روہنگیا: میرے دکھ کی دوا کرے کوئی


دی ٹرمینل فلم آپ نے دیکھی ہوگی۔ وکٹر نورسکی کرکوزیا سے نیویارک کے لیے محو پروازہوتا ہے۔ جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر اترکر اس کو علم ہوتا ہے کہ پیچھے کرکوزیا میں جنگ چھڑچکی ہے۔ حالات چند گھنٹوں میں کچھ سے کچھ ہوگئے ہیں۔ کرکوزیا نے امریکا کے لیے جاری ہونے والے ویزے معطل کردیے ہیں۔ امریکہ کے لیے کرکوزیا کا پاسپورٹ یا کوئی بھی شناختی دستاویز ناقابل قبول ہوچکی ہے۔ کیونکہ امریکا کے لیے اب کرکوزیا نام کا کوئی ملک ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔ اصول پرست سکیورٹی انچارج فرینک ڈکسن جان کو ہٹلر بناہوا ہے۔ وکٹر نورسکی آگے بڑھتا ہے تو فرینک یہ جاننے سے معذور ہوتا ہے کہ وہ کس ملک سے آرہا ہے۔ وکٹر واپس ہونا چاہتا ہے تو فرینک یہ جاننے سے معذور ہوجاتاہے کہ وہ کس ملک کی طرف جارہا ہے۔ چانچہ طے ہوا کہ وکٹرنورسکی کی اب یہ دنیا نہ وہ دنیا۔ اسے ائیرپورٹ میں ہی رہنا ہوگا۔ تب تک کہ جب تک کرکوزیا اور امریکا کے بیچ سفارتی تعلقات معمول پر نہ آجائیں۔ مدتوں وکٹر نے کسی لاوارث پرزے کی طرح ائیرپورٹ میں ہی کار روزگار کیا اور کسی بھی طرح گزربسر کیا۔

برما کے صوبے اراکان کی روہنگیا آبادی کا معاملہ وکٹر نورسکی جیسا ہے۔ سچ پوچھیے تو معاملہ وکٹر نورسکی سے زیادہ سنگین ہے۔ ارکان میانمار کا ہی صوبہ ہے مگر وہ ریاست کے لیے کرکوزیا بن چکا ہے۔ ریاست کا دعوی یہ ہے کہ روہنگیا کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے جو غیرقانونی طور پر میانمار میں آکر آباد ہوگئے ہیں۔ بنگلہ دیش انہیں پہچاننے سے انکار کررہا ہے۔ وہ آگے بڑھیں تو میانمار ان سے پوچھتا ہے کہا ں سے آرہے ہو میاں۔ پیچھے کو لوٹنا چاہیں تو میانمارپکڑکے پوچھتا ہے کہ کہاں جارہے ہوبھیا۔ کیونکہ میانمار کے روہنگیا شہری کے پاس کوئی بھی شناختی دستاویز نہیں ہے۔ وہ پاسپورٹ نہیں بنواسکتے۔ یعنی میانمار انہیں شہری قبول نہیں کرتا۔ میانمارچاہتا ہے کہ یہ لوگ ملک چھوڑدیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہیں یہاں رہنے کا حق بھی نہیں ہے اور کہیں جانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔

کرکوزیا کے وکٹر کو ائیرپورٹ پر رہنے کا حق دیا گیا، روہنگیا تو وہ حق بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ شناختی کارڈ کیوں نہیں بنوا سکتے؟ ان کے شناختی کارڈ بن گئے تو اس کا مطلب ہوگا کہ میانمار کی طرف سے انہیں شہری تسلیم کرلیا گیا ہے۔ شناختی کارڈ نہ بناؤ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کون ہیں پھر؟ اس سوال کا جواب عالمی برادری کے پاس ہے اور نہ برما بنگلہ دیش اور چین کے پاس۔ اس بات کی فکر کسی کو نہیں کہ پون صدی سے ریاستی رد وکد کے نتیجے میں کچھ انسان جو لاوارث ہوچکے ہیں ان کا مقدمہ کون لڑے گا۔ یہ کیسا ستم ہے کہ ایک انسان سے جینے کا حق چھین لیا جائے اورپھر مرنے کی اجازت نہ دی جائے؟ میانمار انہیں مانتا نہیں۔ بنگلہ دیش انہیں جانتا نہیں۔ اقوام متحدہ اسے داخلی معاملہ قرار دے کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ زمانے گزرگئے۔ منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟

انہیں اب وارث ملے ہیں تو مذہبی دائروں سے ملے ہیں۔ یہ کچھ غلط بھی تو نہیں ہے۔ برما کی حکومت نے بدھ بھکشووں کو بنامِ خدا روہنگیا پر چھوڑ رکھا ہے۔ جب ریاست اپنے حصے کے معاملات اہل مذہب کو سونپ دیتی ہے تو پھر وہ ان معاملات کا تصفیہ اپنے طریقوں سے کرتے ہیں۔ چنانچہ اراکان کے اطراف میں اور خود اراکان میں بسنے والے مذہبی انتہا پسند کبھی مساجد پرچڑھائی کردیتے ہیں کبھی عید الاضحی کی سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ بدھ بھکشووں کو یوں آزاد چھوڑنے کا سبب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کے ایک انٹرویو میں موجود ہے جو انہوں نے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو دیا۔ انہوں نے کہا ”روہنگیا تنازعے کا ایک ہی حل ہے یا تو انہیں ملک بدر کردیا جائے یا پھر مہاجر کیمپوں میں منتقل کردیا جائے“۔ انتہا پسند بھکشووں کو آزاد چھوڑے رکھنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ وہ روہنگیا وں پر عرصہ حیات تنگ کرسکیں۔ اتنا تنگ کہ یا تو یہ سرزمین چھوڑدیں یا پھر یہیں گھٹ کر مرجائیں۔ آنگ سوچی بھی مایوس کردے تو پھر کس سے توقع لگائیے؟

مسلسل غفلت کی سبب اراکان کے اس مسئلے نے گھمبیر ہونا ہی تھا، سو اس کا آغاز ہوچکا۔ مگر اب بھی وقت ہے کہ حضرتِ انسان کی حرمت کی خاطر پھونک پھونک کرقدم رکھا جائے۔ 2012 کے فسادات کے نتیجے میں معاملے نے زیادہ مذہبی رنگ پکڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی بدھسٹ انتہا پسندوں گروہ نے دس مسلمان مبلغوں کو بس سے اتار کر قتل کیا۔ فسادات پھوٹے تو مذہبی رنگ اس میں غالب تھا۔ مذہبی رنگ گہرا ہوجائے تو سرخ ہوجاتا ہے۔ عطا اللہ نامی ایک روہنگیا مسلم نے مسلح تنظیم حرکۃ الیقین کی بنیاد رکھی۔ عطا اللہ کا خاندان اراکان سے براستہ بنگلہ دیش پاکستان آیا تھا۔ کراچی کچھ عرصہ رہنے کے بعد اس کا گھرانہ سعودیہ منتقل ہوگیا۔ عطا اللہ کچھ عرصہ بعد لوٹ آیا۔ اس کی تعلیم دینی تعلیمی ادارے میں ہوئی ہے۔ دوہزار بارہ کے فسادات کے بعد وہ واپس اراکان گیا اور مسلح تنظیم کی بنیاد رکھی۔ دوبرس تنظیم سازی میں لگا رہا۔

اس تنظیم کے تحت 9 اکتوبر 2016 کو میانمار پولیس پر پہلا حملہ ہوا جس میں نو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ حرکۃ الیقین نے باقاعدہ ذمہ داری قبول کرلی۔ برسلز کے انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے اس حملے کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں دعوی کیا گیا کہ حرکۃ الیقین کا تعلق پاکستان اور سعودیہ میں موجود انتہا پسند گروہوں سے ہے۔ یہ بات چونکہ حقیقت سے خالی نہیں ہے اس لیے میانمار حکومت کے ہاتھ ایک بڑا جواز آگیا۔ اب آپ روہنگیا مسلم آبادی پر ہونے والے تشددپر سوال اٹھائیے تو جواب آتا ہے کہ میانمار حکومت اراکان میں صرف مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ ریاستی ایما پرانتہا پسند بدھسٹوں کی جانب سے ہونے والی پرتشدد کاررائیوں سے لاعلمی کا اظہار کردیا جاتا ہے۔

مشکل پر غور کیجیے۔ پہلی مشکل یہ ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر موجود مذہبی آوازوں نے اس معاملے کو کفراوراسلام کی جنگ بنا دیا۔ ہونا بھی یہی تھا۔ واقعات اور حادثات اس کا جواز بھی مہیا کررہے ہیں۔ پھر انہی مذہبی گروہوں کی طرف سے چلائی جانے والی مہم کے نتیجے میں معاملے کی سنگینی دم توڑ گئی۔ کیونکہ اراکان کے معاملے کو ہوا دینے کے لیے انہوں نے جعلی تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کیا۔ ساوتھ انڈین اور تامل فلموں کے بے شمار سین تک بھی اراکان میں ہونے والے مظالم قرارپائے۔ لاہور کے ایک عالم دین نے کہا، برما کے بدھسٹ ناشتے میں مسلم خواتین کے پستان کھاتے ہیں۔ اب اس کے بعد کوئی اراکان کے مسئلے کو توجہ کیونکر دے گا؟ یہیں سے دوسری مشکل نے جنم لیا۔ جعلی وڈیوز تصاویر اور خبروں نے جن لوگوں کے یقین کو متاثر کیا انہوں نے دو منطقی مفروضوں پر یقین کرلیا۔ پہلا یہ کہ اراکان میں ہونے والے فسادات حرکۃ الیقین جیسے مسلح گروہوں کی سرگرمیوں کا رد عمل ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ فسادات بامیان میں طالبان کی طرف سے بدھا کے مجسموں کو ڈھانے کا ردعمل ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اراکان میں مسلح سرگرمیاں 2012 کے بعد شروع ہوئیں اور بامیان میں ایستادہ بدھا کے مجسمے مارچ 2001 میں مسمار کیے گئے۔ جبکہ اراکان میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے نتیجے میں روہنگیا مہاجرین کا پہلا قافلہ ساٹھ کی دہائی میں گرتا پڑتا کراچی پہنچاتھا۔ کراچی میں اس وقت برمیوں کی آبادی ساڑھے تین لاکھ سے متجاوز ہے۔ کورنگی میں برما کالونی کے نام سے پوری بستی آباد ہے۔ ابراہیم حیدری، کورنگی سو کوارٹر، موسی لین اورنگی ٹاون میں یہ بسے ہوئے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی تعداد سقوط ڈھاکہ کے فوری بعد یہاں منتقل ہوئی۔ آخری باقاعدہ قافلہ اسی کے وسط میں آیا تھا۔ اسی عرصے میں بڑی تعداد میں روہنگیا سعودیہ تھائی لینڈ جرمنی اور برطانیہ پہنچے۔ کچھ بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں پر آباد ہوگئے۔ جو سعودیہ گئے ان پر شاہ فہد مہربان رہے۔ ان پر روزگار اور کاروبار کے مواقع ارزاں کیے گئے۔ دیکھا دیکھی امارات نے بھی کچھ مرحبا کہا۔ سعودیہ اور امارات میں رہنے والے برمی کاروبار سے منسلک ہوگئے۔

کراچی آنے والے برمیوں پر فقط اتنی مہربانی ہوئی کہ کورنگی میں ان کے لیے کیمپ بسا لیے گئے۔ غیر تحریری طور پر ان سے کہا گیا کہ اپنا مقام آپ پیدا کرو اگر زندوں میں ہو۔ ان میں سے وہ لوگ جو سقوط ڈھاکہ کے بعد آئے تھے انہیں کچھ قانونی دستاویزات دی گئیں، مگر ان دستاویزات کے حصول کے لیے انہوں نے خود کو بنگالی ظاہر کیا۔ آج بھی تمام برمی خودکو بنگالی کہلواتے ہیں تاکہ وہ قانونی پیچیدگیوں سے محفوظ رہیں۔ کراچی میں اب برمی اور بنگلہ زبان سے ایک نئی زبان نے جنم لے لیا ہے۔ اس سے برمیوں کو فائدہ ہوا۔ آپ کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہو، وسائل و ذرائع میسر نہ ہوں اور کیمپوں میں پڑے ہوں تو زندہ رہنے کے لیےکچھ بھی کریں گے۔ روہنگیا مہاجرین مدارس کی طرف نکل گئے اور سیاسی طور پر سپاہ صحابہ سے وابستہ ہوگئے۔ مدارس کیمپ سے بہتر تھے اور سپاہ صحابہ ڈوبتے کو تنکا کا سہارا تھا۔ حرکۃ المجاہدین اور جیش محمد کو بہت سے معروف رجال کار یہاں سے میسر آئے۔ ٹی ٹی پی کے ایک اہم کمانڈر یہیں سے نکلے تھے۔ القاعدہ کے شکیل برمی اور ٹی ٹی پی کے ابوذر یہیں کی پیداوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اراکان کو حرکۃ الیقین نامی جہادی نیٹ ورک بھی یہیں سے میسر آیا۔

اس پورے منظرنامے میں انٹرنیشنل کرائسز گروپ کا یہ دعوی بے جا نہیں ہے کہ حرکۃ الیقین کی جڑیں پاکستان کی انتہاپسند تنظیموں میں موجود ہیں۔ یہ تجزیہ البتہ بے جا ہے کہ اسی تنظیم یا ایسی کسی بھی تنظیم کی سرگرمیاں بدھسٹوں میں رد عمل پیدا کررہی ہیں۔ بامیان میں مجسمے ڈھائے گئے تو اس کا ردعمل یقینا اراکان میں ظاہر ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میانمار حکومت پر کئی حلقوں کی طرف سے یہ دباؤ بڑھ گیا تھا کہ رنگون سے ریخائن تک تمام مساجد پر پابندی عائد کردی جائے۔ اسی دوران اراکان کی کئی مساجد نذر آتش کی گئی تھیں اور اسی سال عیدالاضحی کے موقع پر حکومت کی طرف سے قربانی پر پابندی عائد کی گئی۔ مگریہ سارا رد عمل روہنگیا تنازعے کی بنیاد نہیں تھا۔ یہ وقتی حادثہ تھا جو مجموعی تناظر کا ایک ضمنی حصہ تھا۔

پس چہ باید کرد؟ عالمی ادارے اس موقع پر سچ تو کہہ رہے ہیں مگر میانمار حکومت پر مظالم روکنے کے لیے دباونہیں ڈال رہے۔ جو سچ کہے جارہے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی یا مقامی میڈیا کو اراکان تک رسائی نہیں دی جارہی۔ یہ تو ہوگیا عذر۔ اب سوال یہ ہے کہ میڈیا کو وہاں تک رسائی دلوانا کس کی ذمہ داری ہے۔ شائع ہونے والی رپورٹیں اتنی مبہم ہیں کہ ٹھیک صورت حال کا ندازہ کوئی نہیں کرپا رہا۔ آزاد ذرائع سے آنے والی رپورٹیں اس قدر مبالغہ انگیز ہیں کہ اصل حقیقت کا یقین کرنا بھی مشکل ہوتا جارہاہے۔ لوگوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہوگیا ہے مگر یہ سچ ہے کہ تشدد کی ایک ایک لہر میں اسی اسی ہزار افراد نے نقل مکانی کی ہے۔ نقل مکانی کرتے ہوئے بڑی تعداد لاپتہ ہو چکی ہے۔

ظاہر بشر ہمارے دوست ہیں۔ ایک قابل استاد اور ذہین ریسرچرہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں اس کے بزرگ کراچی آئے تھے۔ رات اس سے بات ہوئی تو طبعیت بجھی ہوئی تھی۔ کہنے لگا یار! والدہ کی کزن بچوں کو لے کر ایک قافلے کے ساتھ بنگلہ دیش نکلی ہیں، دوچار لوگ پہنچ گئے باقی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ اب جبکہ مسلح تنظیمیں ملوث ہوچکیں اور معاملہ سیاسی رہنے کے بجائے مذہبی ہوچکا تو اقوام متحدہ پر ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ اب کسی بھی قسم کا عذر اس کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ وہ بس ایک عذر ہے اقوام متحدہ کو پہلے فیز میں تشدد رکوانے کے لیے میانمار حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ پھر اپنی ہی نگرانی میں ایک کمیٹی قائم کرکے میانمار بنگلہ دیش چین اور پاکستان کو ایک میز پر بٹھانا ہوگا۔ یہ طے کرنا ہوگا کہ اٹھارویں صدی کی کسی خطا کا خمیازہ بھگتنے والے اکیسویں صدی کے لاکھوں لہو لہو انسانوں کا اسٹیٹس کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).