انسانی حقوق والو، امن کا نوبل انعام جیتنے والی آنگ سان سوچی کہاں ہے؟


برما کے حکمرانوں اور بدھ بھکشوؤں نے اپنے مذہب بدھ مت کا چہرہ گندا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حالانکہ اس مذہب کے بانی مہاتما بدھ کو دنیا میں امن کا سب سے بڑا پیامبر اور عدم تشدد کے فلسفے کا داعی سمجھا جاتا ہے۔ مہاتما کہا کرتے تھے کہ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔ ان کے پیروکاروں کی دنیا قریباً 35 کروڑ لوگوں پر مشتمل ہے، زیادہ تر جاپان، جنوبی کوریا، لاؤس، منگولیا، سنگاپور، تائیوان، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بھوٹان اور میانمار میں بستے ہیں۔

میانمار جس کا پرانا نام ’برما‘ ابھی تک لوگوں کی زبانوں پر ہے، 1937ء تک برصغیر ہی کا حصہ تھا، مغل بادشاہت کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر نے جلاوطنی کے دن یہاں گزارے اور آخری سانس بھی یہاں لی ۔ ان کا مزار رنگون میں ہے۔ برطانیہ نے1937ء میں اسے برصغیر سے الگ کرکے ایک علیحدہ کالونی کا درجہ دیا اور برطانیہ کے برصغیر سے کوچ کرنے تک برما برطانوی تسلط میں ہی رہا۔ میانمار کی قریباً 5 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی میں89 فیصد بودھ، 4 فیصد مسلمان (تقریباً ساڑھے 22 لاکھ)، 4 فیصد عیسائی،1فیصد ہندو اور 2 فیصد دوسری قومیں آباد ہیں۔

اس علاقے میں مسلمانوں کی آمد کے آثارآٹھویں صدی عیسوی سے ملتے ہیں، تب عرب مسلمان تجارت کی غرض سے برما آئے اور پھر یہاں بس گئے۔ سات صوبوں کے اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت شمال مغربی صوبے اراکان (راکھین یا رخائن) میں آباد ہے۔’ٹائمز اٹلس آف ورلڈ ہسٹری‘ کے مطابق یہ ایک آزاد ملک تھا جس کا نام ’ارکان‘ یا ’اراکان‘ تھا۔

1784ء میں برمیوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب یہاں قریباً سات سے آٹھ لاکھ مسلمان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انھیں ’’روحنگیا یا روہنگیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’روحنگ‘ اصطلاح، لفظ ’رحم‘ (ہمدردی) سے پھوٹی ہے۔

اْن کے حْسنِ سلوک اور قابلِ رحم جذبے سے متاثر ہوکر مقامی لوگوں نے انھیں مسلمان کے نام سے یاد کرنے سے زیادہ ’رحم کرنے والے‘ لوگوں سے پہچانا اور پکارا۔ اس طرح نہ صرف یہاں کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا، بلکہ مسلمانوں کے نام کے ساتھ ’روحنگ‘ اور ’روحنگیا‘ کا لاحقہ بھی منسلک ہوگیا۔ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اْن عربوں کے یہاں کوئی آثار نہیں، لیکن ’روحنگی‘ زبان عربی رسم الخط میں بھی لکھے جانے کی گنجائش اس تعلق کی ایک یادگار ضرور ہے۔

روہنگیا مسلمان صرف میانمار ہی میں نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے علاقہ چٹاگانگ میں بھی آباد ہیں، یہاں آباد روہنگیا مسلمانوں کی تعداد تین سے پانچ لاکھ ہے۔ میانمار میں جب روہنگیا مسلمانوں کو بدترین جبر کا نشانہ بنایاگیاتو ایک بڑی تعداد تھائی لینڈ میں نقل مکانی کرگئی۔ اب وہاں مقیم روہنگیاز کی تعداد ایک لاکھ ہے۔

28 مارچ 2008 کو تھائی حکومت نے اعلان کیاکہ تھائی بحریہ کوئی ویران جزیرہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ روہنگیامسلمانوں کو وہاں رکھا جا سکے۔ روہنگیاز نے دیگر ملکوں کی طرف بھی نقل مکانی کی۔ان میں چارلاکھ سعودی عرب میں، دو لاکھ پاکستان میں اور 40 ہزار سے زائدملائشیا میں آباد ہوچکے ہیں۔ یوں مجموعی طورپر دنیا میں روہنگیاز (مختلف اندازوں کے مطابق) 14سے 20 لاکھ ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کو ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ سبب یہ ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے سے بے دخل کردئیے گئے، اراکان کی ریاست جہاں روہنگیاز خوشحال زندگی بسر کرتے تھے، اب یہاں زندہ جلا کر، ان کے گھر بار تباہ کرکے انھیں سمندر کی طرف دھکیل دیاگیا۔ وہ سمندر ہی میں ہیں کیونکہ اردگرد کا کوئی ملک انھیں اپنے ہاں داخل ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔

میانمار دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اپنے ہی شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیاگیا، سبب یہ ہے کہ ان شہریوں کا مذہب مختلف ہے، اور وہ اپنی پرانی ریاست اور شناخت کے ساتھ زندگی بسر کرناچاہتے ہیں۔جبکہ برمیوں کو ’اراکان‘ ریاست کی بحالی منظورنہیں۔ سبب یہ ہے کہ یہ علاقہ پٹرول اور گیس کے ذخائر سے بھرا ہواہے۔ برما کی کوشش ہے کہ یہاں سے مسلمانوں کو نکال کر اپنا مکمل کنٹرول قائم کیاجائے کیونکہ یہاں کے قدرتی وسائل کو بھرپور اندازمیں خود بھی استعمال کرناہے اور یہاں سے چین اور جنوبی کوریا تک تیل اور گیس کی پائپ لائنز بچھانے کے منصوبوں سے بھی فائدہ اٹھانا ہے۔ گیس کی ایک پائپ لائن جولائی 2013ء میں آپریشنل ہوچکی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ پٹرولیم پائپ لائن کا منصوبہ بھی ہے جس کے ذریعے ہر روز چارلاکھ چالیس ہزار بیرل تیل چین تک پہنچے گا۔ برمی حکومت ان منصوبوں کی راہ میں روہنگیا مسلمانوں کو رکاوٹ سمجھتی ہے۔چنانچہ ان کی نسل کشی اور انھیں ماربھگانا ہی مسئلے کا حل سمجھاگیا۔ اس کی تصدیق برمی صدر تھین سین کے اس برملا اعلان سے بھی ہوتی ہے کہ ’’روہنگیا مسلمانوں کو لازماً، میانمار سے نکالا اور اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں دھکیلا جائے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے‘‘۔

چنانچہ بودھوں نے مسلمانوں کو یہاں سے نکال باہر کرنے کے لئے ہرقسم کے تشدد اور پابندیوں کے حربے استعمال کئے۔ 1559ء میں جانورذبح کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، یوں مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانور قربان کرنے سے محروم ہوگئے۔ 1782ء میں یہاں کے بادشاہ’بودھاپایہ‘ نے مسلمان علماء کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار پر سب قتل کر دئیے گئے۔1938ء میں جب برمی بودھ برطانوی فوج کے خلاف جنگِ آزادی لڑرہے تھے تو وہ گولیوں سے بچنے کیلئے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے تھے۔

برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتلِ عام 1962ء میں ہوا جب یہاں کی فوجی حکومت نے مسلمانوں کو باغی قرار دے کر اْن کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ قتل عام وقفے وقفے سے 1982ء تک جاری رہا اور اس میں کم و بیش 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ اسی دوران یہاں سے لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے سعودی عرب، پاکستان، تھائی لینڈ اور ملائشیا میں منتقل ہوئے۔ سن1982ء میں یہاں سیٹیزن شپ قانون متعارف کرایاگیا جس کے تحت8لاکھ روہنگیا مسلمانوں اور10لاکھ چینی وبنگالی مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کردیا اور ان پر اپنے علاقوں سے اِدھر اُدھر جانے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ دولاکھ مسلمان بنگلہ دیش کی طرف دھکیل دئیے گئے۔

1992ء میں بھی ڈھائی لاکھ مسلمانوں کو ملک بدر کیاگیا۔ مارچ 1997ء کے وسط میں بدھ بھکشوؤں نے اراکان صوبے کے شہر ’’منڈالے‘‘ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں میں گھس کر انھیں قتل کیا، قرآن مجید، تفاسیر،کتب ِ احادیث اور دیگر اسلامی کتب کو نذرآتش کردیاگیا۔ ان کی دکانوں کو لوٹ لیاگیا۔ نتیجتاً یہاں کے مسلمانوں نے دوسرے شہروں میں پناہ لے کرجان بچائی۔ جولائی 2001ء میںبدھ بھکشوؤں نے ایک مسجد پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف نمازیوں کو قتل کر دیا۔ اس خونیں مہینے میں11 مساجد شہید، 400 سے زائد گھر نذرِآتش اورقریباً 200 مسلمانوں کو شہید کردیاگیا۔

1962ء سے 2010ء تک میانمار فوجی ڈکٹیٹرشپ کے منحوس سائے تلے رہا۔ سن 2011ء میں جمہوری حکومت قائم ہوئی تو روہنگیا مسلمانوں کو امید بندھی، شاید جمہوری حکمران انھیں بنیادی انسانی حقوق فراہم کرتے ہوئے انھیں اپنا شہری مان لیں، انھوں نے یہ مطالبات کئے لیکن انھیں ایک بار پھر سختی سے کچل دیاگیا۔ تین برس قبل ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کیاتو بودھ بھکشو مشتعل ہوگئے، پہلے لڑکی کو گھربدرکیاگیا، پھر اسے ایک مسلم آبادی میں قتل کردیاگیا۔ 3 جون 2012ء کو بودھ بھکشوؤں نے ایک بس روکی اور اس میں سے عمرہ ادا کرکے واپس آنے والے 10 مسلمان علماء کو باہر نکال کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور بس جلا دی۔

ساتھ ہی بودھ بھکشوؤں نے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی دھاوا بول دیا، آگ اور خون کا خوب کھیل کھیلا۔ ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کر دیا، بچ جانے والوں کو زخمی، بے گھر کیا اور ان کے گھروں کوآگ لگا دی۔ بے بس عورتوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا، بہت سوں کو زندہ جلا دیا اور بچ رہنے والوں کو دھکیل کر سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے پر مجبور کیا گیا۔

اردگرد کے ممالک میں کیمپوں میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کی حالت بھی خاصی ناگفتہ بہ ہے۔ بالخصوص بنگلہ دیش میں واقع کیمپوں کی۔ اگست 2012ء میں برطانوی ٹی وی چینل ’چینل فور‘ نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح مسلمان، کیمپوں میں جانوروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں قریباً 10 ہزار مکانات کا ملبہ بھی دکھایا گیا۔

اقوام متحدہ کی تنظیم یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمشنر فار رفیوجیز (UNHCR) جو دنیا بھر میں مہاجرین کے امور پر نظر رکھتی ہے، نے خبردار کیا ہے کہ میانمار کی مسلمان اکثریتی ریاست میں تاحال مسلمانوں کو شدید ظلم و ستم اور انتقام کا نشانہ بنا یا جارہا ہے۔تنظیم کی ترجمان ایڈرین ایڈورڈزکے مطابق تحفظ اور امن کے متلاشی ان متاثرین کو ملک چھوڑ دینے کے بعد بھی ظلم اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سمندری راستے میں موجود لٹیرے اور انسانی اسمگلروں کے ستم تو اپنی جگہ ، تھائی لینڈ اور ملیشیا پہنچنے کے بعد بھی مہاجرین کو انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تھائی لینڈ، ملیشیا اور انڈونیشیا پہنچنے والوں نے بتایا کہ تحفظ کے متلاشی روہنگیاکے مسلمان گنجائش سے کہیں زیادہ تعداد میں کشتیوں میں سوار ہوکر ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ سفر انتہائی خطرناک ہوتاہے کیونکہ اکثر کشتیاں چلتے چلتے راستہ تبدیل کرلیتی ہیں یا ان کا انجن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کشتیوں میں سوار لوگوں کو کبھی خوراک اور پانی کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑتا، اور جو لوگ راستے میں دم توڑ جاتے ہیں انہیں سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

تھائی لینڈ پہنچنے والے مہاجرین میں سے چند نے اقوام متحدہ کے ادارے کو بتایا کہ انھیںتھائی لینڈ اور ملیشیا کے بارڈر پر واقع جنگلوں اور پہاڑیوں میں موجود سمگلروں کے کیمپوں میں لے جایا گیا جو بھرے ہوئے تھے اور وہاں انہیں کبھی قید اور کبھی بغیر قید کے مہینوں رکھا گیا ، یہاں تک کہ ان کے خاندان کے لوگوں نے رقم ادا کرکے انہیں رہاکروایا۔ متاثرین نے بتایا کہ انہیں روز تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ، جس کی وجہ سے کچھ لوگ جاں بحق بھی ہوئے۔ جگہ کی تنگی کے باعث انہوں نے دن اکڑوں بیٹھے اور رات ایک کروٹ پر سوکر گزاری۔

اقوامِ متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار ’نوی پلے‘ نے بتایاکہ مقامی پولیس اور بدامنی پر قابو پانے کیلئے بھیجی جانے والی فوج بھی معصوم مسلمانوں ہی کو نشانہ بناتی رہی۔ ایک دوسرے برطانوی نشریاتی ادارے نے بنگلادیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پربھی ایک رپورٹ نشر کی جس میں اکثر نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کومیانمار کی فوج نے قتل کیا۔ 2012ء میں جب مسلم ممالک کی تنظیم ’اسلامی کانفرنس‘نے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمارحکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

افسوسناک امریہ ہے کہ میانمار کی عالمی شہرت یافتہ رہنما ’آنگ سان سوچی‘ نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے انکار کردیا، آنگ سان نے لندن اسکول آف اکنامکس (LSE) میں، جون 2012ء میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے‘‘۔ پھر ڈاؤننگ سٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر ایک حرف نہ کہا، لیکن جب صحافیوں نے سوال اْٹھایا تو صرف اتنا کہا: ’’اس نسلی فساد کا دانش مندی سے جائزہ لینا چاہیے‘‘۔ اس پر انھیں انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

2013ء میں میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے دو صوبوں میں ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ دوسری طرف بنگلا دیشی حکومت نے ملک میں ساڑھے تین ہزار مہاجرین کو فوری طور پر بنگلادیش سے نکل جانے کو کہا۔ ان افراد نے سری لنکا کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن انھیں واپس دھکیل دیاگیا، وہاں سے پہلے تھائی لینڈ،پھرملائیشیا، پھر انڈونیشیا اورپھر سنگاپور میں جانے کی کوشش کی لیکن ہرجگہ سے واپس دھکیل دئیے گئے۔ 2013ء میں پھر برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے گئے۔

اگرچہ اس وقت کھلے سمندر میں، کشتیوں میں موجود بھوک اور بیماری کے نرغے میں آئے روہنگیاز کو ہر قسم کی امداد فراہم کرنا ایک بڑی ضرورت ہے۔ سعودی عرب، پاکستان سمیت کئی ممالک نے رقوم مختص کی ہیں تاہم یہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں۔ اصل حل ریاست برما کے روہنگیا مسلمانوں کو برما کی مساوی شہریت دینا ہے

روہنگیا مسلمان جل رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنو، نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو بلاؤ۔ امن کا نوبل انعام جیتنے والی کہاں ہے؟

(عبید اللہ عابد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).