تیسری افغان جنگ ممکن نہیں


افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں ہفتہ عشرہ قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی تقریر کے بعد سے مسلسل یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس کے خطے اور پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان کی حکومت اور فوج اس صورت حال کا کیسے مقابلہ کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ تاثر بھی سامنے لایا گیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں تیسری جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ اور اس جنگ کے حوالے سے پاکستان کا طرز عمل ہی یہ فیصلہ کر سکے گا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔ کیا دیرینہ تعاون اور دوستی کا رشتہ برقرار رہ سکے گا یا دونوں ملک ایک دوسرے سے لاتعلق ہو جائیں گے۔ یا اس کے علاوہ تیسری یہ صورت بھی سامنے آ سکتی ہے کہ صدر ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی اور کرخت لب و لہجہ کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستی کی بجائے دشمنی کا آغاز ہو جائے۔ تو کیا پاکستان جیسا چھوٹا اور بے وسیلہ ملک پوری دنیا کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے واحد سپر پاور کی حیثیت رکھنے والے امریکہ سے دشمنی کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ یہ سارے سنجیدہ سوالات ہیں لیکن تبصرہ نگار اور تجزیہ کار اس معاملہ پر گفتگو کرتے ہوئے زیادہ تر پاکستان کی مجبوریوں اور بے بسی یا ماضی میں اس کی غلطیوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان ہی کے مطابق صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ایک طرح سے یہ قیاس کرلیا جاتا ہے کہ اس تناؤ کی صورتحال میں امریکہ کو تو کوئی نقصان نہیں ہوگا اس لئے پاکستان کو ہی جھکنا پڑے گا۔

البتہ پاک امریکہ تعلقات اور افغانستان میں امریکی اہداف و مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے صورتحال کو ماضی کے علاوہ حال اور مستقبل کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ امریکہ بڑا اور طاقتور ملک ہونے کے باوجود ہر کام ویسے کرنے کا اہل نہیں ہے جیسا امریکہ کا صدر یا دوسری قیادت چاہتی ہو۔ اس حوالے سے سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جس تقریر کو افغان پالیسی تقریر کہا جا رہا ہے، اس میں کوئی واضح اور دو ٹوک حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس کمزوری پر یہ دعویٰ کرتے ہوئے پردہ ڈالنے کی کوشش ضرور کی ہے کہ ان کی حکومت جنگی معاملات میں تفصیلات منظر عام پر نہیں لائے گی کیونکہ اس سے دشمن چوکنا ہو جاتا ہے اور کسی بھی فوجی آپریشن کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وہ بطور صدارتی امیدوار سابق صدر باراک اوباما کی حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ حکومت جب عراق یا شام کے بارے میں اقدام کی پہلے سے تشہیر کر دے گی تو وہ اصل اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ تو کیا یہ باور کرلیا جائے کہ صدر ٹرمپ نے جو افغان تقریر کی ہے، وہ صرف اس بات کا اشارہ ہے کہ اب امریکہ یہ جنگ جیت کر رہے گا۔ لیکن وہ اپنی عملی کارروائی کے بارے میں تفصیل بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ بات ممکن ہو سکتی ہے لیکن حالات و واقعات کے علاوہ ماضی کے تجربات اس قیاس کی تائید کرنے میں ناکام ہیں۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ افغانستان میں تیسری جنگ کا آغاز کرنے والا ہے اور اس حوالے سے موجودہ حکومت بھی 9/11 کے سانحہ کے بعد صدر جارج بش کی طرح یہ اعلان کرے گی کہ جو ہمارا ساتھ نہیں دے گا وہ ہمارا دشمن ہے۔

امریکہ معاشی اور سیاسی لحاظ سے اب بیرون ملک کسی بڑی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 2001 میں نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملے کے بعد امریکی حکومت کو افغانستان کے خلاف کارروائی کےلئے عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ اسے دنیا بھر کی ہمدردی بھی مل رہی تھی۔ اسی لئے نیٹو کے علاوہ متعدد یورپی ممالک اور دیگر حلیف ریاستوں نے بڑھ چڑھ کر اس جنگ میں حصہ ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اب وہ صورتحال موجود نہیں ہے۔ امریکی حکومت خواہ جتنا بھی دباؤ ڈالے اور صدر ٹرمپ کی جو بھی خواہش ہو، اب نیٹو اور یورپ ماضی کی طرح افغانستان میں کسی بڑی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ سولہ برس تک جنگ کا حصہ بننے کے بعد امریکہ کےلئے تن تنہا کوئی ایسا بڑا ایڈونچر شروع کرنا آسان نہیں ہوگا جس میں مالی ، فوجی اور انسانی وسائل وسیع پیمانے پر درکار ہوں۔ صدر ٹرمپ افغانستان کی جنگ جیتنے کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں لیکن وہ اس جنگ میں مزید امریکی وسائل جھونکنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ نہ ہی وہ یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ افغانستان سے ہر روز درجنوں امریکیوں کی لاشیں تابوت میں بند کر امریکہ پہنچنے لگیں۔ امریکی عوام جنگ سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا۔

اب وہ اگرچہ اس وعدہ سے منحرف ہو چکے ہیں لیکن اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے گرد فوجی اسٹیبلشمنٹ کے جو لوگ اکٹھے کئے ہیں، وہ افغانستان سے امریکی افواج کے فوری مکمل انخلا کو قومی سلامتی و مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس لئے امریکہ افغانستان میں افواج تو تعینات رکھے گا اور ان میں چند ہزار کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس جنگ کو جیتنے کےلئے جن مالی اور انسانی وسائل کی ضرورت ہے، وہ امریکہ فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ عملی طور پر افغانستان میں جنگ جیتنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ اور افغان افواج افغانستان کے ہر شہر اور قصبے میں طالبان کا پیچھا کرتے ہوئے، انہیں شکست دیں اور جنگجوؤں کو گرفتار کرلیا جائے یا مار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نیٹ ورک کو بھی توڑا جائے جو وار لارڈز، قبائلی سرداروں اور مقامی جرائم پیشہ افراد و گروہوں کے ذریعے پورے ملک میں استوار ہے اور جو طالبان کی کامیابی اور وسیع علاقوں پر تسلط میں ان کا معاون ثابت ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس مجرمانہ ڈھانچہ میں وہ عناصر بھی حصہ دار ہیں جو افغان حکومت کا بھی حصہ ہیں اور فیصلے کرنے والے اداروں میں اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ امریکہ کو 2001 میں طالبان پر اخلاقی برتری حاصل تھی۔ القاعدہ نے امریکہ کے قلب پر حملہ کرکے 3 ہزار شہریوں کو ہلاک کیا تھا اور طالبان قیادت اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دوسرے لیڈروں کو امریکہ کے حوالے کرنے یا ملک سے مار بھگانے کےلئے تیار نہیں تھی۔ اب یہ اخلاقی برتری افغان طالبان کو حاصل ہے۔ وہ مذاکرات کےلئے صرف یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ امریکی افواج ان کے ملک سے نکل جائیں۔ اس طرح وہ اپنی جنگ کو اقتدار کی لڑائی یا دہشت گردی کی بجائے وطن کی آزادی کی جنگ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ نے 9/11 کے بعد القاعدہ کو ختم کرنے کےلئے افغانستان پر حملہ کیا تھا کیونکہ طالبان حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن تب طالبان سے امریکہ کی لڑائی نہیں تھی۔ اب افغانستان سے القاعدہ کا صفایا ہو چکا ہے اور کسی حد تک اس کی جگہ داعش نے لے لی ہے لیکن امریکہ اب افغان طالبان کو دشمن اور دہشت گرد قرار دیتا ہے کیونکہ وہ امریکی موجودگی کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس لئے اب امریکی موقف اخلاقی لحاظ سے کمزور ہے۔

2001 میں افغانستان میں کامیابیوں کی بڑی وجہ پاکستان کی مکمل امداد اور تعاون تھا۔ اب بھی افغانستان میں امریکی افواج کی ساری سپلائی پاکستانی راستوں سے فراہم ہوتی ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس نے امریکی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اب امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہوئے دراصل انہی پاکستانی ایجنسیوں کو نشانہ بناتا ہے جن کے تعاون سے وہ افغانستان میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ تیسری افغان جنگ میں اگر امریکہ کو پاکستان کا تعاون حاصل نہیں ہوگا بلکہ پاکستان اگر اس جنگ کی مزاحمت کرے گا تو امریکہ کےلئے افغانستان میں کسی بڑی جنگ کو شروع کرنا اور انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہوگا۔

افغانستان کے حالات بھی اب تبدیل ہو چکے ہیں۔ 2001 میں طالبان حکومت میں تھے۔ انہوں نے ایک جابرانہ نظام حکومت استوار کیا تھا۔ ہر قسم کے گروہوں کے حقوق سلب کئے گئے تھے۔ عام لوگ اس ظلم سے عاجز آ چکے تھے۔ وہ کسی نہ کسی حد تک امریکی حملے کا خیر مقدم کرتے تھے۔ اب وہاں طالبان کی حکومت نہیں ہے۔ وہ اب مزاحمتی گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جو افغان شناخت، غیرت اور قومیت کی نمائندگی کر رہا ہے۔ اسی لئے انہیں عوام کی ہمدردیاں بھی حاصل ہوتی ہیں۔ کابل کی حکومت امریکہ نوازی اور بدعنوانی کے کلچر کی وجہ سے نہ تو عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل ہوئی ہے اور نہ اسے عام لوگوں میں پذیرائی حاصل ہے۔ 2001 میں صرف طالبان اور القاعدہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مدمقابل تھے، امریکہ اگر اب کسی وسیع جنگ کا منصوبہ بناتا ہے تو اسے مختلف گروہوں کی مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ روس اور چین کے علاوہ ایران بھی افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کےلئے مستعد ہوگا۔ امریکہ کو بھی ان عوام کا بخوبی ادراک ہوگا۔

افغانستان میں امریکہ کے اہداف بھی 2001 کے مقابلے میں مختلف ہیں۔ وہ اس وقت القاعدہ کو ختم کرنے کےلئے آیا تھا۔ اب وہ کس کے خلاف جنگ کرے گا۔ طالبان امریکہ کے صرف اس حد تک دشمن ہیں کہ وہ اسے افغانستان سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکہ پر حملے کرنے کا اعلان نہیں کرتے۔ امریکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ جنوبی وسطی ایشیا کے بدلتے ہوئے حالات اور اس علاقے میں چین کے روز افزوں اثر و رسوخ کو محدود کرنے اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کےلئے کابل میں ایسی حکومت ہو جو واشنگٹن کی دست نگر ہو۔ اس لئے وہ چند ہزار فوجی افغانستان میں تعینات رکھنا چاہتا ہے تاکہ دوست دشمن کو اس کی موجودگی کا احساس رہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امریکیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بند ہو تاکہ وہاں سے آنے والے تابوت مسلسل امریکی رائے عامہ کو اپنی حکومت کے خلاف آمادہ نہ کریں۔

صدر ٹرمپ اپنی تقریر میں واضح کر چکے ہیں کہ انہیں افغانستان کی تعمیر اور وہاں نظام کی اصلاح سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ پاکستان اور اس کے ذریعے افغان طالبان کو دباؤ میں لا کر اپنی فوجوں کو محفوظ بنانے کے خواہاں ہیں۔ تاہم پاکستان کے ساتھ براہ راست تصادم کے ذریعے یہ مقصد کس حد تک حاصل ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali