کیا ہم واقعی روہنگیا کی مدد کرنا چاہتے ہیں؟


روایت ہے کہ ایک جنگل میں کچی پکی جمہوریت آ گئی۔ ووٹروں کی اکثریت نے فیصلہ کیا کہ اگلے پانچ برس جنگل کا بادشاہ ایک بندر ہو گا۔ بندر بادشاہ نے ابھی تخت سنبھالا ہی تھا کہ ایک ہرنی فریاد کرتی ہوئی آ گئی۔ کہنے لگی کہ ”بادشاہ سلامت! آپ کے راج میں شیر میرے میاں کو اٹھا کر لے گیا ہے، بادشاہ سلامت اس کی جان بچائیں“۔ بندر یہ سنتے ہی شدید غضبناک ہو کر خوخیاتے ہوئے ایک ڈال سے دوسری پر چھلانگیں مارنے لگا۔ ہرنی دس منٹ تک دیکھتی رہی پھر دوبار فریاد کناں ہوئی ”بادشاہ سلامت! آپ کے راج میں شیر میرے میاں کو اٹھا کر لے گیا ہے، بادشاہ سلامت اس کی جان بچائیں“۔ بندر اس کے قریب ایک ڈال پر آیا اور کہنے لگا ”تم میری پھرتیاں نہیں دیکھ رہیں؟ شیر پر جتنا میرا بس چلتا ہے میں وہ کر رہا ہوں“۔ کیا ہم روہنگیا مسلمانوں کی واقعی کوئی عملی مدد کرنا چاہتے ہیں یا اس بندر بادشاہ کی مانند صرف پھرتیاں دکھانے کے خواہش مند ہیں جو شیر کا کچھ بھی بگاڑنے سے قاصر تھا۔

آپ کا ملک کسی دوسرے پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟ یا تو آپ کے پاس ایسی اندھی فوجی طاقت ہو کہ جہاں مرضی بدمعاشی کر دیں اور کوئی روکنے کی جرات نہ کر سکے۔ اسی لئے امریکہ کے ڈرون حملے پر آپ دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں اور افغانستان، لیبیا اور عراق پر حملوں پر آنکھیں بند کر کے الٹا اسی کی مدد کرنے لگتے ہیں۔

یا پھر آپ کے پاس ایسی سافٹ پاور ہو کہ دوسرا آپ کو نظرانداز نہ کر سکے۔ سافٹ پاور کئی قسم کی ہو سکتی ہے۔
مثلاً کسی کے معاشی مفادات آپ سے وابستہ ہوں اور آپ کی ناراضگی سے اسے روٹیاں جانے کا خوف ہو۔ اسی لئے باس کے ٹھس لطیفوں پر آپ پیٹ پکڑ کر دوہرے ہو جاتے ہیں۔
یا کوئی آپ سے ایسا دوستانہ تعلق رکھتا ہو کہ آپ کی بے جا ضد کو بھی آپ کی محبت میں ماننے پر مجبور ہو۔ جیسے ایردوان حکومت کی ضد پر آپ کو ترک اساتذہ کو نکالنا پڑا تھا۔
یا پھر آپ اس دوسرے کے روحانی پیر و مرشد ہوں اور آپ کی ناراضگی سے آپ کے مرید کو اپنی دنیا و عاقبت تباہ ہوتی دکھائی دے۔

فی الحال پاکستان کے لئے اندھی فوجی طاقت بننا ناممکن ہے۔ اس لئے اگلی آپشن دیکھتے ہیں جو سافٹ پاور ہے۔

آپ ہندوستانی مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہندوستان کو انرجی پائپ لائن اور تجارتی راہداری دے دیں۔ جب آپ کی ناراضگی کی صورت میں اسے اپنی بیس پچیس فیصد انڈسٹری بند ہوتی دکھائی دے گی تو وہ روٹی کی خاطر آپ کی بات پر کان دھرنے پر مجبور ہو گا۔ جب تعلقات خوشگوار ہوں گے تو آپ اس کی محنت پر مفت کا محصول وصول کریں گے۔

آپ فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر اسرائیل سے وہ اسلحہ اور ٹیکنالوجی لینا شروع کر دیں جو اس وقت وہ ہندوستان کو بیچ رہا ہے۔ پاکستان اسرائیل کے لئے ایک بڑی معاشی مارکیٹ بنے گا اور مشرق وسطٰی میں امن برقرار رکھنے میں اسے ویسا اہم لگے گا جیسا ترکی لگتا ہے تو وہ آپ کے آگے ویسے ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گا جیسے ماوی مارمرا جہاز کے معاملے میں ترکی کے آگے مجبور ہوا تھا۔

آپ برما سے معاشی مفادات کے رشتے میں نہیں بندھ سکتے۔ نہ آپ ایسی معیشت رکھتے ہیں کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ کے ذریعے برما کی معیشت کو خطرے میں ڈال سکیں۔ اس لئے برما کے لئے یہ معاشی آپشن نہیں چلے گی۔

کیا برما سے ایسے دوستانہ تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں کہ وہ آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو؟ ترکی کے ساتھ یہ تعلقات تحریک خلافت کے دونوں میں قائم ہوئے تھے۔ برما کے ساتھ مشکل ہیں۔ یہ بھی نہیں چلے گا۔ کچھ اور دیکھتے ہیں۔

کیا ہم برما کے روحانی پیر و مرشد بن سکتے ہیں؟ یہ عین ممکن ہے۔ ہم برما کیا چین جاپان کوریا سمیت تمام بدھ اقوام کے پیر و مرشد بن سکتے ہیں۔ ہندوستان ہمارے آگے ہاتھ جوڑ کر ہمیں پرنام کر سکتا ہے۔ ہمیں صرف یہ کرنا ہو گا کہ ان کو مرید بننے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔
سعودی عرب، ترکی اور اٹلی سمیت دنیا کی کئی قومیں مذہبی ٹورازم کو فروغ دے رہی ہیں۔ وہ دوسرے ممالک سے زائرین کو لاتی ہیں، چار پیسے بھی کماتی ہیں اور وہاں کے عوام پر اثر و رسوخ بھی حاصل کرتی ہی۔

ہم اگر سوات، ٹیکسلا، گلگت بلتستان اور وادی پشاور کو بدھوں کی زیارت گاہ کے طور پر ترقی دیں تو کیا ہو گا؟ کیا برما کے وہی بھکشو جو ادھر مسلمانوں کو مار رہے ہیں، ہماری بات پر کان دھرنے پر مجبور نہیں ہوں گے؟
اگر ہم سکھ گردواروں کو باقاعدہ ٹورسٹ فرینڈلی بنا دیں تو کتنے سکھ آئیں گے؟ ہندوستانی پنجاب پر ہمارا کتنا اثر بڑھے گا؟
اگر ہم کٹاس راج، ٹلہ جوگیاں، ہنگلاج اور سینکڑوں خاک ہوتے مقدس ہندو مقامات تک ہندو زائرین کی رسائی آسان کر دیں تو کیا وہ ہمارے اثر میں نہیں آئیں گے؟

کیا ہم اپنے بہترین ریتلے ساحلوں کو یورپی سیاحوں کو مارکیٹ کر سکتے ہیں تاکہ ادھر عوامی سطح پر حمایت بھی ملے اور چار پیسے بھی بنیں۔ تیل ختم ہونے پر اب تو سعودی بھی یہ کرنے لگے ہیں لیکن ہم ان سے اخذ کردہ اپنی ضیائی ہٹ پر قائم رہنے پر بضد ہیں۔
کیا شمالی علاقوں کو ہم مغربی سیاحوں کی جنت بنا سکتے ہیں یا پھر ان کے لیے ویزا حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہی بنائیں گے؟
نہ ہم پیسہ کمانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ سافٹ پاور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

سافٹ پاور کے حصول کے لئے یہ سب کچھ کرنا ہمارے لئے مشکل ہے۔ اس لئے روہنگیا، ہندوستانی مسلمانوں، کشمیریوں، فلسطینیوں وغیرہ کو ان کے حال پر چھوڑتے ہیں اور نزدیکی درخت کی کوئی شاخ پکڑتے ہیں تاکہ ان کو بے مقصد پھرتیاں دکھا سکیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar