات کا جذبہ لیے زیادتی کا نشانہ بنائی جاتی رہی اور یہ صرف اس کی کہانی نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ کی کئی لڑکیاں اس ظلم و زیادتی کا شکار ہورہیں تھیں لیکن پھر بھی اس لڑکی نے اور گرو گرمیت سنگھ کی جانب سے دھونس دھمکیوں کے باوجود 2002 میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو خط لکھا اور مذہب کہ نام پر عورت کی عصمت دری کی دردناک کہانی قلم بند کی جس کے بعد دو خواتین نے اس ذلت و رسوائی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہونے کا قدم اٹھایا اور 2017 میں عدالت کا تاریخ ساز فیصلہ آگیا جس سے مزید لڑکیوں کی عزت پامال ہونے سے بچ گئی اور زنا بالجبر کے جرم کا مرتکب ہونے پر گرو گرمیت سنگھ کو دو مقدمات میں 10، 10سال قید کی سزا سنادی گئی۔

ہندو ہو یا سکھ یا پھر مسلمان، کوئی بھی مذہب عورت کی عصمت دری کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی مذہب کے نام پر عیاشی کو حلال کردیتا ہے دنیا کی تخلیق کرنے والی صرف ایک ذات پاک ہے جو سب کا خالق ہے اور مالک ہے، چاہے ہم یقین کریں یا نہیں لیکن انسان کو کبھی بھگوان کا روپ نہیں ماننا چاہیے ورنہ نہ جانے اور کتنے گرو گرمیت سنگھ پیدا ہوں گے اور بھگوان کے نام پر لوگوں کے مذہبی عقیدے، عزت اور محبت کے جذبے کو پامال کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).