سیکولرازم کب، کیوں اور کہاں سے آیا؟ (1)


محترم رسول بخش پلیجو کی پہچان صرف ایک سیاستدان ہی کی نہیں۔ وہ پاکستان کے ایک بڑے دانشور، فلسفی، ادیب، نقاد، وکیل اور محقق بھی ہیں۔ انہوں نے 2012ء میں حیدرآباد (سندھ) میں سیکولرازم کے عنوان پر ایک لیکچر دیا تھا، محترم ابراھیم کنبھر نے اس لیکچر کو “ہم سب” کے پڑھنے والوں کے لئے قلم بند کیا ہے۔

سیکولرازم ہماری تاریخ میں بہت دیر سے آیا ہوا ایک مظہر ہے، جس کے پیچھے بھی بہت بڑی تاریخ ہے۔

کائنات، انسانی سماج اور انسانی خیالات کی سائنس ہمیں سکھاتی ہے کہ کائنات انسانی سماج اور خیالات میں ایک تاریخ چھپی ہے، ایسی تاریخ جو پہلے کبھی نہیں تھی، پھر وہ پیدا ہوئی، آگے چل کر گم ہوجاتی ہے یا پھر دوسری چیزوں میں ضم ہو جاتی ہے، اسی طرح سیکولرازم کا کسی زمانے میں کوئی وجود نہیں تھا، یہ بعد کی پیدوار ہے۔

سیکیولرز ایک پس منظر، اسباب اور ایک عمل کی پیداوار ہے۔ اس کائنات میں کوئی بھی چیز حتمی اور آخری نہیں، نہ ہی کوئی چیز ناقابل تغیر ہے، ایسا کوئی منظر اور چیز ایک جیسی حالت میں رہنے کے لیے نہیں، جس طرح تضادات کائنات گیر ہیں، اسی طرح اتحاد، رشتہ اور وحدت بھی یونیورسل ہیں، وہ پوری کائنات اور پورے سماج میں ہیں اور وہ ٹائم وائز بھی ہے۔

ایک وقت میں رہنے والی چیزوں کا آپس میں رشتہ ہے، لیکن ایک زمانے یا ایک جگہ پر رہنے والے چیزوں میں بھی رشتہ ہے، لیکن ان میں تضاد بھی ہے۔ ایک زمان اور مکان میں رہنے والی تمام چیزوں پر ان کے اثرات پڑتے ہیں۔ چیزیں ایک دوسری سے جڑی بھی ہیں اور ایک دوسرے میں سمائی ہوئی بھی ہیں۔ جب میں چیز کہتا ہوں تو اس کا مطلب فنامنا، مظہر، روپ، رنگ اور منظر ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ لاکھوں صدیاں پہلے یعنی برفانی دور میں ہندوکش پہاڑ پر برف پڑی اور وہ پگھلی نہیں، آج تک ہم اس برف سے بنا پانی پی رہے ہیں، اگر اس زمانے میں کچھ اسباب کی وجہ سے وہ برف وہاں نہ پڑتی تو دریائے سندہ نہ ہوتا۔ ایسے ہی اگر بنگال کے سمندر کے اس پار ہوائیں ہیں جو کہ ہمارے ہاں بارش برسنے یا نہ برسنے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ کام وہاں ہو رہا ہے اور اثرات یہاں ہو رہا ہے۔

کام کسی زمانے میں پہلے ہوا، اس کا روپ اور مظہر کسی دوسرے دور میں سامنے آیا، کام کیا ہوا ؟اس کا لوگوں کو پتہ نہیں چلتا۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ خیالات، کئی ماجرائیں اور رجحانات ایک زمانے میں جنم لےکر ختم ہوجاتے ہیں، اگر خیالات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کئی خیالات تھے جنہوں نے جنم لیا اور ماضی میں ہی ختم ہوگئے، اس کے بیچ کئی ادوار آئے، پھر آگے چل کر کسی زمانے میں ان ہی خیالات نے دوبارہ جنم لیا۔

مثال کے طور پر اشوک اعظم نے کئی صدیاں پہلے ایک خیال دیا کہ جنگ جرم ہے، کئی برس گذر گئے، لیکن ان ہی خیالات کو اقوام متحدہ نے 1945ء کے بعد چارٹر کے ذریعے عملی روپ دے کر یہ بات سمجھائی کہ ’’جارحیت ایک جرم ہے‘‘۔ پہلے تو جارحیت یا جنگ کو ایک فتح مانا جاتا تھا اور شادیانے بجائے جاتے تھے۔

 اسی طرح چھٹی صدی قبل مسیح میں مہاویر نے کہا کہ ’’دھرتی کو دکھ دینا ظلم ہے۔ پانی، دھرتی، ہواوں سے ظلم کرنا انسانیت سے ظلم ہے‘‘۔ بیسویں صدی کے آخر میں انوائرمنیٹل سائنس نے ہمیں سمجھایا کہ ماحولیات مقدس ہے، اس میں خلل نہیں ڈالنا چاہئے، ورنہ کائنات کا پورا بایو اسفیئر متاثر جائے گا۔

سیکولرازم جوش و خروش سے بعد میں ظاہر ہوا، لیکن اس کا تصور یا بیج بہت پہلے ہی پایا جاچکا تھا۔ عام طور پر سیکولرازم کو مغرب کی پیداوار سمجھا جاتا ہے، لیکن مغربی مصنفین نے خود لکھا ہے کہ جس زمانہ میں ملکہ الزبتھ عیسائی راہبوں اور پادریوں کو زندہ جلا رہی تھی اسی زمانے میں ھندوستان کے وزیراعظم ابوالفضل تمام مذاہب کی برابری کا اعلان کر رہے تھے، یہ مغرب کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ تمام مذاہب کی برابری کی بات کو مانتا۔ جس زمانے میں ہنری ہشتم  کو طلاق نہیں مل رہی تھی اسی زمانے میں اکبر بادشاہ نے خواتین کو ستی کرنے والے عمل کو جرم قرار دیا اور کئی راجاؤں کے محلوں پر اپنی فوج بھیج کر خواتین زندہ جلائے جانے والی رسم کا خاتمہ کیا۔

مشرق اور مغرب کے بیچ میں ترقی، پسماندگی اور تنزلی کا جو تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے وہ بے بنیاد ہے، کیوں کہ کئی صدیاں پہلے مغرب ایک ریگستان تھا، جرمن وحشی اور انگریز پاگل تھے، اس زمانے میں موئن جو دڑو کی تہذیب امیر تہذیب ہوا کرتی تھی، رومن لکھاریوں نے اس بارے میں کافی کچھ لکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’’انگریز وہمی قسم کے لوگ تھے، وہ مچھلی میں جن بھوت سمجہتے تھے اور مچھلی نہیں کھاتے تھے۔ کچے گھروں میں رہتے تھے، پکے گھروں میں رہنا ان کی نظر میں پاپ تھا۔ وہ ثواب کمانے کے لیے گدلے پانی کے گڑھوں میں بیٹھے رہتے تھے۔ اسی دور میں اس خطے میں بڑی حکومتیں اور شہنشاہتیں تھیں، اور وہاں انگریز چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہتے تھے۔ گال میں بھی اسی طرح ہوتا تھا، روم بھی قبائل میں سے وجود میں آیا۔ مشرق میں غلامی کی وجہ سے انسانی تاریخ اور انقلاب کے بارے میں عجیب و غریب تصورات موجود ہیں، ایک تصور یہ بھی ہے کہ مغرب ازل سے یعنی حضرت آدم سے لے کر آج تک دانا، ترقی پذیر اور روشن خیال ہے، لیکن ایسا بالکل نہیں۔

مغرب اور مشرق میں ایک بنیادی تضاد موجود تھا۔ مغرب میں یونان تھا جو کہ مشرق میں نہیں تھا۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب مشرق میں پیدا ہوئے، مذاہب کا مطلب کہ یہ کائنات کیا ہے؟ یہ سماج کیا ہے؟ زندگی اور موت کیا ہے؟ اس سماج کو کیا سمجھا جائے؟سماج کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سماج کے لیے ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟اسی طرح مشرق کا رویہ مذاہب کا رویہ ہے، جبکہ دوسری طرف یونان تھا ، جہاں اپنی طرز کا ایک مذہب تھا۔

بنیادی طور دنیا کو سمجھنے یا سمجھانے کا ایک تصور یونانی ہے اور دوسرا تصور غیر مذہبی اور غیر یونانی ہے۔ مذہبی رویے کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کائنات مایا ہے، یہ دکھاوا ہے، عارضی اور کچھ دنوں کے لیے ہے، اس دنیا میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں، اس دنیا میں بھلائی کی امید ہی نہیں رکھنی چاہیے، جو بھی آس لگانی ہے، اگلی دنیا سے لگانی ہے۔ کنگ ڈم آف گاڈ اورامام مہدی آئیں گے۔ اس کے بعد انصاف ہو گا۔

دوسری طرف یونانیوں کا کہنا ہے کہ یہ دنیا رہنے جیسی ہے، اس دنیا کو بہتر بنانا چایئے، اسی دنیا میں شہریوں کو آزادی ملنا چاہیے، اس دنیا میں عوام کی حکومتیں ہونا چاہیئں، اس دنیا میں ان قوانین کی حکمرانی نہیں ہونی چاہیے جو کہیں اور سے یا غیب سے آئے ہویے ہیں۔ یہاں لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے قوانیں ہونے چاہیں، اور ان کے مطابق ان کے تحت حکومت چلائی جایے۔ لوگ اپنے قوانین کے ماتحت چلیں، ان کے قوانین آئیڈل نہیں تھے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو قوانین بدلنے کا بھی حق ہے۔ لوگ اگر چاہیں تو غلامی کو ختم کردیں۔

یونان ایک عجیب، بے بہا اور نرالا سماج تھا، جس کے لیے مارکس نے بھی کہا کہ’’ ہم وضاحت نہیں کر سکتے کہ یونان کہاں سے پیدا ہوا؟‘‘یونان کے لوگ بھی عجیب قسم کے تھے، خطہ زرخیز بھی نہیں تھا، لوگ پہاڑوں پر رہتے تھے۔ لیکن ایسا یونان دوبارہ نہیں پیدا ہوسکتا کیوںکہ وہ دور انسانوں کی معصومیت کا دور تھا، اس زمانے میں زبردست کام کیا جا سکتا تھا، لوگوں کے ذاتی مفادات نہیں تھے اس لیے انہوں نے عقلی بنیادوں پر کام کیا، غیب کے بارے میں قابل قبول، دانشمندی اور اسباب پر مبنی تصور بھی یونانیوں نے دیا۔ افلاطون نے غیب کی جو تشریح کی ہے ایسی تشریح کوئی نہیں کرسکا، یونانی عالم او قابل لوگ تھے، اس لئے غیب کی یہ تشریح بھی عالمانہ انداز میں کی ہے۔

سیکولرازم یونان کے اس فلسفے کی بنیاد پر وجود میں آیا کہ ’’یہ جہان رہنے کے قابل ہے، اصلی دنیا یہ ہے، امام مہدی یا کنگڈم آف گاڈ آئیں تو کوئی حرج نہیں، ان کو آنے دیا جائے۔ ‘‘

جس طرح شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کہا کہ’’ روزہ آئین نمازوں ای پن چنگو کم ، پر او کو بیو فھم جنھن ساں پسجی پریں کھی‘‘۔ وہ دوسرا فہم ہے، وہ فہم دنیا کو بہتر بنانا، اس میں بہتر زندگی بسر کرنا، دنیا سے سیکھنا ہے۔

 کسی ترقی پسند شاعر نے کہا کہ

یہ آب خاک و باد کا جہان بہت حسین ہے۔

 اگر کوئی بہشت ہے تو بس یہی زمین ہے۔

یونان کا یہ ہی خیال تھا کہ یہ دنیا اہم ہے، عیسائیت کے ایک طبقے نے افلاطون کو اپنا کر اپنے مذہب کو مضبوط کیا۔ انہوں نے افلاطوں کی کہی ہوئی باتوں کی ایسی تشریح کی کہ اسے بھی عیسائی ہی بنا دیا ۔

مذہب کے بارے میں تین تصورات پائے جاتے ہیں، ایک کلاسکیل، جس میں کہا گیا ہے کہ تمام چیزیں غیب سے آئی ہیں، دوسرا تصور الٹرنیٹو رلیجن یعنی متبادل مذہب ہے جسے تصوف کہا جاتا ہے۔ عیسائیوں کے پاس متبادل مذہب کے نام پر ایک وسیع اور مفصل قسم کا تصور موجود ہے، ھندوؤں میں میرا بائی، کبیر، سورداس اور اس سے پہلے شنکرآچاریہ رہے جس نے وحدت الوجود کا تصور دیا، تصور کا یہ بھگتی مارکہ تصور تھا وہ مانتے تھے کہ بھگتی، پیار اور محبت کے ذریعے بھگوان سے ان کا براہ راست رابطہ ہے۔ کتابوں میں لکھی ہوئی باتیں، ان کے تضادات اور جھگڑوں کو چھوڑ کر صوفیوں نے پروردگار سے براہ راست رابطہ کیا، صوفیوں نے کہا کہ یہ پنڈت اور ملا مغرور ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ ہمیں جنم دینے والا کیا چاہتا ہے۔

دوسرا تصور ماڈرن رلیجن یعنی جدید مذاہب کا ہے۔ جس کو سمجھانے کے لیے کانٹ اور دوسرے لوگ آئے، وہ سب یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کتابوں والا مذہب نہیں لیکن ایک ایسا مذہب ضرور موجود ہے جس میں خدا ہے، نام دوسرے ہیں لیکن بنیادی طور مذہب موجود ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن سیکولرازم نے مذاہب پر کچھ نہیں کہا، وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ مذہب موجود ہیں یا نہیں ہیں۔ سیکولرازم یہ کہتا ہے کہ یہ کائنات، دنیا اور کتابوں میں بیان کیے گئے قوانین کے تابع اور ان کے ماتحت چلے، ہر شخص اپنے مذہب پر اپنے زمانے، اپنے حال پر چلے۔ لیکن اگر اس مذہب کے ماننے والوں کی کسی علاقے میں اکثریت ہو تو اپنا عقیدہ دوسروں پر نہ تھوپا جائے۔

طاقتور بننے والا شخص، افراد یا سماج اپنی کتاب یا اپنے قانون پر دوسروں کو چلائے، سیکولرازم اس کے خلاف ہے۔ بالکل اسی طرح سیکولرازم حکومت پر مذاہب کے غلبے کے خلاف ہے، سیکولرازم حکومتوں کو مذاہب کی ترویج، تشھیر، تشریح، غلبےاور اس بنیاد پر اکثریت قائم کرنے ، اس کو آگے بڑھانے کا مخالف ہے۔ سیکولرازم دین سے انکار کا نام نہیں اور لادینیت کا نام بھی سیکولرازم نہیں۔

سیکولرازم کا مذاہب میں کچھ نہیں جاتا نہ وہ کہتا ہے کہ مذاہب صحیح ہیں اور نہ وہ مذاہب کے غلط ہونے کی بات کرتا ہے۔ سیکولرازم صرف یہ کہتا کہ دین اور مذہب کے نام پر انسانی حقوق اور عزت نفس کو متاثر نہیں کیا جانا چاہیے۔

آگے چل کر جب یونان ختم ہوا، ان کی کتابیں جلا دی گئیں، پھر وہاں سے کچھ لوگ نکلے جو ایران میں آئے، ایرانی مذاہب کے معاملے میں ہمیشہ آزاد خیال رہے ہیں، وہاں کبھی بھی مذہبی جبر نہیں رہا، ایران پہنچنے والے لوگوں کے لیے دارالحکمت بنا کر کہا گیا کہ آپ اپنے خیالات کا اظہار یہاں کریں۔ یونانی علم تو نہیں رہا، تمام کتابوں کو جلا دیا گیا اور جو تھیں ان کو غائب کر دیا گیا، یہ بہی کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے بھی سکندر کی لائبیریری کو جلا دیا تھا، انہوں نے یہ کہا کہ اگر یہ تمام کتابیں قرآن کریم کی مطابقت رکہتی ہیں تو ان کی کیا ضرورت ہے ؟اگر نہیں رکہتی تو پھر کفر ہیں اور ان کو جلا دیا جائے، یہ ایک روایت ہے۔ یونانیوں کی کتابیں بھی اس طرح جلا دی گئیں۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ جلد ہی ایران پر عربوں کا قبضہ ہوگیا اور یہ درویش، فلسفی اور ماہرین علم ان کے ماتحت ہوگئے۔ کافی عرصے کے بعد جب اموی دور کا خاتمہ اور عباسی دور شروع ہوا، اس میں منصور حلاج (دوئم ) کے دور میں ایران میں دوبارہ دارالحکمت کا آغاز ہوا، کافی عرصہ بعد مامون رشید آیا جس کی ماں غلام تھی، وہ ان فلسفی لوگوں کا پیروکار تھا، اس کے زمانے میں علم و عقل کا بازارگرم ہوا، نئی کتابیں لکھی گئیں، کچھ تراجم ہوئے، کئی کتابیں درست تھیں، کچھ تبدیل ہوئیں، اچھے لوگوں نے کتابیں لکھیں، اس دور میں نئے فلسفی پیدا ہوئے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).