وسعت اللہ خان صاحب کے جواب میں (2)


اس مضمون میں کباڑیوں باپوں اور ماوں کا ذکر عجیب لگے تو یوں دیکھ لیں کہ اگر کسی قوم کے علما خود کو اس قدر بلند سنگھاسن پر بٹھا لیں اور اپنے علوم کو اتنا ادق اور دور از فہم بنالیں، کہ وہ ایک جداگانہ مخلوق بن کر رہ جائیں اور ان کے علوم ایک عجوبہ تو قوم کے کم تعلیم یافتہ افراد پہلے تو ان کو دیوتا جانیں گے اور پھر جب ان کی کوئی بات پلے نہ پڑے گی تو ان کا تمسخر اڑائیں گے۔ ایسے میں دولت مند حرفت پیشہ اور تجارت پیشہ لوگ گویا ایک ایسی ماں کا کردار ادا کرتے ہیں جو اپنی کوتاہیاں چھپانے کو اپنے بچوں کو ان کے باپ کے خلاف بھڑکاتی رہتی ہے۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کتابیں کباڑیوں کے پاس یا فٹ پاتھوں پر پہنچ جاتی ہیں گی۔ گویا کہ ایک ہی پلاٹ ہے جس پر کہ مخلتلف اوقات میں مختلف کہانیاں بنی جاتی ہیں اور بنی جاتی رہی ہیں اور شاید بنی جاتی رہیں گی۔

آخر میں مناسب لگتا ہے کہ وطن عزیز میں کتابوں کی پرانے علوم کی پرانی یادگاروں کی ناقدری کا بھی کچھ ذکر ہو جائے کہ اصل میں یہی موضوع تھا ہمارے ممدوح کا۔ اور کچھ ذکر ہوجائے علم کے ان خدائی خدمتگاروں کا کہ جن کی وجہ سے ہمارے قدیمی جواہرپارے، کچھ، بچ گئے۔ جہاں تک جواہر پاروں کی بات ہے انگریزوں کے ہندوستان آنے سے قبل ہمارے پاس وہی یا اس سے کچھ بہتر علمی ۔۔جواہرپارے ۔۔ تھے جن پر کہ سر فرانسس نے پھبتیاں کسی تھیں۔ ہمارے پاس جیومیٹری تھی، وہی اقلیدس والی اور ہم اس کے بڑے ماہر تھے۔ ہمارے ایک بزرگ تھے جو اندھے تھے پر ان کے پاس اقلیدس سے متعلق ہر مسئلے کا ۔۔۔۔معلوم۔۔۔ حل موجود تھا۔ پتا یوں چلتا تھا کہ سائل جا کر ان کی کمر پر اپنے مسئلے کی شکل بنا دیتا تھا اور وہ اس کا حل بتا دیتے تھے۔ بعد کے کسی زمانے میں یہی کام ہمارے دسویں جماعت کے لونڈے بھی کر سکتے تھے۔ گو کہ مسلمانوں نے انگریزوں کے ہندوستان آنے سے قبل کیلکولس وغیرہ پر بھی کام کیا تھا لیکن ہم تک اس کی بو بھی نہیں پہنچی تھی۔

اسی طرح منطق اور طب بھی ہماری یونانی تھی اور ہماری پرانی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ زیادہ تر مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں تھی اور اس میں ہم ید طولی رکھتے تھے۔ اور یونانی منطق ہمارے مذھبی مدرسوں میں اسی طرح پڑھائی جاتی تھی جس طرح کسی زمانے میں چرچوں میں پڑھائی جاتی تھی اور اس پر سوال اٹھانے والے کے ساتھ وہی بیتتی تھی جس طرح فرانسس بیکن کے نوجوان کے ساتھ بیتی۔ اب بھی بعض مذھبی حلقوں میں ارسطو کے بعض ذی حیات چیزوں کے نباتات سے بغیر ماں باپ کے پیدا ہونے والے بیانات کی بازگشت ملتی ہے۔

رہی بات ادبی جواہر پاروں کی سو اگر وہ انگریز لے گئے تو نقصان کیا ہوا؟ ہمارے ادیب دن رات کام کر رہے ہیں۔ یوں کوئی ہمیں بتائے کہ ہمارا ولی دکنی تک ہمارے پاس ہے تو گم کیا ہوا؟ اور اگر کوئی پرانی تحریریں انگریز کے پاس چلی گئیں تو کیا آفت آگئی؟ اور اگر وہ سب کچھ اٹھا کر لے گئے اورہمارے پاس کچھ نہ بچا تو قصور یا تو ان کا تھا جنہوں نے آپس کی ریشہ دوانیوں اور اپنی حماقتوں سے انگریز وں کو موقع دیا کہ وہ ہندوستان پر قبضہ کر کے ہماری میراث لوٹ لے جائیں یا انگریزوں کی جنہوں نے محمود غزنوی کی طرح مال ومتاع لوٹنے پر ہی بس نہ کی بلکہ ہماری متاؑع حیات، ہمارے علمی و ادبی شاہکار بھی لے اڑے۔ ہمارا کیا قصور؟

تفنن برطرف بات کچھ یوں لگتی ہے کہ ہم جیسے بھی لشٹم پشٹم چل رہے تھے ہماری اپنی ایک تہذیب تھی ہمارے پاس جو بھی فرسودہ علم تھا وہ ہمارا اپنا تھا بالکل اسی طرح جو کچھ عیسائی چرچوں کے پاس تھا وہ یورپیوں کی علمی میراث تھی۔ اور جس طرح بدلتی ہوا کے ساتھ یورپ کے چرچوں کو بدلنا پڑا اسی طرح ہم بھی بدل جاتے۔ لیکن ہوا یوں کہ انگریز بہادر نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور ہندوستان کو بھی امریکا یا آسٹریلیا بنانے پر کمر باندھ لی۔ اس کے لئے ان کو قبضہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہوئی اور قبضہ اسی صورت میں مضبوط ہوسکتا تھا کہ بہت سے ایسے ہندوستانی ہوں جو کہ انگریزوں کے اور عام ہندوستانیوں کے درمیان رابطے کے طور پر کام کریں۔ اس کے لئے ایک تو پادریوں کی فوج بلوائی گئی۔ اور دوسرے انگریزی کی اور ضروری علوم کی انگریزی میں تدریس کا انتظام ہوااور انگریزی علوم کے حصول کے ساتھ انگریزی لباس پہننے والوں پر عنایات کا چلن عام ہوا۔ جب یہ دیکھا کہ جن سواریوں، گھوڑوں، بہلیوں، پالکیوں وغیرہ، کا ہندوستان میں رواج تھا ان سے ان کے عزائم کی تکمیل نہ ہو پائے گی توریل گاڑی بھی لے آئے۔

 بنیادی طور پر انگریز ہمارے ہاں اپنا سامان بیچنے آئے تھے۔ اور ہماری صنعت اس سامان بیچنے کی راہ میں ایک روڑا تھی اسے رستے سے ہٹانے کی یہ ترکیب ہوئی کہ ایک طرف تو ہماری کھڈیوں پر آفت لائی گئی اور دوسری طرف مانچسٹر کا مشینوں کا بنا ہوا کپڑا لا کر ڈھیر کر دیا گیا۔ کچھ آفت ان کے پڑھائے ہوئے یا ان سے متاثر ادیبوں نے یوں ڈھائی کہ ان لوگوں پر پھبتیاں کسنا شروع کر دیں جو انگریزی “تہذیب” سے ناواقف تھے۔ اپنی دوائیں بیچنے کے لئے میڈیکل اسکول کھولے کہ ہمارے طبیب انگریزی دوا کا نسخہ لکھنے پر اپنا نسخہ لکھنے کو ترجیح دیتے تھے اور انگریزی دوا کا نسخہ لکھتے تو تب جب انگریزی زبان کی کوئی شدبود ہوتی۔ سو طبیبوں کے عطائی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور انگریزی دواؤں کی خوبی یہ گنوائی گئی کہ فورا آرام آجاتا ہے۔ جبکہ ہمارے حکیم ۔۔۔ بیماری کو جڑ سے اکھیڑنے۔۔۔ کا دعوی رکھتے تھے۔

 خیر تو جو گوروں سے ہوئی انہوں نے وہ کی اور وقت آنے پر جو ہم سے ہوا وہ ہم نے کیا او ر عین اس وقت آزادی کے لئے غوغا کیا جب جرمن انگریز کو چار چوٹ کی مار لگا رہے تھے۔ اور جب انگریز جنگ جیت کر کتے کی طرح کھڑا ہانپ رہا تھا ہم نے گویا آزادی اس سے چھین لی اور اس کے وہ خواب جو اس نے ہندوستان کو امریکا کینیڈا یا آسٹریلیا بنانے کے دیکھے تھے دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ چکنا چور ہو گئے۔

تو بھائی ہر کوئی اپنی سی کرتا ہے۔ اس لئے اپنی حالت پر کسی کو قصور وار ٹھہرانے کی بجائے اپنے گریبان میں منہ ڈال لینا چاہئے کبھی کبھار کہ ہم نے کیا کیا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ آزادی ملنے کے ستر سال کے بعد بھی اپنی موجودہ حالت کے خراب ہونے کے تعلق میں گوروں کا ذکر کرنا عجیب لگتا ہے۔ گو کہ میراث کے متعلق آپ کا یہ کہنا قطعی درست ہے کہ یہ مسلسل توجہ اور پیار مانگتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).