آئین ِ خطبہ حجۃ الوداع اور ہم


یہ ہجرت نبوی کا دسواں سال اور حج کے مہینے کی نویں تاریخ تھی۔ میدان عرفات میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان جمع تھے جوبلاد ِ عرب کے کونے کونے سے فریضہ حج کے لئے مکہ آئے ہوئے تھے۔ مستند روایات کے مطابق پیارے آقاﷺ کی مبارک زندگی میں صحابہ کرام کا یہ ایک فقید المثال اجتماع تھا۔ االلہ کے رسولﷺ نے اس موقع پر اپنے عشاق کے جم غفیر کے سامنے چند ایسے سنہری اصول بیان فرمائے کہ گویا یہی آپ ﷺ کی مبارک زندگی کی جدوجہد کی ایک تلخیص تھے۔ یہ عظیم الشان خطبہ تاریخ میں خطبہ حجتہ الوداع یا خطبہ بلاغ کے نام سے مشہور ہے۔ االلہ کے رسول ﷺ اپنی اونٹنی ’’قصویٰ ‘‘ پر تشریف فرما ہوئے، حمد وثناء اور امابعد کہنے کے بعدسب سے پہلے لوگوں کوااللہ کی اطاعت اور تقویٰ کی وصیت کی اور فرمایا کہ شاید اس سال کے بعد میں تم سے کبھی نہ مل سکوں۔

پھر مکہ کے شہر، مقام عرفہ اور اُسی دن کے بارے میں آپ ﷺ نے لوگوں سے سوال کیا کہ کیا یہ مکہ کا شہر، یہ مقام عرفات اور یہ دن یوم نحر نہیں ہے؟ لوگوں نے جواباً دیا، بے شک ایسا ہی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ پس آپ کی جانیں، مال اور عزتیں ایک دوسرے پراس طرح حرام ہے جس اس دن، اس شہراور اس مہینہ میں حرام ہے‘‘۔ االلہ کے رسول نے پھر جاہلی دورکے خاتمے کی نوید لوگوں کو سناتے ہوئے فرمایا’’آگاہ رہو! جاہلیت کا ہر خون اورمال اور منصب وعہدہ آج میرے قدموں کے نیچے پامال ہو چکا ہے‘‘۔ یعنی جاہلیت کی تاریکیوں کے بدلے اب آپ کو اسلام اور آسمانی تعلیمات کی روشنی نصیب ہوئی ہے۔ اس خطبے میں جن ناپاک بتوں کو پاش پاش کردینے کی نوید سنائی، اس میں نسلی اور لسانی تفاخر کے بت بھی شامل تھے، جس کے خاتمے کے بارے میں بھی االلہ کے رسول ﷺ نے فرمایا’’اے لوگو!تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ یعنی آدم بھی ایک ہے۔ پس آگاہ رہو، کسی عربی کو عجمی پر فوقیت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر۔ کوئی گورا کسی کالے سے افضل ہیں نہ ہی کسی کالے کوکسی گورے پر برتری حاصل ہے۔ تفوق اور فضیلت کا معیار مطلق تقویٰ ہے یعنی جوااللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حدود کا پابند ہووہی برتر ہے‘‘۔

تاریخ شاہد ہے کہ دور جاہلیت میں کچھ لوگ نسلی تفاخر کے زعم میں مبتلا تھے اور بہت سے معاملات میں اپنے لئے استثناء کی سبیل نکالتے تھے، لیکن االلہ کے رسول ﷺ نے اس موقع پراس طبقاتی نظام یا ’’وی آئی پی نظام کا بھی خاتمہ کردیا۔ آپ ﷺنے جاہلی زمانے کے اُن تمام خونوں کے خاتمے کا بھی اعلان کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’ آج کے بعد ماضی میں کیے گئے خون کا بدلہ نہیں لیا جائے گا اورمیں سب سے پہلے ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا خون معاف کرتا ہوں، جو بنی ہذیل پر ہے ‘‘۔ اس موقع پر جاہلیت کے زمانے کے سود کو بھی آپ ﷺ نے کالعدم قرار دے دیا اور فرمایا کہ ’’ تم صرف اور صرف اپنے اصل مال کے حقدار ہو، اس صورت میں نہ تم ظالم بنو گے اور نہ ہی تم پرظلم یا جائے گا ‘‘۔ یہاں خاتمہ سود کے معاملے میں بھی آپﷺ نے اپنے گھر سے آغاز کیا اور فرمایا کہ’’ سب سے پہلے جو سود ختم کیا جاتا ہے وہ (چچا) عباس بن عبدالمطلب کا ہے ‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن لوگوں کے پاس عباس کی رقمیں ہیں، اُن کے ذمے اب سود نہیں ہوگا بلکہ صرف اصل رقم واپس کرنا ہوگی‘‘۔ پیارے آقاﷺ نے پھر لوگوں کے درمیان سب سے اہم رشتہ اسلام کا رشتہ اور تعلق کوقراردیا کہ االلہ تعالی کے فرمان کے مطابق سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس خطبے میں آپ ﷺ نے اپنے مخاطبین کے سامنے حقیقی مومن، حقیقی مسلم اور حقیقی مجاہد کا تعین بھی فرمایا’’ کیا میں تمہیں نہ بتاوں کہ مومن کون ہے؟ پھر فرمایا کہ

مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنامال اور جان محفوظ سمجھیں اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے لوگ محفوظ رہے۔ فرمایا کہ مجاہد وہ ہے جو االلہ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے، اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور خطاووں سے ہجرت کرے‘‘۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں بھی االلہ کے رسول ﷺنے بڑی شدومد کے ساتھ فرمایا کہ ’’ عورتوں کے بارے میں االلہ سے ڈرو‘‘۔ اس خطبے میں ختم نبوت کا اعلان بھی فرمایاکہ ’’ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی امت آئے گی، پس اپنے رب کی عبادت کرو، اپنی نمازوں اور روزوں کی حفاظت کرو اور اپنے مالوں سے زکواۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو، ایسا کروگے تو جنت میں داخل ہوجاوگے ‘‘۔ یہیں پر آپ ﷺ نے دین کی تکمیل کا اعلان بھی کردیاکہ االلہ تعالیٰ نے اپنے دین کو آج مکمل کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، پس تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپﷺ نے پیغام پہنچایا اور پوری خیر کے ساتھ ذمہ داری ادا کردی۔ اس پر رسول االلہ ﷺ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور اس کے ساتھ لوگوں کی طرف اشارہ کیاکہ اے االلہ گواہ رہ! اے االلہ گواہ رہ! اے االلہ گواہ رہ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ حوض کوثر پر میں قیامت کے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں آپ لوگوں کی کثرت پر فخر کروں گا، پس تم (اپنی برائیوں کی وجہ سے) مجھے رسوا نہ کرنا‘‘۔

پیارے آقاﷺ نے چودہ سواٹھائیس برس قبل آج کے دن ہمارے لئے کتنی جامع مانع اورمقدس آئین کا اہتمام کیاتھا۔ کاش! ہم سروردوعالم ﷺ کے اس آئین کو عملی جامہ پہناتے اورایک دوسرے کی مال، جان اورعزت پرہاتھ نہ ڈالتے۔ کاش ہم سود ی لین دین، خیانت، چوری کوحرام سمجھتے اور مواخات کی زنجیر سے جڑے رہتے اور فرقہ واریت سے باز رہتے۔ کاش ہم درگزر سے کام لیتے، یتیموں اور عورتوں کے حقوق کا دفاع کرتے۔ کاش ہم اس عرفاتی آئین کے ہردفعے کودل وجان سے تسلیم کرتے، کاش آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی‘‘۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).