سیاسی گھوڑے اور گدھے


چند دن قبل میرا ڈھائی سال کا بیٹا صبح سویرے اپنی ماں کے ساتھ مجھے دفتر چھوڑنے چلا۔ گاڑی میں بیٹھے تو اندازہ ہو ا کہ پیٹرول ڈلوا لینا چاہیے۔ پمپ پر پٹرول ڈلوا رہے تھے کہ میرے برابر میں بیٹھے اس معصوم بچے نے بے ساختہ سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ رادین ہارس۔ میں نے سامنے نظر کی تو گدھا گاڑی جا رہی تھی۔ میں نے کہا بیٹا یہ ہارس نہیں ڈنکی ہے۔ اس نے دوبارہ کہا۔ رادین ہارس۔ تین چار بار کوشش کے باوجود میرا بیٹا گدھے کو گھوڑا ہی کہتا رہا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اپنے ٹیبلٹ پر جو کارٹون ویڈیو موصوف دیکھتے ہیں اس میں گھوڑے کا کلیدی کردار ہے۔ اس لیے ا ن کی نظر میں ہر گدھا گھوڑا ہی ہے۔

آج کل کا میڈیا بھی بالکل اسی طرح جس گدھے کو چاہے گھوڑا بنا کر پیش کرے اور جس گھوڑے کو چاہے گدھا بنا کر پیش کرے۔ ہم جو دیکھیں گے وہی مانیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا الگ الگ طریقے سے گھوڑے پیش کرتا ہے۔ اور کبھی کبھار تو جو گھوڑا ایک میڈیا گروپ پیش کررہا ہوتا ہے اسی کو دوسرا میڈیا گروپ گدھا بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ دماغ کچھ چکرا سا گیا ہے۔

مجھے سیاست کی اتنی سمجھ نہیں ہے۔ میں ٹیبل کے پیچھے بیٹھنے والا ایک عام سا ڈرا ہوا پاکستانی ہوں جس کے مسائل بچوں کی اسکول فیس اور بجلی کے بل کے گرد گھومتے ہیں۔ صبح سے لے کر شام تک خبروں کے گرد گھرا رہتا ہوں۔ عجیب عجیب منظر دکھائی دیتے ہیں ٹی وی پر۔ یہ سارے منظر میرے ڈر اور خوف میں اضافہ کرتے ہیں۔ ریموٹ سے کئی بار چینل بدلتا ہوں مگر مشکل حل نہیں ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر چینل پاکستان سے نشر ہوتا ہے۔ پاکستان کی خبریں دیتا ہے۔ مگر ہر چینل دوسرے سے مختلف خبر دیتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کون سچ کہہ رہا ہے اور کون جھوٹ۔

اگرمیں الف چینل لگاتا تھا تو سب لوگ مل کر یہ ثابت کر رہے ہوتے تھے کہ نواز شریف نے قومی خزانے کو لوٹ لوٹ کر اس کے اندر بھکاری کے کشکول جتنی بھیک چھوڑی تھی۔ اور یہ ہم گدھوں کی خوش نصیبی ہے کہ عمران خان جیسا عظیم لیڈر ہمارے بیچ موجود ہے۔ جو دن رات اس قوم کا قبلہ درست کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مگر جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہم گدھے ہیں اس لیے بات سمجھ نہیں پا رہے۔ ۔ ملی نغموں کے ساتھ جے آئی ٹی میمبرز اور عمران خان کی تصویریں چلا کر یہ بھی سمجھایا جاتا کہ یہ سب ہمارے قومی ہیروز ہیں کیونکہ انہوں نے نواز شریف کی چوری پکڑ لی۔ انہی کی وجہ سے نواز شریف کو فارغ کردیا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف نے مجھے کیوں نکالا کی جو ریلی نکالی اس میں عوام نہ ہونے کے برابر تھی۔ نواز شریف فلاپ شو پیش کرنے کے بعد گھر پہنچ گئے۔ پھر ایک خاتون کا معاملہ یوں سمجھایا جاتا تھا کہ خاتون نے پیسے لے کر عمران خان پر الزام لگایا ہے۔ الزام میں کروں تو سالا کریکٹر ڈھیلا ہے ٹائپ کا تھا۔ مگر الف چینل کے مطابق خاتون بہت کرپٹ ہیں۔ تقریباً جتنے بھی ٹھیکے انہوں نے اپنے علاقے میں دیے ہیں سب پر کمیشن کھائی ہے۔ نوکریاں پیسوں پر بیچی ہیں۔ ایک صاحب جو ان کے معاون تھے ٹوپی پہن کر روز ان کی اس بددیانتی کے ثبوت پیش کرتے تھے۔

انہی دنوں میں جب ب چینل دیکھا تو لگا کہ الف چینل تو شاید سوڈان سے نشر ہورہا تھا۔ ب چینل کے مطابق نواز شریف کو صرف اس بات پر نکالا گیا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں سے تنخواہ نہیں لی۔ اور یہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ نواز شریف کے اوپر کوئی چوری کا الزام ثابت ہو ہی نہیں سکا۔ عمران کی سیاسی بصیرت نہ ہونے کے برابر ہے۔ جن خاتون نے الزام لگائے ہیں وہ بالکل درست فرما رہی ہیں۔ بلکہ انہوں نے تو ثبوت بھی ب چینل کے چند لوگوں کو دکھا دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کیریکٹر ڈھیلا ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد نواز شریف کی مجھے کیوں نکالا ریلی میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ سب نے یا اللہ یا رسول نواز شریف بے قصور کہہ کر نواز شریف کو سرخرو کردیا۔

اس سب کے بیچ میں ایک مزے دار بات سنیے۔ پیپلز پارٹی ان دونوں کے بعد تیسری سیاسی جماعت ہے۔ یوں سمجھیے کہ میچ کے دوران اس تیسری سیاسی جماعت کا کردار تماشائی کا تھا مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جوں جوں میچ اپنے انجام پر پہنچ رہا ہے لگ یوں رہا ہے کہ بغیر کھیلے پیپلز پارٹی یہ میچ جیت رہی ہے۔ الف اور ب دونوں اسے اپنے گھوڑوں کی لسٹ میں شامل نہیں کرتے۔ شاید آنے والے دنوں میں کرلیں۔

الف اور ب میں صرف ایک ہی بات یکساں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو چور اور ٹھگ کہتے ہیں۔ ان دونوں کی اس لڑائی میں میں بیوقوف یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کون گھوڑا ہے اور کون گدھا۔ یا میں بھی ہر چو پائے کو گھوڑا ہی سمجھوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).