کیا ہمارا معاشرہ واقعی انصاف چاہتا ہے؟


پچھلے دنوں ٹویٹر پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک لڑکا اور لڑکی کورٹ کے احاطے سے باہر آ رہے تھے۔ لڑکی کے گھر والے اس کو کھینچ کر روکنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن لڑکی تیز قدموں سے چلتی جا رہی تھی۔ اسے کورٹ نے اپنے ‘شوہر’ کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ گھر والوں کا اصرار تھا کہ لڑکی کی عمر ابھی صرف چودہ برس تھی اور تعزیرات پاکستان کے تحت وہ ابھی شادی کی عمر کو نہیں پہنچی تھی۔ مگر جج صاحب نے نکاح کو درست قرار دے دیا۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ یہ واقعہ گزشتہ برس پیش آیا تھا۔ ذیل میں معروف وکیل یاسر لطیف ہمدانی کا ٹویٹ تھا کہ قانون اس شادی کی اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ Marriage Act 1929 کے تحت کوئی بھی لڑکا یا لڑکی والدین کی رضامندی کے بغیر اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی نہیں کر سکتا جبکہ والدین کی رضامندی کی صورت میں بھی یہ عمر کم از کم سولہ برس ہونا لازمی ہے۔ مگر قانون تو فیصلہ دے چکا تھا۔

2015 میں چھپنے والی عورت فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال قریب ایک ہزار لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا ہے۔ قومی کمیشن براۓ انصاف اور امن کے مطابق ان میں سے سات سو لڑکیاں مسیحی جب کہ باقی زیادہ تر ہندو مذہب سی تعلّق رکھتی ہیں۔ آپ اس حوالے سے کسی قانون دان یا وکیل سے بات کریں تو وہ آپ کو بتاۓ گا کہ یہ بالکل غیر قانونی اور قابل گرفت جرم ہے کہ کسی لڑکی کو زبردستی اغوا کر کے اس کو اسلام قبول کروا کر اس کی شادی کسی مسلمان مرد سے کر دی جاۓ۔ اس سلسلے میں 1929 کا ایکٹ تو ہے ہی، 1872 کا کرسچن ایکٹ بھی موجود ہے۔ مگر یہ معاملہ قانون یا عدالتوں کا ہے ہی نہیں۔ پاکستان میں عدالتیں بالکل ایسے ہی کام کرتی ہیں جیسے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں قانون کی عملداری نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ اوپر بیان کیا گیا واقعہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ قانون دہائیاں دیتا رہ گیا مگر جج صاحب نے سنی تو صرف اپنے دل کی۔ شاید اس کی وجہ جج صاحب کا اپنا موضوعی عقیدہ ہو۔

دراصل ہماری توجہ اپنے معاشرے پر ہونی چاہیے۔ معاشرہ اس سلسلے میں کیا کر رہا ہے؟ وہ جج یا وکلا جو ایسے جرائم میں مجرم کا ساتھ دیتے ہیں وہ بھی اسی معاشرے سے تعلّق رکھتے ہیں۔ اور جو جاگیردار زبردستی ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے ان سے اسلام قبول کروا کے ان سے شادیاں کرتے ہیں وہ بھی تو اسی معاشرے کی پیداوار ہیں۔ اور وہ تمام طاقتور لوگ جو عورتوں کی عزتیں لوٹتے ہیں، انہیں اغوا کرتے ہیں، اور کمسن لڑکیوں کو مسلمان کرتے ہیں یہیں ہمارے ارد گرد رہتے ہیں۔ اور وہ ملا جو اسلام قبول کرنے کے جھوٹے سرٹیفکیٹ بناتا ہے اور وہ رجسٹرار جو نکاح کو رجسٹر کرتا ہے اور دونوں جوانب بیٹھے وہ تمام افراد جو اس نکاح نامے پر بطور گواہ سائن کرتے ہیں، وہ کسی اور سیّارے سے تو نہیں آتے۔

اور وہ لوگ جو خود کو صحافی کہتے ہیں لیکن ایسی خبروں کو رپورٹ نہیں کرتے، یا وہ صحافتی ادارے جو ایسی خبروں کو روک لیتے ہیں یا وہ مالکان جو ملا کے خوف سے ان چیزوں میں ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہیں، یا وہ پولیس افسران جو پہلے تو ایف آئی آر کاٹنے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں اور اگر کاٹ دیں تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ معاملہ عدالت سے باہر ہی مک مکا کے ذریعے ختم ہو جاۓ اور مک مکا بھی ظالم کی منشا کے مطابق ہو، وہ سب لوگ اسی معاشرے کا حصّہ ہیں۔ اور پھر عام آدمی بھی تو ہے۔ جو حقیقت سے نظریں چرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ اس ملک میں کچھ غلط ہو رہا ہے۔ فیس بک کمنٹس میں، گلی کی نکڑ پر، تقریبات میں شرکت کے دوران کسی عزیز کی بیٹھک میں، پان کی دکان پر اور سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں، یہ عام آدمی ہی تو ہے جو مستقل حقائق سامنے لانے والوں کو سازشی قرار دیتا چلا جا رہا ہے۔

کیا یہ حیران کن نہیں؟ یہ عام آدمی ہر غلط بات پر حکومت کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ بجلی اس لئے نہیں آتی کہ حکومت کرپٹ ہے اور نااہل بھی۔ یہ ماننے کیلئے تیّار ہے کہ لاہور میں روزانہ بچے اغوا ہوتے ہیں۔ ملک میں قانون کی عملداری نہ ہونے کا بھی دکھ اسے کھاۓ جا رہا ہے اور یہ عدالتوں کو کبھی ایک جماعت کے حق میں اور کبھی دوسری جماعت کے حق میں گالیاں بھی دیتا نظر آتا ہے۔ مگر جب بات اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی ہو تو یہی آدمی یہ ماننے کیلئے تیّار نہیں کہ عدالتیں جانبدار ہیں، پولیس طاقتور کا ساتھ دیتی ہے، حکومت اس معاملے میں بلکل ناکارہ ہے اور علاقے کے بڑے غلط کا ساتھ دیتے ہیں۔

یہی اصل مسئلہ ہے۔ یہ بات قانون کی ہے ہی نہیں۔ کبھی بھی نہیں تھی۔ یہ ہماری اور آپ کی بات ہے۔ ہم، بطور معاشرہ، اقلیتوں کے خلاف جانبدار رویہ رکھتے ہیں۔ ہماری فلموں میں ہندو کو ہمیشہ ایک چالاک، عیار بنیا دکھایا جاتا ہے جو پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ ہمارا نصاب ہمیں جھوٹ بتاتا ہے کہ 1857 میں مسلمانوں نے ہندو اور انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی لڑی تھی۔ یہاں بغیر سیاق و سباق کے کہا جاتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ اس معاشرے سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ یہ معاشرہ بہت پہلے اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکا ہے۔ اس معاشرے اور اس کی عدالتوں اور منتخب نمائندوں سے کسی انقلابی سوچ کی امید رکھنا بیوقوفی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).