شاہ والی سے آگے کوئی تھانہ نہیں


یہ کالم آپ تک پہنچے گا تو اگست کا آخری دن ہو گا۔ ستمبر آن پہنچا ہے۔ اس ملک میں ہم نے ستر ستمبر دیکھے۔ بابائے قوم کا انتقال اسی مہینے میں ہوا تھا۔ 65 کی جنگ ہم نے اس مہینے میں لڑی۔ تاہم ایسا فیصلہ کن ستمبر ہماری تاریخ میں شاید ہی کبھی آیا ہو۔ اس برس ستمبر کی 21 تاریخ تک قومی منظر نامے کی بنتی بگڑتی تصویر کے بہت سے خدوخال واضح ہو جائیں گے۔ دیکھنا ہو گا کہ حدت برقرار رہتی ہے یا مینہ برسے گا۔ بارش ہوئی تو سیلاب پر نظر رکھنا ہو گی۔ دل ٹھکانے آئے گا یا دماغ بے ٹھکانہ ہو گا۔ ستمبر 1973 میں پنوشے نے چلی میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ سیلوا ڈور الاندے، وکٹر ہارا اور پابلو نیرودا مارے گئے۔ 1973 کا نائن الیون امریکا کی شہ پر کیا گیا تھا۔ ستمبر 2001 میں سرد جنگ کی بے اعتدالیاں رنگ لائیں اور نیویارک پر حملے ہوئے۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ شاہ والی سے آگے کوئی تھانہ نہیں۔ لاہور سے آنے والا یہ نرم گو سیاست دان کبھی ایسا بے دریغ نہیں ہوا۔ اس شیر کی کھال میں یہ طوفان معنی سے خالی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے لاہور میں ڈیرے لگا رکھے ہیں۔ میاں نواز شریف اور این اے 120 سے قومی اسمبلی کی امیدوار بیگم کلثوم نواز بوجوہ ملک سے باہر ہیں۔ ایسے میں 17 ستمبر کو ایک دلچسپ نتیجہ سامنے آئے گا۔ آصف زرداری اور ان کے رفقا کی ایک کے بعد ایک مقدمے میں داد رسی ہو رہی ہے۔ بیس برس تک اس رسی سے پھندہ بنایا گیا۔ اب یہ رسی دراز کر دی گئی ہے۔ عقل مندوں کے لئے اس میں اشارے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے فیصل میر پختہ کار سیاسی کارکن ہیں۔ ضمنی انتخاب میں ان کے ووٹوں کی تعداد بہت کچھ بتا دے گی۔ فی الحال غیر جانبدار اور غیر سیاسی شناخت کے دعوے دار مال روڈ پر دندنا رہے ہیں۔ گویا غیر سیاسی سیاست کا ذوق ختم نہیں ہوا۔

ایک چنوتی معیشت کے میز پر رکھی ہے۔ ایک خطرہ سرحدوں پر منڈلا رہا ہے۔ ایک ابھرتا ہوا تنازع مردم شماری کے اعداد و شمار میں رکھا ہے۔ اگر ملک کے باشندوں کی گنتی پر عدم اعتماد ہے تو ووٹوں کی گنتی پر کیسے اتفاق ہو گا۔ نگران حکومتوں کی تشکیل میں کیا کیا جاں گسل مرحلے درپیش ہوں گے؟ سینٹ کے چیئرمین محترم رضا ربانی نے بنیادی قومی امور پر وسیع تر مکالمے کی جو تجویز دی تھی، وہ ہماری کوتاہ بصری کی نذر ہو گئی۔ رضا ربانی کی اپنی جماعت اس تجویز پر سنجیدہ نہیں ہو سکی تو اس پر کیا خاک پیش رفت ہو گی۔ اس دوران افغانستان اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کے ریاستی موقف کے حق میں نت نئی دلیلیں گھڑنے کا شغل جاری ہے۔ اپنے اور بیگانے، آ گئے ہیں سمجھانے، اپنی وحشت دل کے، گھڑ لئے ہیں افسانے…. دوسروں کو کیا قائل کریں گے، ہمارا اپنا جی ان دلائل پر ٹھکنے سے معذور ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ افغان طالبان نے افغانستان کے 60 ٪ رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے، انہیں پاکستان میں چھپنے کی کیا ضرورت ہے۔ خواجہ صاحب جہاں دیدہ بینکار ہیں۔ جانتے ہیں کہ بینک میں روپیہ پیسہ میز پر نہیں رکھا جاتا۔ ایک خاص الماری میں مقفل کر کے چابی ایک بااعتماد اہل کار کو تھما دی جاتی ہے۔ خواجہ صاحب چھاپہ مار لڑائی کی اچھی منطق بتاتے ہیں۔ منظم فوج سے لڑنے والی گوریلا سپاہ کا زمینی قبضہ دھوپ چھاؤں کا کھیل ہوتا ہے۔ وہ ڈال ڈال، ہم پات پات…. فیصلہ کن نکتہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں دباو ¿ بڑھ جائے تو نقاب اوڑھ کر کس طرف کا رخ کیا جاتا ہے۔ ملا عمر تو موٹر سائیکل پر بیٹھ کر نکلے تھے…. اک ستارہ تھا کہ افلاک پہن کر نکلا…. ہمارا اپنا موقف ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے منظم ٹھکانے ہم نے ختم کر دیے مگر ان کے مستقر سرحد پار افغانستان میں ہیں۔ دہشت گرد روپ بدل کر دبے پاؤں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ سوات کی وادی میں آپریشن راہ نجات شروع ہوا تو ملا فضل اللہ بھاگ کر افغانستان چلا گیا تھا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ملا فضل اللہ کو نیست و نابود کیا جائے۔ ایسا مطالبہ یک طرفہ تو نہیں ہو سکتا۔ مطلق انکار اور کلی ابطال کا رویہ اختیار کرنے سے بین الاقوامی برادری قائل نہیں ہو گی۔ جنہیں خارجہ امور میں دست گاہ تھی وہ تو عبوری دور کے خد وخال سلجھانے میں مصروف ہیں۔ کتاب البتہ ان کی انگریزی اور اردو میں چھپ گئی ہے۔ وہ نہ فاختہ ہیں اور نہ عقاب۔ فاختہ بنیں تو سفارت کاری کی دال نہیں گلتی، عقاب بننا چاہیں تو خس خانہ و برفاب کا سوال درپیش ہوتا ہے۔ سو، بیٹھے سیاسی دستار کے پیچ گن رہے ہیں۔

برادر عزیز کہتے ہیں کہ امریکا سے پوچھا جائے کہ افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ پوست اگانے والا ملک کیسے بن گیا؟ حضور آپ کے بھائی بند فرماتے ہیں کہ 60 ٪ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے۔ پوست شہروں میں نہیں اگائی جاتی، دیہات میں کاشت ہوتی ہے۔ اس الجھی ہوئی ڈور سے دلیل کی جو پتنگ اڑائی جائے گی وہ زیادہ دور نہیں جا سکے گی۔ استاذی امتیاز عالم نے کچھ جمع تفریق کر کے ببانگ دہل امریکی ارادوں کا پول کھولا ہے۔ امتیاز عالم انقلابی افتاد رکھتے ہیں۔ دسمبر 2001 میں فرماتے تھے کہ طالبان افغانستان کے مزدور کسان یعنی پرولتاری طبقہ ہیں۔ ہم انتظار کرتے رہے کہ افغان پرولتاریہ کے ذرائع پیداوار اور شرح نمو بھی بتائی جائے گی لیکن مذعومہ مزدور کسان ہمارے بہن بھائیوں کے سر کاٹتے رہے، ہمارے نونہالوں کی فصل برباد کرتے رہے۔ تاریخی مادیت کا مثلہ کرنے کی یہ ترکیب یورپ کے انتہائی بائیں بازو نے دریافت کی تھی، اب یہ معجون شاہ والی کے تھانے تک پہنچ گیا ہے۔

وزارت عظمیٰ سے سبک دوش ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے ارکان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شاہ والی سے آگے کوئی تھانہ نہیں۔ یہ ایک بلیغ استعارہ تھا، ممکن ہے کچھ بابا لوگ کو اس کا ابلاغ نہ ہوا ہو۔ پنجاب کے انتہائی جنوب میں رحیم یار خان ضلع کی آخری سرحد پر شاہ والی کا تھانہ ہے۔ ایک انسپکٹر پولیس حالات و واقعات کی روشنی میں پے در پے تنزلی اور دور دراز پر مقامات ہر تبادلے کے مراحل سے گزرتے ہوئے کانسٹیبل کے عہدہ جلیلہ پر شاہ والی تھانے میں تعنیات کر دیے گئے۔ ان کے افسر نے تھانے کا دورہ کیا تو کانسٹیبل مذکور میز پر ٹانگیں رکھے سیگرٹ پی رہے تھے۔ اٹھ کر سیلوٹ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ افسر نے آگ بگولہ ہو کر اس شپرہ چشمی کا سبب پوچھا۔ بے نیازی سے جواب دیا کہ کانسٹیبل سے نیچے عہدہ نہیں اور شاہ والی سے آگے پنجاب پولیس کا تھانہ نہیں۔ اب آپ مزید کیا بگاڑ لیں گے۔ مگر قوم کی معیشت، دفاع، استحکام اور ترقی ایسے معاملات نہیں جنہیں شاہ والی تھانے کو تفویض کر دیا جائے۔ شاعر نے امید کی تھی کہ جھوکاں تھی سن ول آباد…. اس خواب کو اسلام آباد سمیت ملک کے کونے کونے میں احترام دینا چاہیے۔ ستمبر اس کے لئے نہایت موزوں مہینہ ہے۔

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).