انصاف کا ترازو


جب ستر کے انتخابات ہوئے اس وقت ہمارا گھرانہ کراچی کے معروف و گنجان علاقے ناظم آباد میں مقیم تھا۔ ناظم آباد سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے معروف ہے۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی اس حلقے میں نمایاں سیاسی اثر و رسوخ رکھتی تھی۔ یعنی انتخابی ووٹ اور قربانی کی کھال جماعت اسلامی کو ہی دی جاتی تھی۔ بچپنے کا دور تھا لیکن خوب یاد ہے کہ محمود اعظم فاروقی مرحوم بھاری اکثریت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کا انتخابی نشان اس وقت بھی ترازو تھا اور جماعت اسلامی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ غبارے بیچنے والے انتخابی دنوں میں پلاسٹک کا چھوٹا سا ترازو فروخت کیا کرتے تھے۔ میرا محبوب مشغلہ تھا کہ بجری کہ ڈھیر پر بیٹھ کر ترازو کے دونوں پلڑوں میں کنکریاں ڈال کر توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اور بار بار یہ عمل دہراتا تھا۔

شاید اسی وجہ سے عمر عزیز کے اس حصے میں یہ عادت اتنی مستحکم ہوچکی ہے کہ کسی بھی معاملے میں عدم توازن برداشت نہیں ہوتا۔ 1977ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی، پاکستان قومی اتحاد کا حصہ تھی اس لیے انتخابی نشان ترازو سے دستبردار ہونا پڑا۔ یہ انتخاب بھی محمود اعظم فاروقی مرحوم ہی جیتے اور حکیم سعید مرحوم کو شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ یہ لڑکپن کا دورتھا بس یادیں ہی رہ گئیں ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کا نعرہ لگاکر پاکستان قومی اتحاد نے نومنتخب حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک بنام نظام مصطفی چلائی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آمر مطلق جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا اور قوم کو پہلے احتساب پھر انتخاب اور اسلامی نظام کے لارے لپے دیے۔ حسب معمول معزول وزیراعظم کے خلاف ہی احتساب ہوا اورقتل کے ایک مقدمے میں نومنتخب وزیراعظم کو پھانسی دے دی گئی۔ آمر مطلق اور خودساختہ امیرالمومنین نے سابق منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد، امریکی مفادات کے لیے افغانستان میں لڑی جانے والی افغان جنگ کو جہاد کا نام دے کر قوم کوکلاشنکوف اور ہیروئین کلچر کا تحفہ دیا۔ نہ احتساب ہونا تھا، نہ ہوا۔ نہ انصاف ہونا تھا، نہ ہوا۔ نہ نظام مصطفی قائم ہونا تھا، نہ ہوا۔ عوام خود ساختہ امیر المومنین اور انصاف کے ترازو کا منہ تکتے رہ گئے۔

اس وقت بھی وطن عزیز کے عمومی، اندرونی و بیرونی داخلی و سیاسی حالات عدم توازن اور بحران کا شکار ہیں۔ ہر طبقے اور ادارے میں کسی نہ کسی درجے میں بدعنوانی موجود ہے اور اب تو اس کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اپنا حق سمجھ کر ہر کوئی بدعنوانی پر آمادہ ہے۔ رشوت، جھوٹ، اشیائے صرف اور خورد و نوش میں ملاوٹ اور دھوکہ عام ہے۔ عوام تھانے اور عدالتی نظام کی ستم ظریفی کا شکار ہیں۔ انصاف کے متقاضی ہیں لیکن انصاف کیسے ملے گا، اس سے ناواقف ہیں۔ موجودہ حالات کے ذمے دارجہاں آمر، سیای شعور و اصولوں سے نا بلد اور بدعنوان حکمراں و سیاست داں ہیں۔ وہیں موجودہ حالات کی بڑی وجوہ افغان جنگ اور 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات بھی ہیں۔ غیر جماعتی انتخاب کے نتیجے میں منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی دراصل کسی بھی ضابطہ اخلاق کے پابند نہیں تھے اس لیے سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں آزاد تھے۔ ان کی اس آزادی کا سیاسی بازی گروں نے خوب فائدہ اٹھایا اوریوں پارلیمانی سیاست میں جہاں چمک کا باقاعدہ آغاز ہوا وہیں منحرف اراکین اسمبلی کے لیے لوٹے جیسی اصطلاح زبان زد عام ہوگئی۔

1988 ء تا 1996 ء تک انتخابات کے نتیجے میں میں قائم ہونے والی لولی لنگڑی جمہوریتیں جہاں سیاسی نابلوغت کا نمونہ تھیں وہیں حکمراں حکومتی امور چلانے میں آزاد نہیں تھے۔ 58۔ 2B کا استعمال کرتے ہوئے تین منتخب حکومتوں کو بد عنوانی کا الزام لگا کر برخاست کیا گیا اور اکتوبر 1999ء میں پاکستان کی تاریخ میں ایک اور مارشل لاء لکھ دیا گیا۔ اس صورتحال میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترم نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا۔ موجودہ سیاسی حالات میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر میثاق جمہوریت پر عمل نہ کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔ یعنی دونوں جماعتیں معترف ہیں کہ میثاق جمہوریت ناکام ہوگیا۔ ایک طالب علم ہونے کے ناتے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی میثاق جمہوریت کی ناکامی کی وجوہ میں ایک وجہ ہے۔

میثاق جمہوریت پر عمل نہ ہونے کا نقصان جہاں دونوں سیاسی جماعتوں نے اٹھایا وہیں عوام بھی جمہوریت کے ثمرا ت سے محروم ہیں اور قومی اداروں کے درمیان جاری چپقلش سے نالاں ہیں۔ لڑکپن کے دور میں بھارتی فلم ’انصاف کا ترازو‘ کا بڑا چرچا سنا تھا لیکن ماضی میں فلم کے بارے میں نامناسب آراء، تجزیے اور بزرگوں کے ڈر سے ’انصاف کا ترازو‘ دیکھنے کی ہمت مجتمع نہیں کرپائے اور مستقبل قریب میں انصاف کا ترازو دیکھنے کی کوئی دوسری صورت نظر نہیں آتی۔ اس لیے آج فیصلہ کیا ہے کہ بچپن سے انصاف کا ترازو دیکھنے کا جوسپنا آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔ بھارتی فلم ’انصاف کا ترازو‘ دیکھ کر پورا کرلیا جائے۔ تاکہ ہم بھی دعوی کرسکیں کہ ہم نے جیتی جاگتی آنکھوں سے انصاف کا ترازو دیکھ لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).