افغان صدر اشرف غنی امن کی دعوت دیتے ہیں


افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عید الاضحی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس قسم کے مذاکرات میں عام طور سے دو ممالک تمام امور پر بات چیت کے ذریعے افہام و تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغان صدر کی یہ پیش کش خوش آئند ہے کیوں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدوں کے تعین، افغان پناہ گزینوں اور دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے جیسے اہم موضوعات پر سنگین اختلافات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ امن اور بھائی چارے کی بات کی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے افغان صدر نے بھارت اور امریکہ کی زبان بولتے ہوئے پاکستان کے خلاف سخت بیان بازی اور الزامات کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اس سال کے شروع میں پاکستانی فوج اور پارلیمنٹ کے اعلیٰ سطحی وفود کابل کا دورہ کرکے صدر اشرف غنی کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دے چکے ہیں لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کردیا تھا کہ جب تک افغان شہریوں کے قاتل پاکستان میں موجود ہیں، وہ اس ملک میں نہیں جائیں گے۔

جمعہ کوعید الاضحی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے البتہ اس طرز عمل سے برعکس رویہ اختیار کیا ہے اور پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنے کو افغانستان کا قومی ایجنڈا قرار دیا۔ اشرف غنی کے اس بیان کی ٹائمنگ بھی قابل غور ہے۔ دو ہفتے پہلے افغانستان کے طاقتور سرپرست امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان پالیسی کے نام پر جو تقریر کی تھی اس میں پاکستان کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کیا گیا تھا۔ امریکی حکام اس کے بعد سے نہ صرف پاکستان پر افغان طالبان کی قیادت کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں بلکہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے پاکستان کی امداد بند کرنے اور اس کی نان نیٹو حلیف کی حیثیت ختم کرنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ پاکستان نے اس امریکی مؤقف کو مسترد کیا ہے اور پاکستان کی فوجی قیادت کے علاوہ قوی اسمبلی نے بھی واضح کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہا ہے۔ اس پر افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی ناکامی کا الزام عائد کرنے سے مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے خاص طور سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صدر ٹرمپ بھارت کو افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں میں زیادہ مستعد ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پاکستان کے خیال میں افغانستان میں بھارت کی موجودگی اور اثر و رسوخ، اس علاقے میں سیکورٹی کی صورت حال کے لئے تباہ کن ہوگا۔ بھارت پہلے ہی افغانستان میں پاکستان دشمن گروہوں کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

اس ماحول میں افغان صدر کی طرف سے پاکستان کے لئے نرم گوشہ دکھانے کا رویہ معنی خیز ہے۔ امریکی امداد اور تحفظ کے سہارے برسر اقتدار کوئی بھی افغان صدر امریکہ کی مرضی و منشا کے بغیر پاکستان کے ساتھ مفاہمت اور دوستی کا علم بلند نہیں کرسکتا۔ اگر اشرف غنی یہ اعلان امریکہ کی مرضی سے کررہے ہیں تو امریکہ کے ساتھ پاکستان کے کشیدہ ہوتے تعلقات میں یہ پیشکش امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو تنہا کرکے یا اس کے ساتھ براہ راست تصادم کا راستہ اختیار کرکے افغانستان میں امن تلاش کرنے کی بے سود کوشش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد بعض مبصر یہ قیاس کررہے تھے کہ امریکہ اب افغانستان میں تیسری اور پر جوش جنگ کا آغاز کرے گا اور اس میں پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کو معاون بنایا جائے گا۔ اس طرح پاکستان، افغانستان کے معاملہ پر غیرمتعلقہ ہو جائے گا۔ اشرف غنی کی تازہ پیشکش ان قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرنے کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔

تاہم ان عالمی سیاسی اور سفارتی پیچیدگیوں سے قطع نظر پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت اور مسائل کے تعین کے بعد انہیں حل کرنے کی طرف پیش قدمی ہی اس پورے خطے میں کشیدگی ختم کرنے اور دہشت گردی پر قابو پانے کا واحد راستہ ہے۔ اس مقصد کے لئے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بند کرنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف اپنے علاقے میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اور افغانستان میں مکمل امن کی بحالی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر افغانستان میں حالات دگرگوں ہوں گے تو لامحالہ اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا اور اگر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے افغانستان میں امن و امان کی صورت حال متاثر ہوگی۔اس لئے حالات کا تقاضہ ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت باہمی اعتماد اور احترام کا رشتہ بحال کرے اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کے لئے پیش قدمی کی جائے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اڑھائی ہزار طویل ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے کا سوال سب مسئلوں کی ماں کہا جا سکتا ہے۔ اسی کو عذر بنا کر افغان حکومت دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کے کنٹرول کے لئے پاکستانی فوج کی کوششوں کی مخالفت اور مزاحمت کرتی ہے۔ اس لئے باہمی امن کے ایجنڈے میں اس مسئلہ کو سر فہرست رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے بعد پاکستان میں چالیس برس سے مقیم تیس لاکھ افغان مہاجرین کا مسئلہ بھی سنگین اختلافات کی بنیاد ہے اور دہشت گردوں کو پناہ دینے جیسے الزامات کی وجہ بھی بنتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پاکستان میں افغان آبادی کی موجودگی کی وجہ سے کسی بھی پاکستانی حکومت کے لئے افغانستان سے آنے والے لوگوں کی مکمل جانچ پڑتال ممکن نہیں ہو سکتی۔ تاہم اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے دونوں ملکوں کو اس افغان نسل کے بارے میں بھی غور کرنا ہوگا جو پاکستان میں پیدا اور جوان ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو یا تو دونوں ملکوں کی شہریت دی جائے یا انہیں ایسی دستاویز فراہم ہوں کہ وہ دونوں ملکوں میں قانونی طور سے قیام کرسکیں ۔ اسی طرح دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی سہل ہو سکتی ہے۔

مذاکرات کے ذریعے ہر مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ صدر اشرف غنی کی تازہ پیشکش کا اصل مقصد کیا ہے۔ اور انہوں نے اچانک پاکستان کے بارے میں اس ’ نرم خوئی ‘ کا مظاہرہ کیوں کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali