میرے نامکمل حج اور پرانا مکہ


حج کے یہ مناظر میں بس کی کھڑکی میں بیٹھی یوں دیکھا کرتی جیسے کوئی بچہ کئی بار کی دیکھی ہوئی فلم ایک بار پھر دیکھ رہا ہوتا ہے، گو کہ ایک ایک منظر اس کی یاداشت میں نقش ہو چکا ہو۔

بسوں اور گاڑیوں میں منیٰ اور مکہ کے بیچ تقریباً سات میل کا مختصر فاصلہ رینگتے رینگتے دوپہر ڈھلے جا کر تمام ہوتا تھا۔ مگر پیادہ حاجی کب کے پہنچ چکے ہوتے تھے۔

منیٰ ۔۔۔۔۔۔ سفید سادہ خیموں کا شہر ہوتا تھا۔

حدِ نظر تک سفید خیمے آپس میں جُڑے کھڑے ہوتے تھے۔ ہر معلم کی اپنی الگ بستی بنی ہوتی تھی۔ پیادہ حاجی جہاں جگہ ملی وہاں اپنا ٹھکانہ بنا لیتے تھے۔ تین چار لکڑیوں کو جوڑ کر ان پر چادر ڈال کر چھوٹی سی بے در و دیوار جھونپڑی بنا دی جاتی تھی، بس سر چھپانے جتنی جگہ گھیر کر۔

خیموں کی بستیوں میں حاجت رفع کرنے کا بہت ہی دلچسپ انتظام ہوا کرتا تھا۔ بس طنابیں کھینچ کر، گڑھے کھود دیے جاتے تھے اور چند اینٹیں ان گڑھوں کے گرد رکھ دی جاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ بنے یہ بیت الخلا آدھے عورتوں کے لیے اور آدھے مردوں کے لیے۔ نہ عورتوں کو مردوں سے ڈر لگتا تھا اور نہ مردوں کو عورتوں سے گھن آتی تھی۔ نہ کسی کے ایمان کو خطرہ تھا۔

پینے کا پانی بھی منیٰ کی سڑکوں پر مشکیزے اور مٹی کی صراحیاں پشت پر لادے، سقے بیچ رہے ہوتے تھے۔ منرل واٹر کی بوتلیں ابھی رواج پا نہ سکی تھیں شاید! پانی سے کہیں زیادہ کوکاکولا اور پیپسی بکتی تھی۔

منیٰ کے خیموں کا فرش سوکھی، بھربھری، کھنکتی مٹی کا دیکھا تھا میں نے، جس پر ہولڈال میں گول کیے ہوئے بستر بچھا دیے جاتے تھے اور ایک رات کے لیے تمام زادِ راہ کھول دیا جاتا تھا۔ چولہے جلائے جاتے، پیٹ پوجا کا انتظام شروع کیا جاتا۔ ساتھ ساتھ نماز اور حاضر ہوں میرے رب! حاضر ہوں، کی صدائیں بھی گونج رہی ہوتیں اور دنیاداری کی باتیں بھی سنائی دے رہی ہوتی تھیں۔

ایک خیمہ آٹھ دس لوگوں کو الاٹ کیا جاتا تھا۔ اگر سب ہی ایک خاندان کے افراد نہیں ہوتے تھے تو اپنی اپنی خواتین کی پردہ داری کے لیے مرد اپنے احرام کی چادر خیمے کے بیچ میں کھینچ دیتے تھے۔

عبادت کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑے بھی چل رہے ہوتے تھے۔

حاجی صاحبان عمومًا بات بے بات لڑ پڑتے۔ گرمی کی وجہ سے ان کی قوتِ برداشت ساتھ چھوڑنے لگتی تھی۔

پھر دوسرے بیچ بچاؤ بھی کرتے تھے۔ یہ جھگڑے عمومًا پانی پر، خیمے میں زیادہ جگہ گھیرنے پر ہوتے تھے۔ بیچ بچاؤ کروانے والے لڑنے والوں کو یاد دلا رہے ہوتے تھے کہ میاں حج کرنے آئے ہو۔ نفس کو قابو میں رکھو۔

اماں کہتی تھیں حج کے رفیق آپس میں کتنے ہی محبت کرنے والے کیوں نہ ہوں اگر حج کے دوران لڑ پڑے تو تمام عمر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے۔

خیموں میں جب چولہے جلنا شروع ہوتے اور پکتے کھانوں کی خوشبو کے ساتھ بل کھاتے دھویں کی لہریں خیموں سے باہر کی جانب اٹھنے لگتیں تو اماں گنگنانا شروع کرتیں۔

اماں کی آواز بہت خوبصورت اور پُر سوز و گداز بھری تھی۔ سُر تال کی بھی بہت سمجھ تھی انہیں۔ شاعر باپ کی بیٹی تھیں اس لیے شاعری سے اتنا لگاؤ تھا کہ اپنے والد کا تو پورا کلام ازبر تھا ہی مگر سندھی صوفی شاعری سے کئی کافیاں انہیں یاد تھیں۔

منیٰ میں حدِ نظر تک کبوتروں کی طرح پر پھیلائے کھڑے منیٰ کے خیموں اور خیموں میں جلتے چولہوں سے اٹھتے بل کھاتے دھویں کی لہروں کو دیکھ کر وہ ہمیشہ شاھ سائیں کا کلام اونچی آواز میں گنگنایا کرتیں۔۔۔

چھپر چھپر سے جُڑے ہوئے

الگ الگ اٹھتے دھویں

میرا کوُچا میرے بابل کا دیس

میری سنگت میرے بابل کے سنگ

منیٰ کے خیموں کے بیچ اماں کی وہ گنگناہٹ میرے کانوں میں آج بھی زندہ ہے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ کہیں نہ کہیں، خیموں کی کسی بستی کو آگ پکڑ لیتی تھی۔ شہر پر دھویں کے بادل چھا جاتے۔ لوگ پریشان ہو کر خیموں سے باہر نکل آتے تھے۔ آگ مستعدی سے بجھائی جاتی۔ اور سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا اور لبیک کی گونج میں دب جاتا۔

منیٰ کی اگلی صبح یومِ عرفات طلوع ہوتا تھا۔

خیموں کے اُس پار سے ابھی شفق ادھوری ادھوری سی جھانکنا شروع کرتی ہی تھی کہ حاجیوں کا یہی سمندر اپنا اپنا بوریا بستر سمیٹتا اور عرفات کی طرف رینگنا شروع کرتا۔

لبیک کی صداؤں میں اور بھی گونج بھر آتی۔

عرفات پہنچتے تو سورج سوا نیزے پر کھڑا تپش اُگل رہا ہوتا تھا۔ ساتھ ساتھ لوُ کے جھکڑ بھی چل رہے ہوتے تھے۔

عرفات میں چند گھنٹوں کے قیام کے لیے انتظامات بھی عارضی ہوتے تھے۔ میدانِ عرفات کی زمین منیٰ کی زمین سے مختلف اور ریتیلی ہوتی تھی۔ دوپہر تک یہ ریت بھی تانبے کی طرح تپ جاتی تھی۔ خیموں کی صرف بڑی بڑی چھتیں سائبان کی صورت ڈال دی جاتی تھیں، جن کے نیچے بچھی دریوں پر مرد اور عورتیں زرا سا فاصلہ دے کر بیٹھ جاتے تھے۔ بیچ کا کوئی پردہ ممکن نہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی یہ سائبان بھی لوُ کے جھکڑ سے پھڑپھڑا کر اُڑنے جیسے ہو رہے ہوتے تھے۔ عرفات میں کھانے کا لنگر بٹتا تھا۔ دنبے کے گوشت میں چاولوں کے بڑے بڑے تھال ہر سائبان تلے پہنچا دیے جاتے تھے۔

بابا اپنے ساتھ آئے ہوئے قریبی رشتہ داروں کو بے چین ہوتا دیکھ کر انہیں سمجھا رہے ہوتے تھے کہ احرام کفن کے مثل ہے۔ احرام کی حالت میں خود کو مردہ سمجھو۔ جیسے قبر میں پڑا ہوا جسم۔ نفس سے عاری۔

وہ کہتے قیامت کے روز بھی انسان جب دوبارہ اٹھ کھڑا ہوگا تو عورت اور مرد کی تفریق نہ ہوگی۔ صرف اعمال کا معاملہ ہوگا۔ میدانِ عرفات توبہ کی جگہ ہے۔ اپنے گناہوں سے معافی کا مقام ہے۔

مگر اماں کو حضرت آدم اور بی بی حوا کے معاملے سے بھی بہت دلچسپی تھی۔ وہ کسی نہ کسی بہانے ان دونوں کے بہشت سے نکلنے، میدانِ عرفات میں دوبارہ آ ملنے اور توبہ قبول ہونے کا زکر ضرور کرتی تھیں۔ تھوڑا بہت دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ بہشت کے درخت سے دور نہ رہ سکنے میں غلطی کس کی زیادہ تھی، اس پر بھی تبصرہ کرتی تھیں۔ عموماََ حوا کو دفاع زیادہ کیا کرتی تھیں۔

اماں کو ہمیشہ قیامت کا ڈر رہا۔ خاص طور پر یومِ عرفات کی یومِ محشر سے مماثلت کی منظر کشی بہت ضروری ہوتی تھی ان کے لیے۔ احرام میں ملبوس ہجوم انہیں قیامت کے دن قبروں سے اٹھ کھڑا ہوا ہجوم دکھتا تھا۔ سورج کی تپش اور گرمی اس مماثلت کا لازم حصّہ ہوتے تھے۔

اللہ سے اماں کا تعلق خاصہ بے تکلفانہ رہا تھا۔ اور بابا کا تعلق بہت ہی حجابانہ تھا۔ بابا، اماں کو اس بے تکلفانہ اندازِ اظہار سے روکتے بھی تھے مگر وہ اس سوچ کی تھیں کہ میں جانوں میرا خدا جانے۔

عرفات میں آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ کو مخاطب کرکے کہتیں کہ قیامت کے دن بھی ایسی ہی بھیڑ ہوگی اللہ سائیں! سورج کی ایسی ہی تپش! تیرے اتنے سارے بندے! تو مجھے پہچانے گا بھی کہ نہیں! یہ تو مجھے تجھ تک پہنچنے دیں گے بھی نہیں! مجھ سے نہیں برداشت ہوگی اتنی گرمی اللہ سائیں! زرا میری خبر گیری جلدی کرنا۔

میدانِ عرفات میں خیموں کے تنے سائبانوں کے باہر ہر سوُ سیاہ چھتریاں تنی ہوئی دکھتی تھیں، جن کا رُخ جبلِ عرفات یا مسجدِ نمرہ کی طرف ہوتا تھا۔

اماں کا احتجاج اور خوف غلط بھی نہیں تھا۔ سچ مچ گرمی کی شدت اتنی ہوتی تھی کہ بہت سے لوگ سروں پر پانی ڈال رہے ہوتے تھے۔ بہت سے بے ہوش بھی ہو جاتے تھے۔

ان دنوں حج پر گورے چٹے لوگوں کے کچھ ایسے گروپس بھی نظر آتے تھے، جن میں سب ہی افراد بوڑھے ہوتے تھے۔ بھاری جسموں والے۔ عورتوں نے بڑی بڑی گھیر والی شلواریں قمیص اندر کر کے کمر تک باندھی ہوئی ہوتی تھیں اور مردوں نے بوسیدہ سے شکن آلود تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے ہوتے تھے۔ بوڑھے اتنے کہ کمر سے جھکے ہوئے ہوتے تھے۔

یہ لوگ اپنے ملک سے ہی جن بسوں میں آتے تھے، صرف وہی جدید اور ائرکنڈیشنڈ ہوتی تھیں۔

گرمی سے ان کی حالت قابلِ رحم ہوتی تھی۔ چہرے سُرخ ٹماٹر جیسے ہو رہے ہوتے۔

دیوانگی کے ساتھ تربوز یوں کھا رہے ہوتے، جیسے اسی کے زریعے خود کو ٹھنڈک پہنچا رہے ہوں! کبھی پیالے کی صورت آدھا کٹا ہوا تربوز اُلٹ کر ٹوپی کی صورت سر پر رکھ لیتے۔ کھانا کھاتے تو کچا انڈا توڑ کر، منہ کھول کر پورے کا پورا کچا انڈا منہ میں اُنڈیل دیتے۔

بابا بتاتے تھے کہ یہ تُرک ہیں۔ گرمی کی انہیں عادت نہیں ہے۔ پہلے ان کے سعودی عرب آنے پر پابندی تھی۔ اب بھی صرف بوڑھے آتے ہیں۔ ان کی حکومت جوانوں کو حج کی اجازت نہیں دیتی۔

بچپن میں میرا میدانِ عرفات کا دن ریت سے گھروندے بناتے ہوئے گزرتا تھا۔ یا پھر یہ پریشان حال بوڑھے تُرک اور انگنت سیاہ چھتریوں کا لہریں بناتا سمندر میرے لیے کشش کا باعث ہوتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah