عالمی جوا خانہ، تُرپ کا پتہ، امریکی شکایت اور پاکستان


ترقی یافتہ دنیا کے کسی بڑے شہر کے ایک جوا خانے کا تصور کیجئے جہاں دو مشہور جواری بازی لڑ رہے ہیں اور ان کے حواری میز کے ارد گرد ان کی چلی گئی ہر چال پر ان کو دل کھول کر داد دے رہے ہیں۔ اچانک ایک فریق تُرپ کا پتہ پھینکتا ہے اور ہر طرف شور مچ جاتا ہے۔ تُرپ کا پتہ پھینکنے والے کا خیال ہے کہ اس نے بازی اپنے حق میں پلٹ لی ہے لیکن وہ یہ بات بھول چکا ہے کہ اس کاحریف بھی گھر سے کھیلنے آیا ہے اور اسے بھی اپنی جیت اتنی ہی پیاری ہے جس قدر اس کو۔

غیر متوازن شخصیت کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جب تُرپ کا پتہ پھینکا تو پاکستان سمیت پورے عالم میں بہت ہاؤ ہو کار مچی، لیکن ا ب جبکہ یہ شور کچھ تھم چکا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکہ بہادر کی طرف سے یہ چال پہلی بار نہیں چلی گئی۔ وہی ’’ڈو مور‘‘ کی رٹ ہے لیکن حیرانی تو اس بات کی ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے دوسرے یا تیسرے درجے میں بھی اس بات کو اہمیت نہیں دی کہ ٹرمپ نے اپنے پالیسی بیان میں دہشتگردی کے خلاف پاکستانی قربانیوں کو بھی تسلیم کیا ہے۔ میرے نزدیک ٹرمپ نے اپنے بیان میں کوئی غلط بیانی بھی نہیں کی جس پر اتنا چیں بجبیں ہونے کی ضرورت ہو بس اتنا ہے کہ اپنے پیروں پر ذرا وزن ڈالنے کی ضرورت ہے کہ خارجہ پالیسی کوئی سیدھی موٹروے نہیں جس پر آپ بڑی آسانی سے گاڑی کو ایک سے دوسرے اور پھر اگلے گئیرز میں ڈالتے چلے جائیں بلکہ یہ صحرا میں ہونے والی ایک جیپ ریس ہوتی ہے جس میں ڈرائیور کو کہیں پھرتی دکھانی ہوتی ہے، کہیں زوربازواور کہیں عقل سے کام لیتے ہوئے گاڑی کو نرم ریت یا دلدلی علاقے سے نکال کر سب سے پہلے منزل پر پہنچنا ہوتا ہے۔

ٹرمپ کے بیان میں پاکستان سے متعلق جو کچھ ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ماضی میں پاکستان ہمارا قیمتی شراکت دار تھا اور ہماری فوجوں نے مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر کام بھی کیا۔ پاکستانی عوام دہشتگردوں اور انتہاپسندوں کی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا شکار بھی رہے اور ہم ان کی قربانیوں اور کاوشوں کو سراہتے بھی ہیں لیکن پاکستان ان تنظیموں کو پناہ دیتا ہے جو روزانہ ہمارے لوگوں کو قتل کرتی ہیں۔ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دے چکے ہیں لیکن جن دہشتگردوں سے ہم لڑ رہے ہیں وہ پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ ہمیں اس کو فوری بدلنا ہوگا، شراکت داری اس طرح نہیں چل سکتی کہ ایک ملک ان دہشتگردوں کو پناہ دے جو امریکیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے یہ وقت ہے کہ وہ امن کے لئے اپنا عزم ظاہر کرے‘‘۔

اگلے دن امریکی صدر کے بیان کی تشریح کرتے ہوئے ’’درزی دے پتر‘‘ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحاد سے نکالنے اور امداد بند کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ بندہ پوچھے بادشاہو! امداد تو آپ نے نو گیارہ کے بعد سے بند کر رکھی ہے اور دونوں ملکوں کی تجارت کی اوقات بھی اونٹ کے منہ میں زیرے برابر ہے، تو بند کیا کروگے؟ ویسے بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل نے تُرپ کی چال کے جواب میں جو چال چلی ہے وہ میرے خیال میں کافی حوصلہ افزا ہے کہ جناب یہ جو آپ روز ڈالر ڈالر کی رٹ لگا دیتے ہیں یہ کوئی مفت کی روٹی نہیں تھی جو آپ ہمیں کھلاتے رہے ہیں یہ وہ معاوضہ تھا جو آپ ہماری زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کے عیوض ہمیں ادا کرتے تھے لیکن اب یہ سودا بھی ہمیں وارا نہیں کھاتا کیونکہ اس سے کہیں زیادہ نقصان ہمیں دہشتگردی کہ وجہ سے ہوا اور ستر ہزار جانیں الگ سے گئیں۔ اب یہ تماشہ بند کریں، اب افغان جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جاسکتی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی واضح کردیا ہے کہ جناب ڈالر ڈالر کی بکواس بند کریں، ہمیں اس کی ضرورت نہیں، اب معاملات باہمی اعتماد پر طے پائیں گے۔

امریکہ اور پاکستان کے درمیان چونکہ بہت سے معاملات سعودی عرب کے وساطت سے طے پاتے ہیں تو میراخیال ہے وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کو بھی بتا دیا ہوگا کہ ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے، پاکستان اب مزید افغان جنگ نہیں لڑ سکتا۔ میراخیال ہے نوازشریف کو نکالنے والے اب سوچتے تو ہوں گے کہ عالمی برادری سے بات کرنے کے لئے کوئی دھڑلے والا سیاستدان کہاں سے لائیں۔ قدرے اطمینان کی بات یہ ہے کہ چین کے بعد اب روس بھی اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے لیکن اس کی وجہ صرف ہماری قابلیت نہیں بلکہ چین کی اقتصادی راہداری کی صورت میں کی گئی سرمایہ کاری ہے، جہاں تک روس کی بات ہے اس میں ہماری خارجہ پالیسی کو بھی کچھ کریڈٹ دینا ہوگا۔ میراخیال ہے کہ نو برس تک مسلسل جمہوری عمل کے جاری رہنے کا ثمر ہے کہ سیاسی قیادت اس قابل ہوگئی ہے کہ امریکہ کے بغیر خطے کے ملکوں کے ساتھ مل کر اپنے مسائل کے حل کے لئے بات چیت کرے، شاید یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بارنائب امریکی ’’وزیرن خارجہ‘‘ ایلس ویلزکو لفٹ نہیں کرائی گئی اور وہ اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرنے پر مجبور ہوگئی۔

ان ساری گھمن گھیریوں کے باوجود ایک سوال پھر بھی ویسے ہی موجود ہے جیسے نا اہلی کے باوجود ایک سیاسی حقیقت کے طور پر میاں نواز شریف مخالفین کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لئے خدشا ت کیا ہیں اور پاکستان کو کرنا کیا چاہیے۔ امریکی صدر کے بیان کے اوپر دیے گئے اقتباس کے آخری دو جملے ( شراکت داری اس طرح نہیں چل سکتی کہ ایک ملک ان دہشتگردوں کو پناہ دے جو امریکیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے یہ وقت ہے کہ وہ امن کے لئے اپنا عزم ظاہر کرے۔ )انتہائی اہم ہیں اور اس کو اگر جنرل نکلسن کے اس بیان کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے جس میں انہوں نے پشاور اور کوئٹہ میں انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کی موجودگی کی بات کی ہے تو سوال اور واضح ہو جاتا ہے۔ امریکہ واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشتگردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے اور پاکستا ن کا یہ موقف ہے کہ وہ ایسا ہی کر رہا ہے لیکن جب اسامہ بن لادن، ملا اخترمنصوراور حقانی کا بیٹا پاکستان میں مارے جاتے ہیں تو پاکستان کا موقف کمزور ہوجاتا ہے۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے ہر واقعے کا کھرا افغانستا ن میں جا نکلتا ہے۔ ملا فضل االلہ اورٹی ٹی پی کی دوسری قیادت افغانستان میں پناہ گزین ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انہیں افغان فورسز کی پوری حمایت اور مدد حاصل ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان جب بھی افغانستان کے ساتھ سرحد پر آمدو رفت کو کسی نظم کے تحت لانے کی بات کرتا ہے تو افغان حکام کے پیٹ میں درد شروع ہوجاتاہے اور امریکہ بہادر بھی اس معاملے پر افغان حکام کی پوری پوری پشت پناہی کرتا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین الگ سے پاکستان کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔

میری تجویز تو ہے یہ کہ پاکستان میں جو مافیا افغان مہاجرین کے نام پر ڈالروں کی لوٹ مار میں مصروف ہے اس کی بیخ کنی کے لئے فوری طور پر افغان مہاجرین کی واپسی یقینی بنائی جائے اور اس میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہ کیا جائے، برادر مسلم ملک کی تھیوری سے اب جان چھڑا لینا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کو باورکرایا جائے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ ہر صورت لگے گی اور اس میں امریکہ کو تعاون کرنا ہوگا کیونکہ سرحد کے اطراف دہشتگردوں کی آمدورفت اسی صورت رک سکتی ہے۔ تیسرا یہ کہ حقانی نیٹ ورک صرف پاکستان کی پیداور نہیں اس میں امریکہ بھی برابر کا شریک ہے اگر پاکستان اپنی حدود میں دہشتگردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا ذمہ دار ہے تو افغانستان میں جہاں امریکی فوج موجود ہے وہاں فضل االلہ سمیت ٹی ٹی پی اور داعش کا خاتمہ امریکہ کی ذمہ داری ہے ورنہ ہوگا وہی جو رضا ربانی نے فرمایا ہے، آپ سے تو اب تک افغانستان نہیں سدھرا، پاکستان ترنوالہ نہیں کہ آپ کو’’ٹڈ پیڑ‘‘ تو اقتصادی راہداری کی ہو لیکن آپ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی آڑ لے کر بلوچستان اور کے پی کے میں ایک بار پھر حملے شروع کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).