کیا بھٹو خاندان کو جمہوریت پسندی کی سزا دی گئی؟


محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا فیصلہ انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے سناتے ہوئے دو پولیس افسروں کو سترہ سترہ برس قید کی سزا سنائی ہے جبکہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا ہے اور اس مقدمے میں گرفتار پانچ دوسرے افراد کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا گیا ہے تاہم اس فیصلے کو مقتدر حلقے میں نامکمل فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ہر پاکستانی کی زبان پر بس ایک ہی سوال ہے کہ بے بظیر کو قتل کس نے کروایا اور قاتل کون ہے؟ دیکھا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو کا پورا خاندان اس وقت گڑھی خدابخش کے سفید گنبد کے نیچے ابدی نیند سو رہا ہے۔ مگر آج بھی بھٹو خاندان عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور جب تک جمہوریت اور آمریت کی جنگ جاری رہے گی تب تک بھٹو خاندان کی جمہوریت اور عوام کے لیے دی گئی قربانیوں کا ذکر ہوتا رہے گا۔

بقول نسرین انجم بھٹی کے

میں مرزا ساگر سندھ دا، میری راول جنج چڑھی

میں تُریا سولی چُم کے، مینوں ایہوں رِیت بڑی

میرا چولا رنگ دیو رترا، میری اجرک گھلو جیل

نی سُن صاحباں پنجابنے آسمانے ہوسن میل

میں جھوٹے لے لیاں موت دے، میں چڑھی پینگ سویل

میں شاہ حسین دی عاجزی، میں شاہ لطیف دی ویل

میرے دشمن لکھن عدالتاں

میرے سجناں خبر پڑھی

چولے لتھے انصاف دے خلق حیران کھڑی۔

بھٹو خاندان پاکستان کا واحد سیاسی خاندان ہے جس کے چاہنے والے پورے ملک سمیت دنیا کے طول و عرض میں موجود ہیں اور بھٹو خاندان سے ہونے والی زیادتیوں پر افسوس اور غم کا اظھار کرتے رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کے نا مکمل فیصلے پر یقیناً ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو اور ان کے بھائیوں کی روحوں کو سخت صدمہ پہنچا ہوگا کہ ان کی طرح بے نظیر کے قاتل بھی سزا سے بچ گئے۔ دنیا کے عظیم لیڈر کو ایک آمر نے پھانسی پر چڑھا دیا اور آج بھی اسی عدالت میں بھٹو ریفرنس کیس انصاف کا طلبگار ہے۔ اور آج بھی شاہنواز بھٹو کے بہیمانہ قتل، کہ جس کو زھر دے کر مارا گیا اور مرتضی بھٹو جس کو اپنی بہن بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں دن دہاڑے کراچی کی سڑک پر ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ قاتلوں کا پتہ ہوتے ہوئے بھی ایک وزیر اعظم بہن اپنے بھائی کو انصاف نہ دلا سکی۔ ابھی باپ کی پھانسی اور بھائیوں کے قتل اور ماں کی زندہ موت کا غم ختم ہی نہ ہوا تھا کہ ظالموں نے بے نظیر کو قتل کر ڈالا۔

بے نظیر بھٹو کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور سوات میں پاکستان کا جھنڈا لہرانا چاہتی تھیں۔ اور اسی جمہوریت کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھٹو صاحب اور اپنے بھائیوں کے قاتلوں کو سزائے موت نہ دلوائی اور لوگ کہتے رہے کہ بھٹو صاحب، شاھنواز اور مرتضی کے قاتلوں کو سرِعام پھانسیوں پر چڑھایا جائے مگر بے نظیر بھٹو نے ایک نعرہ لگایا کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے اور وہ اپنے باپ کے عدالتی قتل کے غم اور اپنے بھائیوں کی جوان موت کو سینے میں چھپائے روتی رہیں۔ دوسری طرف ان کی کردار کشی کی گئی ان کو سکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ کرپشن سے لے کر اسلام دشمنی تک کے الزامات لگائے گئے مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان کا قصور صرف اور صرف جمہوریت پسندی تھا۔ اور آج جب بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا تو ان کے شوہر آصف علی زرداری اور ان کی سابقہ حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کیوں نہیں کیا اور کیوں جنرل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ملک سے باہر جانے دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہر برسی پر گڑھی خدابخش میں ایک سوال ہوتا رہا ہے کہ بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں۔ اسی کے ساتھ بارہا آصف علی زرداری کہتے رہے ہیں کہ ان کو پتہ ہے قاتل کون ہے مگر ابھی تک انہوں نے بھی قاتل کو بے نقاب نہیں کیا اور اسی وجہ سے لوگ ان کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے ہیں۔ اور آج پھر میڈیا سے لیکر عام عوام کی انگلیاں پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت پر اٹھ رہی ہیں کہ انہوں نے کیوں نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے عدالتی کیس کو لڑا اور ان کے قاتلوں کو سزائیں دلوائیں۔ شاید عام لوگوں کو یہ معلوم نہیں جو آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ کو پتا ہے کہ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے۔ جمہوریت ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی بدلا ہے اور جمہوریت کے دشمن ہی ہے نظیر کے قاتل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).