چھوٹے چوزے کی یخنی


\"inam-rana\"

ایک برطانوی عدالت نے چار پاکستانیوں اور انکی دو برٹش خواتین ساتھیوں کو کل قریب ایک سو تین سال کی سزا سنائی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ چھوٹی عمر کی بچیوں سے زیادتی کے مرتکب ہوئے۔ راتھرم کے رہائشی مجرموں میں ارشد، بشارت اور بنارس سگے بھائی تھے اور قربان ان کا سگا چچا۔ مجرم چھوٹی عمر کی بچیوں کو نہ صرف جنسی ہوس کا نشانہ بناتے تھے بلکہ ان کو جسم فروشی کے لیے استعمال کرنے کے دھندے میں بھی ملوث تھے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایسے واقعات اور ان میں پاکستانیوں کا کردار کافی گرم موضوع بحث بنا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے گروہ دوسری قوموں کے بھی موجود ہیں، مگر ہمارا دکھ تو یہ پاکستانی ہی ہیں۔

سوچتا ہوں کہ کیا یہ واقعہ ایک انفرادی واقعہ ہے؟ یا پھر یہ اس سوچ کا مظہر ہے جو ہم اپنائے ہوئے ہیں۔ ان میں پہلی سوچ تو یہ ہے کہ کہ ہر گوری ایک فاحشہ ہے جو ہر وقت بستر پر جانے کو تیار رہتی ہے۔ صاحبو آپ کو یہ جان کر شاید مایوسی ہو کہ اکثر گوری خواتین فاحشہ نہیں ہوتیں، خواہ وہ اپنے ملک میں ہونے والے ایشو پر فلم ہی بنا لیں۔ مغرب نے سیکس کو انسان کی بنیادی ضرورت اور دو یا دو سے زائد افراد کا انفرادی معاملہ جان کر اسے قانون کی پابندی سے آزاد کر دیا ہے۔ سو ایک مرد اور عورت جب چاہیں کسی قانونی رشتے میں بندھے بغیر بھی ایک دوسرے سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں دو چیزوں پر قانون بہت سخت ہے۔ ایک فریقین کی رضامندی اور دوسرا ایسا فیصلہ کرنے صلاحیت۔ چنانچہ اگر کسی بھی مرحلے، حتی کے دوران عمل، ایک فریق کا ارادہ بدل جائے تو دوسرا فریق اسے مجبور نہیں کر سکتا۔ ہمارے بہت سے دوست اسی وجہ سے پھنس جاتے ہیں کہ جب بیڈ پہ بلا لیا تو اب ناں کیسی۔ دوسرا کوئی بھی ایک فریق دماغی طور پر اس حالت یا عمر میں نہ ہو کہ وہ آزادانہ اور سوچ سمجھ کر فیصلہ نہ کر سکے تو اسکا فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اسی لیے سمجھدار برے سے برے مرد چھوٹی لڑکیوں اور شراب پی ہوئی عورتوں کے سامنے ’میں تو تمھیں بہن سمجھتا ہوں‘ والا \"12047651_10153999317551667_463219458_n\"رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔

مغرب میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سولہ سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکا جذباتی طور پر اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ وہ کسی کے ساتھ سیکس کرنے جیسا فیصلہ آزادانہ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ یہ ایک بالغ، یعنی اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر، کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے کسی نابالغ کی اس کمزوری کا فائدہ نہ اٹھائے۔ اس عمر کے بچے بچیاں آپس میں جو کریں سو کریں، جونہی دوسرا فریق بالغ ہو گا، یہ اس کی قانونی ذمہ داری ہے کہ موقع سے فائدہ نہ اٹھائے۔ میں خود بہت سے مواقع کا گواہ ہوں جہاں یہ کم عمر اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن اس قانون کا جس قدر فائدہ ان نو عمروں کو ہوتا ہے، وہ اس سے ہونے والے نقصان کا عشر عشیر بھی نہیں۔

اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جرم ہوتا ہے۔ اس میں مغربی اور مشرقی دونوں ہی طرح کے مجرم ہیں۔ مگر افسوس کہ ان میں اکثریت ’ہماری‘ ہی ہوتی ہے۔ دراصل ایک تو ہمارے لوگ، جیسا پہلے کہا، ہر گوری کو ایک فاحشہ ہی تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم یہ بجا سمجھتے ہیں کہ انگلش کے the کی طرح پنجابی کا ’دا‘ بھی جہاں لگے لگا دینا چاہیے۔ دوسرا مغرب میں فیملی یونٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ٹین ایج کے اکثر بچے، تیسری امی یا چوتھے ابو کے ہاتھوں تنگ ہو کر نشے اور آوارہ گردی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں ان کا استحصال اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل راچڈیل سے گرفتار پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں کا گروپ اسی طرح کی بچیوں سے اجتماعی زیادتی اور انھیں ایک دوسرے کو فقط سگریٹ کی ڈبی کے عوض تحفتاً دینے کا مرتکب ہوا تھا۔ تیسرا، یہ ننگا سچ ہے کہ انسانی معاشرے میں ابھی تک چھوٹی عمر کی بچیوں سے رغبت کی پسماندہ سوچ موجود ہے جو رفاقت کی بجائے تحکم کی عکاسی کرتی ہے۔

کئی سال پرانا قصہ ہے۔ ہم لاہور میں ایک کبابئے کے گاہک تھے۔ محلے کی چھوٹی سی دوکان کا مالک کبابیا اپنی بارہ تیرہ برس کی بچی کو بھی ساتھ کھڑا کرتا تھا۔ ہمارا ایک دوست اپنا معدہ خراب کر بیٹھا روز کباب کھا کھا کر صرف اس بچی کو روز دیکھنے اور اس سے ذومعنی گفتگو کرنے کے لیے۔ ایک دن میں نے چڑ کر اس سے کہا کہ تجھے آخر اس لڑکا نما لڑکی میں نظر کیا \"12834656_10153999317676667_1783216912_n\"آتا ہے۔ اس نے ایک تلذذ بھری سسکی بھر کر کہا، ’رانے بس دو سال، کیا کمال چیز نکلے گی۔ ظالم، بچی پال کر حاصل کرنے کا جو مزہ ہے تجھے کیا معلوم\”۔ میں آج بھی اسے ملوں تو انسانی دھڑ پر درندے کا چہرہ نظر آتا ہے۔ مگر وہ اکیلا ہی تو نہیں تھا۔ اس دھرتی پر چھوٹی عمر کا نہ لڑکا محفوظ ہے نا لڑکی۔ مدرسے کے کمرے سے لے کر آواری کے سوئیٹ تک اور بنوں کے پہاڑوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک، کتنے ہی ایسے دھڑ ہیں جن پر درندوں کے چہرے سجے ہیں اور وہ جنسی سسکاریاں بھرتے نابالغ بچوں کا شکار کرتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ چھوٹی عمر کی شادیوں کے بارے میں سماجی تاویلات کیا ہیں۔ مگر ناسمجھ کو ہوس کا نشانہ بنانے کی خواہش کی تاویل کیا ہو سکتی ہے۔ وہ نابالغ، جو جنسی تعلق کا مفہوم ہی نہی سمجھتا، باقی عمر کس عذاب سے گزرتا ہے؛ کاش کوئی لفظ اس کو بیان کر سکتا۔ واجدہ تبسم کے ایک افسانے میں استعمال ہوئی اصطلاح ہمیشہ میرا پیچھا کرتی ہے۔ حیدرآباد کے نواب صاحب کو کم عمر بچیوں کا شوق تھا۔ ایک ایسی ہی کم عمر بچی کے لٹنے اور زخم زخم ہونے پر کہتے ہیں ’آخر حکماء بھی تو بڑی عمر کے مردوں کو چوزے کی یخنی تجویز کرتے ہیں\”۔ شاید ہم سب نے یہ افسانہ پڑھا اور چوزے دھونڈنے نکل پڑے۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
17 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments