بات سے بات تو نکلتی ہے


جہاں بات سے بات بن جاتی ہے۔ وہیں بات سے بات نکلتی بھی ہے۔ ایسا مشاہدہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔ بشیر کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بشیر کے والد نصیر صاحب، قاری صاحب کے پاس شکایت لے کر پہنچے کہ یوں تو آپ بات بے بات پر بشیر کو جھڑکتے رہتے ہیں اور کل تو ذرا سبق پکا یاد نہ کرنے پر، آپ نے بشیر کی کمر پر سونٹی کی ایسے برسات کردی جیسے بشیر کی کمر نہ ہوئی کسی۔ بشیر نے جب قاری صاحب کو دباؤ میں پایا تو ترنت بولا، سبق تو کل حمید کو بھی پکا یاد نہیں تھا لیکن اس کو تو صرف ڈانٹ ڈپٹ کر ہی چھوڑ دیا۔ مجھ پر نہ جانے کس بات کا غصّہ نکالا۔ ایک شرارتی کاکا بولا، کیا تُو کل قاری صاحب کے لیے پراٹھا اور گھر کا اچار لایا تھا جو تجھ کو صرف ڈانٹ ڈپٹ ہوتی۔ لیجیے بات کہاں سے نکل کر کہاں پہنچ گئی۔ ماحول پر خاموشی چھاگئی کیونکہ مسئلے کا خاموش جواب و حل مل گیا تھا۔

گھر واپسی پر راستے بھر نصیر یہی سوچتا رہا کہ کیا واقعی حمید مار پیٹ سے اس لیے بچ گیا کہ پراٹھا، اچار قاری صاحب کی خدمت میں پیش کیاتھا۔ دل نے فتوی دیا، جی جناب یہی وجہ ہے۔ اس نکتے پرنصیر جتنا غور کرتا، اتنا ہی اس کا یقین مستحکم ہوتا جاتا کیونکہ معاشرے کا ہر طبقہ خوشامد اور لالچ کاشکار ہے۔ بشیر کو اکثر یہ شکایت بھی رہتی ہے کہ پڑوس میں جب بھی اس کی گیند جاتی ہے، واپس نہیں ملتی۔ جب کہ انسپکٹر انکل کے بچے کی گیند جب بھی پڑوس میں جاتی ہے تو بنا مانگے، گھر پہنچائی جاتی ہے۔ اسی طرح کی شکایتیں بشیر کی ماں بھی کرتی رہتی کہ پاس پڑوس والے بھی، جب سے انسپکٹر صاحب کا خاندان محلے میں وارد ہوا ہے۔ ان کی طرف زیادہ کھنچے جارہے ہیں اور برسوں پرانے تعلقات کو نظر انداز کررہے ہیں۔

بہرحال، نصیر بوجھل دل کے ساتھ کھانا کھا کر سوگیا۔ نصیرکی آنکھ صبح سویر ہی کھل گئی کہ نصیر نے رات جو آنکھوں میں کاٹی تھی۔ بشیر کی کمر دیکھ کر جو رنج نصیر کو ہوا تھا، وہ رنج اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔ اولاد کی تکلیف کے درد سے تو ہر صاحب اولاد واقف ہے۔ بس اسی درد کی کسک لیے نصیر دفتر جا پہنچا۔ مزاج شناس رفیق کار کچھ دیر میں ہی اندازہ لگا بیٹھے کہ آج نصیر کا مزاج ٹھکانے میں نہیں ہے اور مزاج پر چڑچڑاہٹ غالب ہے۔ دفتری ماحول میں ساتھی چھیڑ چھاڑ سے تو باز آتے نہیں، بلکہ چھڑ چھاڑ سے جو جتنا چڑتا ہے اس کو اتنا ہی دق کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ نصیر کے ساتھ ہو رہا تھا۔ کہیں سے آواز آرہی تھی، بیگم روٹھ کر میکے بیٹھ جائے تو یہی صورت بنتی ہے تو کوئی کسی حسینہ پر دل آجانے کو صورت حال کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا۔ انتہائی زچ ہوجانے کے بعد نصیر نے خاموشی کا بت توڑا اور ساتھیوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا جس نے گزشتہ روز سے نصیر کا پیچھا لیے ہوا تھا۔

معاشرے میں پائی جانے والی حرص و طمع اور خوشامد جیسے قبیح افعال سے تو ہر کوئی متاثر ہے۔ اس لیے سب کی جانب سے دل گداز واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ مشترکہ خیال یہی تھا کہ بشیر کو کسی دوسرے مدرسے بھیجا جائے۔ لیکن کیا محلہ بھی تبدیل کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں سب کی زبانیں گنگ تھیں۔ ظاہر ہے کوئی بھی شہری انتہائی نامساعد حالات میں ہی محلہ، شہر یا ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے اور چھوڑا تو جب جائے، جب وطن عزیز کے دیگر حصوں میں معاشرہ، حرص و طمع اور خوشامد کی لعنت سے آزاد ہو۔ نصیر کے قریبی ساتھی نے کہا بھائی یہاں تو بڑی مچھلی، چھوٹی مچھلی کو نگل رہی ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ اپنے، آپ کو کنارے رکھوتاکہ محفوظ رہو۔

وقت وقت کی بات ہوتی ہے، کبھی کبھی جس کو ہم ظالم سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ وقت اس کو مظلوم بنادیتا ہے۔ سابق منتخب وزیراعظم کو پھانسی دیتے وقت قوم کو یہی بتایا گیا تھاکہ سابق وزیراعظم قاتل ہونے کے ساتھ فاسق فاجر بھی ہیں لیکن اب ان کو شہید لکھا جاتا ہے اور ان کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا جاتاہے۔ سابق صدرزرداری صاحب کو بھی برسوں پرانے مقدمات میں بری کردیا گیا ہے۔ یہ سب بڑوں کے کھیل ہیں۔ تم بھی بشیر کو جب نئے مدرسے میں داخل کرانا تو قاری صاحب کے ساتھ مدرسے کا احترام بھی اپنے اوپر لازم رکھنا۔ وہیں محلے کے دیگر باسیوں کی طرح انسپکٹر صاحب کے گھرانے کے ساتھ تعلقات خشگوار و استوار رکھو۔ تاکہ چہرے پر خوشگواری کے آثارسلامت رہیں اور منہ بسورنے کی نوبت نہ آئے کہ اس معاشرے میں رہنے کا یہی طریق سب سے موثر ہے۔

لیجیے جناب، واقعی بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ آغاز قاری صاحب کی مارپیٹ سے ہوا اور اختتام سیاست پر ہوا کیونکہ وطن عزیز میں اصولی سیاست میں بھی سیاست کے ر جحان کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).