احمد مشتاق کی غزلیں


احمد مشتاق کی غزلیں جب بھی پڑھتا ہوں، کسی مقام پر جی ہی نہیں چاہتا کہ ٹھہر جاؤں،یہ میرا باربار کا تجربہ ہے، جسے ہر دفعہ پھر اک بار کرنے کا جی چاہتا ہے۔ایسی شاعری اردو میں کرنے والے شاید ہی کچھ لوگ ہوں گے، جن کو خیال کے ساتھ اتنی سادہ اور خوبصورت زبان بھی ملی ہو، یہ وہ انتہائے فن ہے، جسے چھونا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔کہا جاتا ہے کہ شاعری کا فیصلہ آنے والا وقت کرتا ہے، احمد مشتاق کا وہ آنے والا وقت ہم ہیں، اور ہم ان غزلوں کے عاشق ہیں، سو یہ غزلیں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گی ہماری زندگی تک اور شاید اس کے بعد بھی، یا شاید اردو زبان و ادب کا دم بھرنے والے آخری قاری کی آخری سانس تک۔ ان غزلوں کا انتخاب کرتے ہوئے میں بہت مسرت محسوس کررہا ہوں، ان غزلوں کو پڑھیے، سنیے اور دوہرائیے، یہ سارا سرمایہ آپ کا ہے۔

اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تری راہ گزر پر رکھا
ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شب غم کا آنچل
اور اک ہاتھ کو دامان سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے ساےۂ در پر رکھا
جاتے موسم نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا مشتاق
رہ گیا ساغر گل سبزۂ تر پر رکھا
۰۰۰
ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم
ہنستے رہیں گے شور مچاتے رہیں گے ہم
لب سوکھ کیوں نہ جائیں گلا بیٹھ کیوں نہ جائے
دل میں ہیں جو سوال اٹھاتے رہیں گے ہم
اپنی رہ سلوک میں چپ رہنا منع ہے
چپ رہ گئے تو جان سے جاتے رہیں گے ہم
نکلے تو اس طرح کہ دکھائی نہیں دیے
ڈوبے تو دیر تک نظر آتے رہیں گے ہم
دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کردیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
۰۰۰
اک پھول میرے پاس تھا اک شمع میرے ساتھ تھی
باہر خزاں کا زور تھا اندر اندھیری رات تھی
ایسے پریشاں تو نہ تھے ٹوٹے ہوئے سناہٹے
جب عشق کی تیرے مرے غم پر بسر اوقات تھی
کچھ تم کہو تم نے کہاں کیسے گزارے روز و شب
اپنے نہ ملنے کا سبب تو گردش حالات تھی
اک خامشی تھی تر بتر دیوار مژگاں سے ادھر
پہنچا ہوا پیغام تھا برسی ہوئی برسات تھی
سب پھول دروازوں میں تھے سب رنگ آوازوں میں تھے
اک شہر دیکھا تھا کبھی اس شہر کی کیا بات تھی
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھا غم بھی کسی کی ذات تھی
۰۰۰
برس کر کھل گیا ابر خزاں آہستہ آہستہ
ہوا میں سانس لیتے ہیں مکاں آہستہ آہستہ
بہت عرصہ لگا رنگ شفق معدوم ہونے میں
ہوا تاریک نیلا آسماں آہستہ آہستہ
کہیں پتوں کے اندر دھیمی دھیمی سرسراہٹ ہے
ابھی ہلنے لگیں گی ڈالیاں آہستہ آہستہ
جہاں ڈالے تھے اس نے دھوپ میں کپڑے سکھانے کو
ٹپکتی ہیں ابھی تک رسیاں آہستہ آہستہ
سماعت میں ابھی تک آہٹوں کے پھول کھلتے ہیں
کوئی چلتا ہے دل کے درمیاں آہستہ آہستہ
بدل جائے گا موسم درد کی شاخ برہنہ میں
نکلتی آرہی ہیں پتیاں آہستہ آہستہ


۰۰۰
بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں
بجھے ٹکڑے پڑے ہیں سگریٹوں کے راکھ دانوں میں
دھوئیں سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے
ہرے جنگل بدلتے جارہے ہیں کارخانوں میں
بھلی لگتی ہے آنکھوں کو نئے پھولوں کی رنگت بھی
پرانے زمزمے بھی گونجتے رہتے ہیں کانوں میں
وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
زبانوں پر الجھتے دوستوں کو کون سمجھائے
محبت کی زباں ممتاز ہے ساری زبانوں میں
۰۰۰
بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہوکر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
بھولنے والے! وقت کے ایوانوں میں کون ٹھہرتا ہے
بیتی شام کے دروازے پر کس کو بلانے آئے گا
آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اک بدلی سے اک تارا
پھر بدلی کی یورش ہوگی پھر تارا چھپ جائے گا
اندھیارے کے گھور نگر میں ایک کرن آباد ہوئی
کس کو خبر ہے پہلا جھونکا کتنے پھول کھلائے گا
پھر اک لمحہ آن رکا ہے وقت کے سوئے صحرا میں
پل بھر اپنی چھب دکھلا کر لمحوں میں مل جائے گا
۰۰۰
پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے
دیوار پر کھلے ہیں نئے موسموں کے پھول
سایہ زمین پر کسی پچھلے مکاں کا ہے
چاروں طرف ہیں سبز سلاخیں بہار کی
جن میں گھرا ہوا کوئی موسم خزاں کا ہے
سب کچھ بدل گیا ہے تہہ آسماں مگر
بادل وہی ہیں رنگ وہی آسماں کا ہے
دل میں خیال شہر تمنا تھا جس جگہ
واں اب ملال اک سفر رائگاں کا ہے
۰۰۰
پتہ اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
یہ مقتل بھی ہے اور کنج اماں بھی
یہ دل یہ بے نشاں کمرہ ہمارا
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاق
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا
۰۰۰

ترے دیوانے ہر رنگ رہے ترے دھیان کی جوت جگائے ہوئے
کبھی نتھرے ستھرے کپڑوں میں کبھی انگ بھبھوت رمائے ہوئے
اس راہ سے چھپ چھپ کر گزری رت سبز سنہرے پھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے گھبرائے ہوئے شرمائے ہوئے
اب تک ہے وہی عالم دل کا وہی رنگ شفق وہی تیز ہوا
وہی سارا منظر جادو کا مرے نین سے نین ملائے ہوئے
چہرے پہ چمک آنکھوں میں حیا لب گرم خنک چھب نرم نوا
جنہیں اتنے سکون میں دیکھا تھا وہی آج ملے گھبرائے ہوئے
ہم نے مشتاق یونہی کھولا یادوں کی کتاب مقدس کو
کچھ کاغذ نکلے خستہ سے کچھ پھول ملے مرجھائے ہوئے
۰۰۰
تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کے دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
ہوائیں جن کی اندھی کھڑکیوں پر سر پٹکتی ہیں
میں ان کمروں میں پھر شمیں جلا کر دیکھ لیتا ہوں
عجب کیا اس قرینے سے کوئی صورت نکل آئے
تری باتوں کو خوابوں سے ملا کر دیکھ لیتا ہوں
سحر دم کرچیاں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی ملتی ہیں
تو بستر جھاڑ کر چادر ہٹا کر دیکھ لیتا ہوں
بہت دل کو دکھاتا ہے کبھی جب درد مہجوری
تری یادوں کی جانب مسکراکر دیکھ لیتا ہوں
اڑا کر رنگ کچھ ہونٹوں سے کچھ آنکھوں سے کچھ دل سے
گئے لمحوں کو تصویریں بنا کر دیکھ لیتا ہوں
نہیں ہو تم بھی وہ اب مجھ سے یارو کیا چھپاؤ گے
ہوا کی سمت کو مٹی اڑا کر دیکھ لیتا ہوں
سنا ہے بے نیازی ہی علاج نا امیدی ہے
یہ نسخہ بھی کوئی دن آزما کر دیکھ لیتا ہوں
محبت مرگئی مشتاق لیکن تم نہ مانو گے
میں یہ افواہ بھی تم کو سنا کر دیکھ لیتا ہوں
۰۰۰
تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
جانے وہ کس خیال میں تھا کس سمے میں تھا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
تا صبح برگ و شاخ و شجر جھومتے رہے
کل شب بلا کا سوز ہوا کے گلے میں تھا
نیندوں میں پھررہا ہوں اسے ڈھونڈتا ہوا
شامل جو ایک خواب مرے رتجگے میں تھا
۰۰۰
تھم گیا درد اجالا ہوا تنہائی میں
برق چمکی ہے کہیں رات کی گہرائی میں
باغ کا باغ لہو رنگ ہوا جاتا ہے
وقت مصروف ہے کیسی چمن آرائی میں
شہر ویران ہوئے بحر بیابان ہوئے
خاک اڑتی ہے در و دشت کی پہنائی میں
ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا
اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں
اس تماشے میں نہیں دیکھنے والا کوئی
اس تماشے کو جو برپا ہے تماشائی میں
۰۰۰
چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دل مشتاق ٹھہر جا وہی منظر آیا
میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا
بجھ گی رونق پروانہ تو محفل چمکی
سوگئے اہل تمنا تو ستم گر آیا
یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).