حقیقی سیاست اور عام کارکن


ہم سب زندگی کے وسائل ومسائل کی درمیانی خلیج کو کم کرنے میں جس قدر مگن ہوں مگر ہمارے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں کچھ نام مسلسل کسی نہ کسی بہانے سے دستک دیتے رہتے ہیں۔ ان اہم ناموں اور شخصیات کو ہمارا شعور اور لاشعور دونوں ہی کسی طور بھلانے کو آمادہ نہیں ہوتے، ان میں جہاں والدین، بیوی، بچے، شوہر، بہن بھائی اور عزیزواقارب نمایاں نظر آتے ہیں وہیں ان سب سے ہٹ کر کچھ ایسی ہستیاں بھی براجمان ہوتی ہیں جن سے تعلق صرف ہماری ذات تک محدود ہوتا ہے۔

اور ان سے دلی وابستگی اور والہانہ محبت کچھ الگ قسم کے نظریات کے گردگھومتی ہے۔
کسی کو اداکار سے محبت ہوتی ہے تو کوئی کسی کھلاڑی کا دیوانہ پایا جاتا ہے، کہیں کوئی کسی کے عشق و محبت میں ڈوب کر شاعری کرتانطر آتا ہے۔ بہرکیف ہمیں اس طرح کے بے شمار نام دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جن کی سحر انگیز شخصیت لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا دیتی ہے۔ ان پراثر شخصیات میں سیاسی لیڈر بھی کسی طور کم نظر نہیں آتے۔

دنیا کے ہر پل بدلتے حالات و واقعات پہ کسی حد تک سیاست اور سیاسی قائدین کا عمل دخل بھی واضح محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبا ہر عمر اور طبقہ سے منسلک لوگ اپنے تئیں کسی نہ کسی سیاسی شخصیت کو پسند کرتے ہیں اور چونکہ نوجوان اپنی عمر کے لحاظ سے جذباتی واقع ہوتے ہیں تو یوں یہ طبقہ اپنے لیڈر سے بے لوث اور بے پناہ محبت میں بہت آگے تک چلاجاتا ہے۔ جہاں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اور اپنا نفع نقصان پس پشت ڈالے کر صرف اور صرف اپنے لیڈر کی بات کو حرف آخر ماننا اور ہر حکم پہ سر تسلیم خم کرنا ہی فرض اولین سمجھا جاتا ہے۔

یہی حال پاکستانی سیاست کا بھی ہے۔ یہاں بھی لوگ اپنے قائد سے اندھی محبت میں کسی سے کم نظر آنے کو تیار نہیں۔ چونکہ آج کل ملکی سیاسی ماحول گرما گرم ہے اور کچھ نشستوں پہ ضمنی الیکشن کا بھی دور دورہ ہے تو سیاسی جماعتیں  مختلف قسم کی میٹنگز اور ملاقاتوں میں مصروف عمل ہیں۔ اپنے اپنے کارکنوں کا خون گرمایا جا رہا ہے۔ ترانے بنائے جارہے ہیں اور لوگوں میں ولولہ اور جوش بڑھانے کے نت نئے طریقے اختیارکیے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ الیکشن کے دن سے پہلے تھمنے والا نہیں۔

میرا بھی ان میں سے کچھ میٹنگز میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کافی لوگوں سے سلام دعا اور ملنا ملانا رہا۔ آنے والے تمام  کارکن اپنے لیڈر سے محبت اور جذبات  کا دیوانہ وار اظہار کرتے نظر آئے۔ سب نے مختلف طریقوں سے قائدین کے ساتھ اپنے خلوص وفاداری کو ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ کوئی نعرے لگاتا ملا تو کوئی تصویر بنانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا نظر آیا، کسی نے کوئی تحفہ دیا تو کسی کو صرف دھکم پیل ہی نصیب ہوئی۔

یہ سب عام کارکن تھے مگر کچھ خواص لوگ بھی ملے جو قائد کے ساتھ بیٹھے، باتیں کیں، بڑے سکون و اطمینان سے تصویریں بنوائیں، کھانا کھایا اور آخر پہ اپنے اپنے گھر کو روانہ ہوئے۔ ان خاص ترین لوگوں کیطرف سے پارٹی کے ساتھ اپنی ”بے غرض و بے لوث“ وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے مختلف حوالے اور طریقے دیکھنے کو ملے۔ کسی کے پاس لیڈر کی تصویر تھی تو کسی نے کہا کہ میں آپ کے فلاں جلسہ میں بھی شامل ہوا تھا، کسی کے پاس قائد کے ساتھ بنوائی گئی تصویر تھی تو کوئی تحفہ دے کے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا تھا۔ میں ذرا دور کھڑا یہ سب دیکھتا رہا تو نہ جانے کیوں ذہن میں کچھ سوال سر اٹھانے لگ گئے۔ کیا پارٹی سے وفا کا مطلب ”چائے کی میز پہ اپنے لیڈر کےساتھ ایک خوشگوار موڈ میں تصویر“ بنوانا ہوتا ہے؟
یا ایک تحفہ کئی سال سے پارٹی کا قدم قدم پہ دفاع کرنے والے کارکن کو بہت پیچھے دھکیل سکتا ہے؟
مجھ سمیت کئی گھنٹوں سے باہر دھوپ میں کھڑے پسینے سے شرابور کارکن ان خواص لوگوں کی طرح اپنے لیڈر کے ساتھ بیٹھے کے لیے مزید کتنے سال انتظار کریں گے؟

پھر ذہن میں اپنا ماضی وحال گھومنے لگ گیا کہ آج سے 20 سال پہلے جہاں تھا آج بھی وہیں ہوں اور آج بھی اسی طرح باہر عام کارکن کی مانند اپنے قائد کا انتظار کر رہا ہوں۔ بیس سال پہلے بھی میں اپنے لیڈر کا دیوانہ تھا اور آج بھی لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔ آج سے 18 سال پہلے جب پارٹی پہ مشکل وقت آیا تو تب بھی پیچھے نہیں ہٹا تھا اور آج بھی اپنی جماعت سے وفا پہ قائم ہوں اور آنے والا کل بھی میری پارٹی کے ساتھ وابستگی کو متزلزل نہیں کر سکتا۔

مگر مجھے کیا ملا اور میں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
پارٹی کے لیے ہرقسم کی قربانی کےلیے تیار رہنے کے باوجود میں آج تک اپنے قائد کے ساتھ ملاقات نہ کر سکا۔ اور جس طرح میرے سامنے بیٹھے چند خواص اے سی روم میں بیٹھے اپنے لیڈر کےساتھ خوش گوار باتوں میں مصروف ہیں۔ میرے لیے یہ بات حسرت سے آگے نہ بڑھ سکی۔

یہاں یہ بات زیادہ حیران کن ہے کہ ان میں سے کوئی ایک چہرہ بھی تب نہ تھا جب آج سے 18 سال پہلے اسی سیاسی جماعت پہ شدید مشکل وقت گزرا۔ مگر مجھ سمیت باہر کھڑے ہزاروں کارکنوں میں سے سینکڑوں چہرے تب سے اب تک پارٹی سے وابستہ ہیں۔ یہ عام کارکن تب بھی باہر کھڑے ہوتے تھے اور آج بھی تپتا سورج ان کے سر پہ ہے۔ تب بھی ان لوگوں نے مار کھائی، پابند سلاسل ہوئے اور آج بھی یہ لوگ اس سب کے لیے تیار ہیں۔ مگر افسوس ان کو نہ تب قائد نے اپنے پاس بٹھا کے دو باتیں کرنا گوارا کیا اور نہ آج ان کی ایسی قسمت ہے۔ ان کا مقدر صرف دھوپ پہ کھڑے ہوکے نعرے لگانا اور ماریں کھانا ہے کیونکہ ان کا جرم اپنی جماعت سے بغیر لالچ کی بے انتہا محبت ہے۔

یہ حقیقی مخلص طبقہ کے نعرے مارتے لوگ بھی اندر جا سکتے تھے اگر انہوں نے بھی کسی طوطے کی مانند ”سب اچھا ہے“ کی رٹ لگائے رکھی ہوتی اور صرف خوشامدانہ اور چاپلوسانہ باتوں کے فن سے مالا مال ہوتے یا ان کے دو چار جاننے والے ہوتے۔ مگر چونکہ یہ اس قدر مخلص ہیں کہ پارٹی پہ مثبت تنقید بھی کر گزرتے ہیں جس کا حقیقی مقصد پارٹی کی بہتری ہوتا ہے اور جس مڈل کلاس سے یہ عام کارکن ہوتے ہیں اس کلاس سے شاذ و نادر ہی کوئی اچھے عہدے پہ فائز ہوتا ہے۔ اس لیے ان کا علاج ہی یہی ہے کہ یہ باہر ہی کھڑے رہیں۔

یہاں یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ یہ باہر کھڑے کارکن قائد کے گھر کے اندر تو نہیں جا سکتے مگر جب مشکل وقت ہوتا ہے تو جیل کے اندر ضرور جاتے ہیں۔ اس وقت اپنے لیڈر کے ساتھ بیٹھے وہ چند لوگ جن کو پارٹی میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں وہ بھی ضرور باہر نکلیں گے مگر جب پارٹی کے خلاف کوئی ادارہ حرکت میں آئے گا تو یہ لوگ ضرور ملک سے باہر نکلیں گے۔

شاید یہی سیاست ہے جو آج تک نہ عام کارکن کو سمجھ آئی اور نہ ہی سیاسی جماعت کے قائدین کو۔ اگر سمجھ آئی ہے تو اس خوشامدی ٹولہ کو سمجھ آئی ہے کہ سیاست کسے کہتے ہیں۔ کیسے مشکل وقت میں ساتھ چھوڑنا ہوتا ہے۔ کیسے اچھا وقت آنے پہ دوبارہ لیڈر کی محبت اور اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس فن سے بخوبی واقف ہیں اور یہی فن ”حقیقی سیاست“ کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ سیاسی قائدین بھی آج تک یہ ”حقیقی سیاست“ نہ سمجھ سکے جو یہ ”سب اچھا ہے“ کہنے والی مخلوق سمجھ چکی ہے۔
شاید یہ حقیقی سیاستدان ہیں۔ جنہوں نے عام کارکن کو پیچھے دھکیل رکھا ہے اور لیڈران کو اپنی وقتی وفا کا یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).