مسکان خان کا دفاع کرنے والے پاکستانیوں کی اپنی اخلاقی قامت پر سوالیہ نشان


بھارتی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی کالج کی 19 سالہ مسلم طالبہ مسکان خان تعلیم تک رسائی کے لیے عورتوں کی جدوجہد کا استعارہ بن گئی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں بہت سے لوگ مسکان خان کی بہادری کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رواں مہینے کے ابتدائی دنوں میں جنوب ایشیائی خطے کے ان گنت لوگوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے والی ایک ویڈیو دیکھی جس میں سر پر سیاہ اسکارف پہنے ایک مسلم طالبہ مسکان خان کو زعفرانی شالے لہراتے مردوں کے ایک جارحانہ ہجوم کی طرف سے ہراساں کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ زعفرانی رنگ کو اکثر ہندو قوم پرستی اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مسکان خان 8 فروری کو کرناٹک کے جنوبی شہر منڈیا میں ایک سکوٹر پر اپنے کالج پہنچی تو اسے ہراساں کرنے والوں کے ایک ہجوم کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پسپا ہونے کی بجائے ڈٹ کر شرپسند نوجوانوں کا مقابلہ کیا جس پر اسے ہر طرف سے سراہا جا رہا ہے۔ جب ہجوم نے ”جے شری رام“ کے نعرے لگائے تو مسکان خان نے جواب میں ”اللہ اکبر“ کا نعرہ بلند کیا یہاں تک کہ کالج کے اہلکار اسے ہجوم سے بچانے آ پہنچے۔

یہ واقعہ ان دنوں پیش آیا جب حجاب پہننے کا تنازع پہلے سے سلگ رہا تھا۔ کرناٹک کے کچھ کالجوں کی انتظامیہ نے مسلمان طالبات کو حکم دیا ہے کہ وہ کمرہ جماعت میں حجاب نہیں پہن سکتیں۔ کرناٹک کے ایک کالج کے منتظمین نے سر پر اسکارف پہننے والی مسلم طالبات کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے ہیں۔ اس ماحول میں ایک کالج کے سامنے غیر مسلم طلبا کے اشتعال انگیز احتجاج سے میڈیا کی توجہ بھی اس طرف مبذول ہوئی۔ حجاب پر پابندی کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آئین تمام ہندوستانیوں کو اپنی پسند کے کپڑے پہننے کی اجازت دیتا ہے۔ بھارت میں بہت سے آزاد خیال ہندو مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی کی مخالفت کر چکے ہیں۔

توقع کے عین مطابق، پاکستان میں بہت سے لوگوں نے مسکان خان کی حمایت شروع کر دی۔ پاکستان میں اردو شاعروں نے انہیں ”شیرنی“ اور اسلام کی سچی بیٹی قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت نے حجاب پر پابندی کے بارے میں اسلام آباد کے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے ہندوستان کے سفارتی ایلچی کو طلب کیا ہے۔ پاکستانی وزراء بھی مسکان خان کی حمایت میں پیش پیش ہیں۔ ایک پاکستانی مذہبی رہنما نے مسکان خان کے لئے سونے کے تمغے کا اعلان کیا ہے۔ دیا۔

سی این این پر فرید زکریا کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہندوستان ایک نسل پرست نظریے کی لپیٹ میں آ گیا ہے جس سے مذہبی اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ فرید زکریا ان سے پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کی ناقابل رشک صورت حال پر سوال کر سکتے تھے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ گزشتہ مہینے پشاور میں ایک عیسائی پادری کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پشاور اس صوبے کا دارالحکومت ہے جہاں عمران خان کی پارٹی 2013 سے برسراقتدار ہے۔ دسمبر میں صوبہ پنجاب میں ایک سری لنکن شخص کو توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں قتل کر دیا گیا تھا۔ رواں ماہ کے شروع میں جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال میں مشتعل ہجوم نے ایک ذہنی مریض کو سفاکی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ عمران خان اور ان کے وزراء کو اس بات پر کوئی تشویش محسوس نہیں ہوتی کہ ہیومن رائٹس واچ (HRW) کی مرتب کردہ حالیہ عالمی رپورٹ 2022 میں انسانی حقوق کی تقابلی خلاف ورزیوں پر ہندوستان اور پاکستان دونوں کی یکساں مذمت کی گئی ہے۔

ہر اس شخص کو مسکان خان کی حمایت کرنی چاہیے جو مذہبی آزادی اور تعلیم کے حق پر یقین رکھتا ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے اس تنازع پر بالکل درست ردعمل دیا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ”لڑکیوں کو حجاب میں اسکول جانے سے روکنا خوفناک ہے“ ۔ اس کے باوجود مسکان خان کی حمایت کرنے والے بہت سے پاکستانی آج بھی ملالہ یوسفزئی کو پسند نہیں کرتے۔ بیرون ملک اسے عزت و احترام دیا جاتا ہے لیکن اس کے اپنے ملک میں بہت سے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ لڑکیوں کے حق تعلیم کی علمبردار ہے۔

گزشتہ برس عمران خان کی حکومت نے کتابوں کی دکانوں سے ایسی نصابی کتب کو ہٹا دیا جن میں ملالہ یوسفزئی کا تذکرہ پایا جاتا تھا۔ اس عمل سے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد کی منافقت بے نقاب ہوتی ہے۔ بھارت میں مسکان خان پر آوازے کسنے والوں اور اور پاکستان میں ملالہ یوسف زئی سے نفرت کرنے والوں میں اصولی طور پر کیا فرق ہے؟

بہت سے ہندوستانی اور پاکستانی ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان میں کچھ ایسا زیادہ فرق نہیں ہے۔ ہندوستانی انتہا پسند بھارت میں اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستانی انتہا پسند پاکستان میں اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی سرپرستی میں ہندو انتہا پسند خواتین صحافیوں کو منظم طریقے سے ہراساں کرنے میں ملوث ہیں۔ پاکستان میں حکمران جماعت سے وابستہ بہت سے خود ساختہ ”سائبر کمانڈوز“ اسلام اور حب الوطنی کے نام پر ایسا ہی کر رہے ہیں۔

حال ہی میں پاکستانی صحافی غریدہ فاروقی پر حکمران جماعت کے آن لائن حامیوں نے سخت حملہ کیا کیونکہ ان کے ٹیلی ویژن شو میں کچھ مہمانوں نے ایک حکومتی وزیر کے بارے میں متنازع ریمارکس دیے تھے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے فوری طور پر متعلقہ چینل کو سرکاری طور پر سرزنش جاری کی (نیز تبصرہ کرنے والے صحافی کو گرفتار کر لیا) ۔ یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستانی حکومت نفرت انگیز مہمات میں بہت سی خواتین صحافیوں کو نشانہ بناتی ہے۔ عاصمہ شیرازی پاکستان کی ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جو اپنے شو میں سر پر اسکارف پہنتی ہیں، لیکن حال ہی میں حکومت کے حامی ٹرولز نے انہیں ”حجاب میں طوائف“ قرار دیا۔ ایک اور خاتون صحافی عائشہ خالد نے حال ہی میں آن لائن دھمکیوں کے بعد صحافت کے پیشے ہی کو خیر باد کہہ دیا۔

ہمیں بھارت میں مسکان خان کی حمایت ضرور کرنی چاہیے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان میں ان جیسی بہت سی خواتین کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کے محافظوں کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال کم از کم 1000 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ ”عزت“ کو اکثر جنسی تشدد کے بہانے کے طور بھی پر استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی خواتین کو جنسی ہراسانی اور جسمانی حملوں سے بچانے کے لیے زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کریں۔ اس سے ہمیں ہندوستان میں مسلم خواتین کی حمایت میں بہتر اخلاقی حیثیت حاصل ہو گی۔

بشکریہ: واشنگٹن پوسٹ (اردو ترجمہ: وجاہت مسعود) 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments