روہنگیا مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ہیں


میانمار کی سیکورٹی فورسز نے ایک بار پھر ملک کے راکھین صوبے میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر قیامت ڈھائی ہے اور گزشتہ چند روز میں 400 نہتے اور مجبور و بے بس روہنگیا کو قتل کیا گیا ہے۔ ساٹھ ہزار کے لگ بھگ لوگ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ کے لئے مشکل اور دشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہوئے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہزاروں لوگ ان کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں اور امدادی کارکن ان کی مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث سب ضرورت مندوں کو بنیادی ضروریات اورعلاج کی سہولتیں فراہم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کی حکومت اس صورت حال کو تسلیم نہیں کرتی ہے جس کی وجہ سے امدادی کارروائیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر مزید پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران عالمی ضمیر اطمینان سے سویا ہوا ہے۔ مسلمان رہنماؤں کو روہنگیا مسلمانوں کی ابتر صورت حال اور میانمار فوج کے استبداد پر کوئی پریشانی نہیں۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل جو شمالی کوریا کی طرف سے ایک میزائل تجربہ کے بعد بے چین ہوکر مل بیٹھنے اور سخت پابندیاں عائد کرنے کا اہتمام کرتی ہے، میانمار حکومت کی انسان دشمن پالیسیوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ دوسرے درجے کا کوئی اہلکار انسانوں کی ہلاکت اور بے کسی پر افسوس کا اظہار کرنا کافی سمجھتا ہے۔

میانمار میں اس وقت امن انعام یافتہ آنگ سوچی کی حکومت ہے۔ وہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے تعاون سے فوج کے ساتھ مفاہمت کے نتیجہ میں اقتدار میں آئی ہیں لیکن وہ بھی اپنے ملک کی ایک چھوٹی سی اقلیت کے خلاف ہونے والے مظالم کی روک تھام کرنے یا اس استبداد کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ نہیں کرتیں۔ آنگ سوچی ملک کی بدھ عقیدہ پر عمل کرنے والی اکثریتی آبادی کی حمایت سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ میانمار میں بدھ مذہبی لیڈروں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی مہم شروع کی تھی۔ اس لئے ساری زندگی انسانی حقوق اور جمہوریت کی جد و جہد کرنے اور اس مقصد کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود آنگ سوچی روہنگیا کے حوالے سے کوئی واضح مؤقف اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتیں۔ بلکہ انہوں نے اس اصولی اور انسانی مسئلہ کے بارے میں ہمیشہ عذر خواہی سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برما میں طویل فوجی حکمرانی کے بعد اگرچہ بعض بنیادی حقوق بحال کئے گئے ہیں اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی صورت حال بہتر ہوئی ہے لیکن روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ انتظام میں بھی ایک طرف سیکورٹی فورسز روہنگیا کے خلاف آئے روز ظلم کی نئی داستان رقم کرتی ہیں تو دوسری طرف عام آبادی بھی ان کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے اور انہیں ملک سے مار بھگانے یا ہلاک کر دینے جیسے انتہائی اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ ملک کے مذہبی اور سیاسی رہنما اس نفرت کو ختم کرنے اور روہنگیا کے لئے ماحول کو بہتر بنانے کی بجائے تعصب اور نسلی منافرت کے جذبات کو اپنی مقبولیت کے لئے استعمال کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

روہنگیا مسلمان میانمار کے راکھین صوبے میں گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے آباد ہیں۔ موجودہ نسلوں کے آبا و اجداد انگریزوں کے دور میں محنت مزدوری کے لئے بنگلہ دیش سے یہاں لائے گئے تھے۔ اس کے بعد یہ لوگ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ روہنگیا بے حد غریب لوگ ہیں اور ماہی گیری یا معمولی کاشت کاری کے ذریعے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ لیکن میانمار کے لوگ اور حکومت ان سے یہ حق بھی چھین لینا چاہتی ہے۔ حکومت اور اکثریتی آبادی کا مشرکہ مقصد ہے کہ اس آبادی کو نہ صرف تمام بنیادی حقوق سے محروم کردیاجائے، ان کے لئے روزگار اور تعلیم و صحت کی سہولتیں واپس لے لی جائیں بلکہ انہیں اس قدر مجبور اور بے بس کردیا جائے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ملک چھوڑ کر روانہ ہوجانے پر مجبور ہو جائیں یا میانمار میں ہی گھٹ گھٹ کر مرجائیں اور ان کی نسل ختم ہو جائے۔ برما کی حکومت اور عوام کے ان ارادوں کے بارے میں دنیا بھر میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے لیکن کوئی ادارہ یا ملک اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے ٹھوس اقدام کرنے اور روہنگیا کی نسل کو بچانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہر تھوڑی مدت کے بعد جب میانمار کی فوج کوئی نیا ہتھکنڈہ اختیا رکرتی ہے یا روہنگیا پر کوئی نیا ظلم ڈھایا جاتا ہے تو عالمی سطح پر چند خبریں ضرور شائع ہوتی ہیں اور اقوام متحدہ یا اس کے ذیلی ادارے کا کوئی ترجمان صورت حال کی سنگینی کے بارے میں کوئی بیان جاری کر دیتا ہے۔ لیکن روہنگیا کی حفاظت اور ان کی بحالی کے لئے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آتا۔

روہنگیا آبادی کے لحاظ سے قلیل گروپ ہیں۔ اس کے باوجود نہ تو کوئی ملک انہیں قبول کرنے کے لئے آمادہ ہے اور نہ ہی ایسے مالی وسائل فراہم کئے جاتے ہیں کہ نجی تنظیمیں ان مجبور لوگوں کی آباد کاری اور بحالی کے لئے کوئی اقدام کرسکیں۔ میانمار میں انہیں شہری حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ نہ تو وہ پاسپورٹ حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں کسی دوسری قسم کی شناختی دستاویز فراہم کی جاتی ہیں۔ رنگون کی حکومت نہایت ڈھٹائی سے یہ کہتی ہے کہ یہ لوگ ہمارے شہری نہیں اور ہم پر ان کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ یہ بنگلہ دیش کے باشندے ہیں اور وہیں واپس جائیں۔ بنگلہ دیش ان لوگوں کو اپنا شہری ماننے سے صاف انکار کرتا ہے۔ اسی لئے بنگلہ دیشی حکومت کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ روہنگیا لوگوں کو اپنے ملک میں آنے سے روکا جائے۔ گرمیوں کے دوران جب مجبور روہنگیا ہاتھ کی بنی ہوئی کمزور اور ناقص کشتیوں کے ذریعے سمندری راستے سے پناہ کی تلاش میں نکلنے پر مجبور کئے جاتے ہیں تو بنگلہ دیش سے لے کر تھائی لینڈ اور ملائشیا تک کی حکومتیں اپنے ساحلی گارڈز کو انہیں واپس سمندر میں دھکیل دینے کا حکم دیتی ہیں۔ اس طرح درجنوں لوگ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یا انسانی اسمگلروں کو بھاری معاوضہ دے کر غیر قانونی طریقوں سے بنگلہ دیش یا تھائی لینڈ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں انہیں طویل عرصہ تک جنگلوں اور ویران علاقوں میں چھپ کر رہنا پڑتا ہے۔ غیر قانونی راستہ اختیار کرنے والے ان لوگوں کو میانمار سے نکلنے کے باوجود غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ انہیں متعلقہ ملکوں کے حکام یا عالمی اداروں کے زیر نگرانی کام کرنے والے کیمپوں میں رجسٹر نہیں کیا جاسکتا۔

پوری دنیا روہنگیا پر ہونے والے ان مظالم کا مشاہدہ کررہی ہے لیکن برس ہا برس سے عالمی ضمیر پر بوجھ بنے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام سامنے نہیں آ سکا۔ دنیا میں امن دیکھنے کی خواہش مند حکومتیں اور ممالک بھی اس بارے میں کوئی بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ نہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس طرح جب ایک چھوٹی سی اقلیت کو نسلی تعصب اور نفرت کا نشانہ بنایا جائے گا اور ان کے آبائی گھروں سے جبری بے دخل کرنے کی مسلسل ، پر تشدد اور منظم کوششیں کی جائیں گی تو اس کے نتیجہ میں انتہا پسندی کے جذبات پیدا ہونا اور بعض گروہوں کے لئے اس صورت حال کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے راکھین کے علاقے میں بعض عرب جہادیوں نے آراکان نجات دہندہ آرمی تشکیل دی ہے۔ یہ گروہ میانمار کی سیکورٹی فورسز کے خلاف مسلح جد و جہد کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں سیکورٹی فورس کے ایک دستے پر حملہ بھی کیا گیا تھا تاہم اس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ البتہ اس کے بعد سے سیکورٹی فورسز نے روہنگیا آبادیوں پر نئے مظالم کا سلسلہ شروع کردیا۔ چند روز میں تین ہزار کے لگ بھگ مکانات کو نذر آتش کیا گیا ہے، 400 لوگ ہلاک ہوئے ہیں اور ہزاروں بے گھر اور بے وطن، پناہ اور سہارے کی تلاش میں در بدر ہیں۔ لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔

سیکورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا کے دیہات اور مکانوں کو مسلح گروہ کے ارکان نے تباہ کیا اور آگ لگائی ہے لیکن بین الاقوامی تنظیم ہیومن واچ نے سیٹلائٹ تصویروں کے ذریعے اس جھوٹ کا پردہ چاک کردیا ہے۔ ماضی میں بھی عالمی ادارے میانمار حکومت اور سیکورٹی فورسز کے جھوٹ کو سامنے لاتے رہے ہیں تاہم میانمار کی پالیسی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ حکومت صحافیوں یا عالمی اداروں کے نمائیندوں کو راکھین جانے کی اجازت بھی نہیں دیتی جس کی وجہ سے اصل حقائق کبھی بھی منظر عام پر نہیں آسکتے۔ ان علاقوں سے فرار ہو کر جان بچانے والے مہاجرین کے ذریعے ہی راکھین کے حالات اور روہنگیا کی صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم عالمی ضمیر کی بے حسی اور مسلمان ملکوں کی لاتعلقی کی وجہ سے میانمار میں روہنگیا پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور اس کی روک تھام کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali