عید قربان اور قومی فضائی کمپنیاں


کوئی عام شخص یہ شاید تصور بھی نہ کرسکے کہ اس کی ذرا سی غفلت اسی کے ادا کردہ ٹیکس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتی ہے۔ جی ہاں کروڑوں روپے کا سرمایہ چند سیکنڈوں میں تباہ ہوسکتا ہے لیکن اسے سمجھنا تھوڑا مشکل ہے لیکن ناممکن ہر گز نہیں۔ 1973 سے 2017 تک پاک فضائیہ کے اعدادو شمار کے مطابق اب تک 4607 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جس میں جہاز سے پرندہ ٹکرا گیا۔ ان واقعات میں کئی بار جہاز کے انجن اور کئی اہم پرزے ناکارہ ہوئے تو لاکھوں روپے اس پرزے کو لگانے میں صرف ہوئے۔ ان حادثات میں 16 ایسے حادثات بھی ہوئے جس میں جہاز مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ جب کہ پانچ جہازوں کے پائلٹس نے آبادی کو بچانے کے لئے اپنی جان کی قربانی بھی دے ڈالی۔ یہاں یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ ان حادثات کی وجہ ایک عام شہری کیسے ہوسکتا ہے؟

پاک فضائیہ کے فلائیٹ سیفٹی آفیسر اسکورڈن لیڈر سعود آفریدی کے مطابق دوسرے ممالک سے وقتی ہجرت کرکے پاکستان آنے والے پرندوں کی مدت اگست کا وسط او ر واپسی فروری میں ہوتی ہے یہ پرندے کراچی اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں اپنا قیام کرتے ہیں جبکہ پچھلے کچھ برسوں سے عید الاضحی کا وقت بھی ستمبر کا مہینہ ہے۔ ان مہینوں میں یہ پرندے پاک فضائیہ کی مشکلات میں کافی اضافہ کردیتے ہیں۔ خصوصا عید کے بعد قربانی کا فریضہ سر انجام دے کر شہری یہ اطمینان اور خوشی تو پالیتے ہیں کہ انھوں نے سنت ابراہیمی ادا کرلی لیکن یہاں وہ ایک ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ قربانی کے بعد آلائشوں کو ٹھکانے کہاں لگایا جائے۔

اس ضمن میں شہری اور ضلعی انتظامیہ اپنے اپنے طور پر کام کر رہی ہوتی ہے لیکن لگ بھگ دو کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں محدودحکومتی مشینری کا متحرک ہونا بھی ایک بڑی ذ مہ داری ہے اس میں عام شہری کا اپنے اپنے طور پر کردار ادا کرنا بے حد ضروری ہے۔ آلائشوں کو ایسی جگہوں پر ڈال دینا جو کھلی جگہ ہو، سڑک ہو یا کوڑے کا ڈھیر ان پرندوں کو خوراک تلاش کرنے میں آسانی دیتا ہے جو فضائی اڈوں کے قریب پڑتی ہیں۔ اکثر و بیشتر وہ پرندے جو چھوٹے ہوں او ر ا نکی پرواز بھی اتنی اونچی نہ ہو شاید وہ نقصان نہ پہنچا سکیں جو وہ پرندے پہنچا سکتے ہیں جن کا وزن ایک کلو سے زیادہ ہو جن میں گدھ اور چیلیں شامل ہیں۔ ان بڑے پرندوں کی پرواز پانچ ہزار فٹ تک بلند ہوسکتی ہے۔ ایسے پرندے اس لمحے جب لڑاکا طیارے لینڈنگ کے عمل میں ہوتے ہیں اور اسوقت جہاز کی رفتار کو کنٹرول کرنا بے حد دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے ایک ایسے میزائل کا کام کر جاتے ہیں جو جہاز کو تو تباہ کرتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ ایک باصلاحیت پائلٹ کی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اسکورڈن لیڈر سعود آفریدی کے مطابق ایک میزائل سے جہاز کا بچنا پھر بھی ممکن ہے لیکن ایک پرندہ جو نقصان کر جاتا ہے اس کا ازالہ کسی طور ممکن نہیں۔

اس مشکل صورتحال سے بچنے کے لئے پاک فضائیہ نے اپنے رن پر ایسے نشانے باز تعینات کیے ہوئے ہیں جو پرواز کے ٹیک آف اور لینڈنگ سے قبل اس جگہ آنے والے پرندوں کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں تاکہ اس دوران کوئی پرندہ جہاز کے سامنے نہ آسکے۔ لیکن اس کے باوجود بیس کے اطراف اور اس سے دور بھی بسنے والے شہریوں کی ذمہ داری اب بھی باقی ہے۔ فلائیٹ سیفٹی آفیسر کے مطابق بیس کے چاروں اطراف سات سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے تک ایسا کوڑا کرکٹ اور آلائشیں نہیں پھینکی جانی چائیے جس سے پاک فضائیہ کے طیاروں کو فضائی حادثات کا سامنا کرنا پڑے۔ اسکورڈن لیڈر سعود آفریدی کا کہنا تھا سعید آباد، لیاری ٹاون، سائیٹ ایریا، گلبائی کے علاقوں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات مسرور بیس سے پرواز بھرنے والے اور لینڈنگ کرنے والے جہازوں کو مشکل کا شکار کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں شہری انتظامیہ جہاں اپنا کام کر رہی ہے وہیں پاک فضائیہ نے شہریوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اس بار عید الاضحی پر قربانی کے بعد آلائشوں کو صحیح طرح ٹھکانے لگائیں بلکہ اسے ایسی جگہوں پر پھینکیں جو کھلی نہ ہوں۔ تاکہ پرندوں کو اس تک رسائی حاصل نہ ہوسکے۔

گنجان آبادی رکھنے والے اس شہر میں ائیر پورٹ اور فضائی چھاونیوں کے قریب اب آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہیں اس کے سبب صفائی ستھرائی کے معقول بندوبست نہ ہونے سے شہر مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ ان تمام تر چیلنجز کے باوجود اس برس پاک فضائیہ نے اپنی افرادی قوت اور مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پروازوں کو پرندوں سے محفوظ بنایا لیکن اس میں انھیں عوام کا تعاون بحرحال درکار ہے۔ اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی حفاظت کی ضامن پاک فضائیہ اور اس کے شاہینوں کی پرواز ہمیشہ بلند رہے تو آج سے اپنا کردار ادا کر کے اس قومی فریضہ کو سر انجام دیں تاکہ آپ کے ٹیکس سے ادا کردہ یہ کروڑں مالیت کے جہاز اور ہمارے جانباز پائلٹس نہ صرف محفوظ رہ سکیں بلکہ ہماری اور آپ کی نگہبانی کا فرض وہ ادا کرتے رہیں۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar