گرمیت رام رحیم اور ہمارے سیاسی و مذہبی گرو


ہندوستان کی ریاست ہریانہ کے رہنے والے اپنے ایک الگ مذہبی عقیدے کے گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو اپنی مرید عورتوں کی عزت لوٹنے کے دو الگ الگ مقدمات میں دس دس سال کی قید کی سزا ہوئی جس کے خلاف احتجاج کے دوران اب تک 38 لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔

ان کی سزا کے خلاف ایسا پرتشدد احتجاج کرنے والے بادی النظر میں پڑھے لکھے نوجوان ہیں جو اپنے گرو کو ایسے الزامات سے مبرا ایک مافوق الفطرت ہستی سمجھتے ہیں۔ گرو گرمیت کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے کہ وہ اداکاری سے لے کر گلوکاری اور شاعری میں بھی یکتائے روزگار ہونے کا نہ صرف دعویدار ہیں بلکہ کسی نہ کسی طور پر اپنے دعوے کو ثابت بھی کر چکے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے کہنے پر ان کے 400 مریدوں نے خود کو مردانہ وصف سے محروم کردیا تاکہ وہ خدا کے اور زیادہ نزدیک آسکیں۔ ان کے گانوں کی کیسٹ ہو یا ان کی فلم، ناقدین کی رائے کے برعکس فوراً ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ انھوں نے سچا سودا نام کی تنظیم سے انسانی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات اور خیالات کا ایسا پرچار کیا ہے کہ اس کے دعوے کے مطابق آج دنیا بھر میں اس کے چھ کروڑ سے زیادہ ماننے والے موجود ہیں جو اس کے ہر کام کی پذیرائی کرتے ہیں۔

یہ پہلی بار نہیں ہوا اور نہ یہ سب کچھ صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہی ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیئگو میں بھی 1997 میں انتالیس لوگوں کی لاشیں ملیں جنھوں نے مارشل ایپل وایئٹ نام کے ایک گرو کے کہنے پر اجتماعی خود کشی کی تھی۔ مارشل کو بھی یونیورسٹی سے بطور استاد اپنے ایک طالب علم کے ساتھ ہم جنسی کے تعلقات کے الزام میں نوکری سے برخواست کیا گیا تھا۔ انھوں نے بھی اپنے ہم خیال لوگوں کا ایک گروپ بنالیا اور امریکہ بھر سے اپنے نظریات اور عقائد پر لوگوں کو قائل کرکے اس میں شامل کیا تھا۔ مارشل نے امریکہ کے پڑھے لکھے لوگوں کو قائل کیا تھا کہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور فرار کا واحد راستہ خود کشی ہے۔

آج بھی یورپ، امریکہ، ایشیا، افریقہ ایسے مذہبی اور روحانی فرقوں سے بھرا پڑا ہے جس میں لوگ اپنے پیدائشی مقبول عام مذاہب اور عقائد سے ہٹ کر کسی مخصوص نظریے اور عقیدے کی تعمیل اور ترویج کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے لوگ ان پڑھ یا نا خواندہ بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی دنیا کے حالات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا اور اس میں ہونے والے واقعات کے بارے میں اپنی تشریح اور تاویل رکھتے ہیں جو دوسروں کے اذہان کو اپنی طرف بہت جلدی متوجہ کر دیتی ہے۔ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں مورمن کہلانے والے مسیحی مذہب کا ایک فرقہ بڑی اکثریت میں آباد ہے جو امریکی قوانین کے برعکس ایک سے زیادہ شادیوں کا نہ صرف قائل ہے بلکہ اس فرقے کے ماننے والوں میں یہ مقبول عام رواج بھی ہے۔ اس فرقہ کے ماننے والوں نے ایک طرف مقبول عام عیسائی عقیدے کے لوگوں سے جنگ لڑی تو دوسری طرف امریکی حکومت کے سامنے اپنی حیثیت منوانے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ اس فرقہ کے بانی اسمتھ خود ایک بم کا نشانہ بنے اور ہلاک ہوگئے مگر ان کے ماننے والے آج بھی ان کی تعلیمات پر نہ صرف امریکہ میں عمل پیرا ہیں بلکہ اب وہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل چکے ہیں۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیں ایسی شخصیات اور نظریات ملتے ہیں جو اپنے دور کے مقبول عام رواج اور لوگوں سے ہٹ کر تھے۔ ایسے نظریات اور شخصیات کو جب پذیرائی ملی تو عام لوگوں میں پھیل کر مقبول عام جماعتیں اور نظریات بن گئے۔ ہندوستان برہمنوں کے آنے سے پہلے ایک کثیر العقیدہ اور آزاد خیال (اس کو آج کل والی معنوں میں نہ لیا جائے میرا مطلب فکری آزادی سے ہے ) معاشرہ تھا جہاں ہر شخص کو اپنے لئے کسی بھی عقیدے کے انتخاب اور پرستش میں آزادی تھی۔ جنوبی ہندوستان میں جہاں قدیم ترین دراوڈ نسل سے تعلق رکھنے والی آبادی زیادہ ہے، آج بھی معاشرہ زیادہ تکثیریت کا حامل ہے۔ وہاں فکری آزادی زیادہ ہے اور لوگوں میں رواداری بھی زیادہ ہے۔ قدیم مصر بھی کثیر العقائد معاشرہ تھا جہاں ایک خوتان نامی فرعون نے سب لوگوں کو ایک ہی مذہب کے پیروکار بنادیا اور خود کو زمین پر خدا کا نائب قرار دیا۔ یہاں سے ایک طرف مذہب پر ریاست کی اجارہ داری شروع ہوگئی اور دوسری طرف انسانی سوچ مذہب کے ایک خاص دائرہ کے اندر محدود ہوکر رہ گئی۔ یہی حالات کم و بیش ہر معاشرے میں رہے ہیں۔ ہم بابل، مصر اور یونان کے قدیم معاشروں سے تو واقف ہیں لیکن چین، جاپان، اسٹریلیا، امریکہ اور افریقی قدیم معاشروں کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔ ان معاشروں پر جدید تحقیق سے یہی سامنے آیا ہے کہ قدیم معاشرے وہاں بھی تکثیریت کے حامل تھے جو بتدریج واحد العقیدہ معاشرہ بن گئے۔ تکثیریت کے حامل معاشرے پر امن اور رواداری سے بھر پور ہوتے جس کے بر عکس ایک واحد نظریے یا عقیدے کی زبردستی کی اجارہ داری کا راستہ اپنایا جاتا ہے تو معاشرے میں تشدد کے رجحان کو فروغ ملتا ہے جو مختلف خیالات، نظریات اور عقائد کے لوگ بھی اپنی اپنی جگہ بنانے کے لئے اپناتے ہیں۔

ہم تاریخ کے اوراق میں بڑے بڑے لوگوں بشمول انبیاء، اولیاء، صوفیا ء، راست و حق گویان اور دیگر نابغہ ہائے روزگا ہستیوں کے خلاف جبر و استبداد اور جور و ستم کی داستانیں پڑھتے رہتے ہیں۔ ان ہستیوں کی زندگیاں مستوجب ناقابل برداشت ظلم و ستم و جور و جفا ہوئیں لیکن ان کے مرنے کے بعد ان کے چاہنے والوں نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا جس کا انھوں نے اپنی حیات میں دعویٰ بھی نہیں کیا تھا۔ حق کی تلاش میں شاہی محل سے اٹھ کر ویرانوں میں بھٹکنے والے سدھارتھ عرف گوتم بدھ نے کبھی نہیں کہا تھا کہ ان نام پر دکانیں سجا کر لوگوں کے ساتھ بیوپار کیا جائے اور نہ ایسی نصیحت گرو نانک نے کی تھی کہ ان کے نام پر سونے کے مندر بنائے جائیں اور لوگوں سے دان لے کر گناہ بخشوائے جائیں۔ داتا گنج بخش ، خواجہ غریب نواز، بری امام اور شمس تبریزی کی خواہش ان کے مراقد کو مرجع خلائق کے بجائے خلق خدا کی جیبیں خالی کرنے کا ذریعہ بنانے کی کبھی نہیں تھی۔ یہ سب بعد کے آنے والے لوگوں کا کمال ہے کہ انھوں نے ان ہستیوں کے نام پر اپنا سودا بیچا۔

پاکستان میں بھی مذہبی اور سیاسی گروہ بندی اصولوں اور نظریات سے زیادہ شخصیات کے ارد گرد گھومتی ہے۔ سیاسی ہوں یا مذہبی، شخصیات سے عقیدت اتنی مضبوط ہے کہ کہیں کوئی پیر اپنے مریدوں کو اپنے ہاتھوں قتل کرتا ہے تو کہیں پر کوئی سیاسی راہنما لوگوں کے ہاتھ میں بندوق پکڑا کر لوگوں کو قتل کرنے پر اکساتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو اٹھاکر دیکھیں تو وہ کسی نہ کسی شخصیت کے گرد گھومتی ہے اور کسی درگاہ کہ گدی کی طرح قیادت کسی خاندان میں نسل بہ نسل منتقل ہو جاتی ہے۔ چاہے چھوٹے پیمانے پر بلدیاتی ہو یا بڑے سے بڑا انتخابی حلقہ وہاں شخصیات اور خاندانوں کی اجارہ داری قایم ہے جو نظریات اور کارکردگی سے زیادہ عقیدت پر مبنی ہے۔ کہیں یہ شخصیت پرستی مذہبی و سیاسی دونوں طرح کی دو دھاری ہے اور کہیں سیاسی طاقت کے حصول کے لئے حجرے اور درگاہ کا گڑھ جوڑ ہے۔

گرو گرمیت رام رحیم پر تو اپنی مریدنیوں کے جنسی استحصال کا مقدمہ ثابت ہونے پر سزا بھی ہوئی کیا ہمارے سیاسی گرووں پر بھی کبھی ایسے مقدمات ثابت ہوں گے؟ گرمیت پر تو اب قتل کے مقدمات بنانے کی تیاریاں ہیں کیا سیاسی بنیاد پر قتل ہونے والے بے حساب لوگوں کو بھی انصاف ملے گا جن کے پیچھے بھی گرمیت کی طرح کسی نہ کسی سیاسی گرو کا ہاتھ ہوتا ہے؟ جب تک ہمارے معاشرے سے شخصیت پرستی ختم نہیں ہوتی یہاں سے گرمیت رام رحیم جیسے گرو سماج، سیاست اور مذہب میں پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنی مریدنیوں کی عزتیں لوٹتے رہیں گے اور اپنے مریدوں اور مخالفین کا قتل کرواتے رہیں گے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan