عفریت اور بونوں کا شہر – مکمل کالم


اس چھوٹے سے شہر میں یہ واقعہ بہت عجیب تھا اس لیے بات جلدی پھیل گئی۔ شہر کی ایک گمنام سی بستی کو جانے والے راستے پر ایک آدمی تقریباً بیہوشی کی حالت میں سڑک کے کنارے پڑا ہوا ملا۔ یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ اکثر لوگ یوں سڑک پر گرے پڑے مل جاتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر لوگ نشے کی زیادتی کی وجہ سے اس حالت کو پہنچتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ سڑک پر لڑھک جانے کی وجہ سے کبھی کبھار ایسا کوئی شخص تیز رفتار گاڑی کی زد میں آ بھی جاتا ہے۔

مگر جس شخص کی بات ہم کر رہے ہیں وہ ان لا وارث لوگوں میں سے نہیں تھا اور نہ ہی یہ علاقہ ایسے نشہ بازوں کا تھا۔ یہ کسی اچھے گھرانے کا ادھیڑ عمر شخص تھا، سرخ و سپید چہرے سے اس کی صحت مندی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا، موسم کے مطابق اس کا لباس بھی موزوں تھا مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کے کپڑے گیلے تھے، یوں لگتا تھا جیسے وہ کہیں سے نہا کر آیا ہو۔ جب اسے ہوش میں لایا گیا تو وہ کئی منٹ تک خالی خالی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا ریا، پھر اس نے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالیں جو سننے والوں کے لیے ناقابل فہم تھیں، انہیں یوں لگا جیسے یہ کسی دوسرے سیارے کی زبان بول رہا ہو۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ شخص شدید خوف کی وجہ سے وقتی طور پر اپنے حواس کھو بیٹھا ہے اور اسے نارمل ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ بہر حال جب اس شخص کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے اپنی اس حالت کی جو وجہ بیان کی وہ ناقابل یقین تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ حسب معمول رات کو گھر سے چہل قدمی کے لیے نکلا تھا، چند منٹ کی ٹہل کے بعد جب وہ واپس جانے کے لیے مڑا تو اسے یوں لگا جیسے کسی مقناطیسی قوت نے ایک لمحے کے لیے اسے اوپر اٹھا یا اور پھر یک دم واپس زمین پر پٹخ دیا ہو۔

اپنے گیلے کپڑوں کے بارے میں وہ کوئی توجیہہ پیش نہ کر سکا، کسی نے کہا کہ شاید وہ نہر میں گر گیا ہوگا مگر یہ بات بے سروپا تھی کیونکہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، نہر وہاں سے تقریباً دس میل دور تھی۔ بات جو بھی ہو، زیادہ تر لوگوں نے اس واقعے پر یقین نہیں کیا جبکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس شخص پر کسی آسیب نے اثر دکھایا ہے۔

شہر کے لوگ شاید یہ بات بھول بھال جاتے مگر پھر پے درپے کچھ ایسے واقعات ہونے لگے کہ انہیں اس واقعے کا بھی یقین آ گیا۔ دارالحکومت کو جانے والی شاہراہ پر اچانک ایک گاڑی چلتے چلتے بے قابو ہو گئی اور اپنے آگے پیچھے چلنے والی گاڑیوں سے ٹکرا گئی۔ ڈرائیور کو پولیس نے گرفتار کیا تو اس نے بیان دیا کہ گاڑی چلاتے ہوئے اچانک اسے یوں لگا جیسے اس کے سٹیرنگ ویل پر کسی نے قبضہ کر لیا ہو، وہ گاڑی کو دائیں طرف گھماتا تو وہ بائیں طرف مڑ جاتی اور بریک لگاتا تو تیز بھاگنے لگتی، اس نے بتایا کہ دوسری گاڑیوں سے ٹکرانے کے بعد گاڑی خود بخود رک گئی تھی۔ اسی روز شہر کے واحد تھیٹر میں

بھی ایک عجیب و غریب واقعے نے ہراس پھیلا دیا۔ تماشے کے دوران جو اداکار مکالمے بول رہا تھا اچانک اس کی آواز دھیمی ہونا شروع ہو گئی، تماش بینوں نے سمجھا کہ شاید یہ بھی کسی قسم کی اداکاری ہے مگر انہوں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اداکار اپنا گلا پکڑے بیٹھا ہے اور شدید اذیت کا شکار ہے اور اس کے گلے سے گھٹی گھٹی آوازیں نکل رہی ہیں۔ تماشا فوراً روک دیا گیا۔ اگلے دن کے اخبار میں یہ تمام خبریں جلی حروف میں شائع ہوئیں۔

اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ روزانہ ایسے کسی واقعے کی اطلاع ملتی اور پھر آناً فاناً اس واقعے کی خبر پورے شہر میں پھیل جاتی۔ اس ماحول میں افواہوں کا بازار بھی گرم ہو گیا۔ لوگوں نے یہ خبریں اڑانی شروع کر دیں کہ ایسے تمام واقعات صرف ان لوگوں کے ساتھ پیش آ رہے ہیں جن کا تعلق بالائی اور مراعات یافتہ طبقے سے ہے سو یہ ایک قسم کا ان پر خدا کا عذاب ہے۔ مگر جلد ہی ان افواہوں کا بھید کھل گیا۔ ایک واقعہ شہر کی سب سے بڑی عبادت گاہ کے عین سامنے اس وقت پیش آیا جب لوگ وہاں سے نکل رہے تھے، انہی میں ایک بے حد متقی اور پرہیز گار شخص بھی تھا جسے سب پہچانتے تھے، اچانک لوگوں نے دیکھا کہ اس شخص کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹنا شروع ہو گئے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا لباس تار تار ہو گیا اور وہ لوگوں کے سامنے نیم برہنہ ہو گیا۔

اس چھوٹے سے شہر کے لوگ اب سراسیمگی کا شکار ہو چکے تھے۔ کچھ لوگوں نے خود کو گھروں میں محصور کر لیا تھا اور کچھ لوگ اس شہر سے نقل مکانی کا سوچ رہے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے بچوں کو شہر سے دور رشتہ داروں کی طرف بھیج دیا تھا، ان کا خیال تھا کہ جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو انہیں واپس بلا لیں گے۔ ایسے میں چند بے خوف لوگ بھی تھے جو سراسیمگی کی اس فضا میں بھی کاروبار زندگی جاری رکھے ہوئے تھے، ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے دراصل شہر کے باسیوں کو مستقلاً ایک انجانے خوف میں رکھنے کے لیے ہو رہا ہے تاکہ ان کی زندگیوں پر مکمل اختیار حاصل کیا جا سکے۔

ان لوگوں نے شہر کے باسیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہر طاقت کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے لہذا کوئی طریقہ وضع کر کے اس اندیکھی طاقت کی حدود کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے، صرف اسی صورت میں شہر کو اس انجانے خوف سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ مگر ان لوگوں کی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔ شہر کے زیادہ تر لوگوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ لوگ اب بلا ضرورت باہر نہیں نکلتے تھے، وہ صرف اپنے کام پر جاتے اور سیدھے گھر واپس آ جاتے، انہیں اب کسی کھیل تماشے سے رغبت نہیں رہی تھی، ہر قسم کی محفل میں اٹھنا بیٹھنا بھی انہوں نے چھوڑ دیا تھا، ویسے بھی شہر میں اب کوئی تھیٹر رہا تھا اور نہ کوئی تفریح گاہ، سر شام ہی ہو کا عالم طاری ہو جاتا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کی فکر کرنے لگتے۔ میلے ٹھیلے اور تہوار بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ اگر کہیں کوئی تہوار منایا بھی جاتا تو لوگ اس میں میکانکی انداز میں ہی شرکت کرتے، انہیں ہر دم یہ خوف لاحق رہتا کہ کہیں کوئی مقناطیسی قوت انہیں اٹھا کر زمین پر نہ پٹخ دے یا ان کا گلا نہ گھونٹ دے یا انہیں سر عام برہنہ نہ کردے!

شہر کے لوگوں کا خیال تھا کہ جلد یا بدیر انہیں اس عفریت سے نجات دلانے کے لیے کوئی مسیحا یا ضرور آئے گا چنانچہ لوگوں نے اس مقصد کے لیے عبادت گاہوں میں دعائیں مانگنی شروع کردیں۔ شہر کے بڑے چبوترے پر ہر ہفتے کسی جانور کی قربانی دی جاتی اور چڑھاوے چڑھائے جاتے۔ جو لوگ ان باتوں کے قائل نہیں تھے انہوں نے بھی اب اس معاملے میں چپ سادھ لی تھی، شاید ان کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ لیکن کوئی نہیں مسیحا آیا۔ اور پھر یوں ہوا کہ خوف کی فضا کے زیر اثر اس شہر کے لوگ آہستہ آہستہ لاغر اور پستہ قد ہونے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بونے ہو گئے۔ یہ شہر اب بونوں کا شہر کہلاتا ہے۔ اس شہر میں صرف گنتی کے چند لوگ ہیں جو پورے قد کے ساتھ بلا خوف اب بھی کھڑے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے شہر کے باسیوں کو حوصلہ دلانے کی کوشش کی تھی۔ بونے حیرت سے انہیں دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ آخر یہ اب تک بونے کیوں نہیں بنے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada