خدا کے گھروں پہ انسانوں کے بنائے تالے


ممبئی میں طوفانی بارشوں سے ہونے والی ممکنہ تباہیوں کے تناظر میں ایک اعلان کیا گیا۔ تمام ایسے افراد جو بارش کی وجہ سے کہیں بھی راستے میں پھنسے ہوں اور اپنے گھر نہ پہنچ پا رہے ہوں وہ نزدیکی کسی بھی گردوارے (سکھوں کی عبادت گاہ) میں پناہ لے سکتے ہیں اور بغیر کسی بھی مذہبی تفریق کے وہاں رات گزار سکتے ہیں۔ ایسا بہت سے مغربی ممالک میں بھی ہوتا پے۔ جب کسی طوفان کی آمد ہو یا برفباری کے باعث راستے بند ہو جائیں تو لوگ سڑک فٹ پاتھ پر ٹھنڈ میں سکڑنے کے بجائے گرجا گھروں میں پناہ لیتے ہیں۔ ہر مذہب میں ہی عبادت گاہوں کو ’خدا کا گھر‘ کہہ کر مقدس کا درجہ دیا جاتا ہے۔ خدا اپنے بندوں میں نعمتیں بانٹتے وقت مذہب کی تفریق نہیں کرتا کہ یہ فلاں مذہب کا ہے تو اسے آکسیجن کم ملے گی یا یہ فلاں فرقے کا ہے اسے آکسیجن زیادہ ملے گی۔ نعمتوں کی تقسیم میں نا انصافی ہمیشہ انسان کی طرف سے کی جاتی ہے۔ انسان انسان پہ رزق کی تنگی لانا چاہتاپے تاکہ دو انسان برابر نہ ہو پائیں۔ ایک مالک رہے دوسرا نوکر۔ ایک صاحب رہے دوسرا ملازم۔ ایک سائیں رہے تو دوسرا مزارع۔ ایک ملک صاب ہو تو دوسرا کمی کمین۔ ایک سردار ہو تو دوسرا اس کے پیروں کی خاک۔

جب ہم چھوٹے تھے تو ہماری بہن نے ہمیں سمجھایا تھا کہ زندگی اور رزق کا اختیار خالصتا خدا کے پاس ہے کیونکہ اگر یہ اختیار انسان دوسرے انسان کے لئے استعمال کرنا شروع کرے تو وہ صرف استحصال کرتا ہے، نا انصافی کرتا ہے، گناہ کرتا ہے۔

خدا بندوں کو خدا بن کر برابر دیکھتا ہے۔ انسان خدا کو بھی بانٹ لیتا ہے۔ خدا بس میرا اور تو خدا سے محروم۔ واقعی انسان کے پاس جب بھی کوئی بھی اختیار آجائے تو وہ دوسرے کو اس سے محروم ہی رکھنا چاہتا ہے تاکہ ایک پلڑا ہمیشہ جھکا رہے، پستی میں رہے۔

جب گردواروں کی جانب سے دعوت عام کا اعلان ٹویٹر پہ پڑھا تو دل میں خواہش نے سر اٹھایا کہ کیا ہی اچھا ہو ایسا ہمارے یہاں بھی ہوا کرے۔ اچانک ہی دماغ نے سوچ کو ٹہوکا دیا کہ ایسا ’کیوں کر‘ تو دور ایسا ’کیسے‘ ہو؟ جب عام حالات میں ایک فرقے کے فرد کو دوسرے فرقے کی مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں، ایک مسلک کا آدمی دوسرے مسلک کی مسجد میں خود بھی نماز کی ادائیگی کو پسند نہیں کرتا تو ہنگامی حالت میں ایسا کر کے کیوں ہنگامہ کیا جائے؟ بہت سے افراد اس تحریر پہ ” لبرل ایجنٹ“ اور ”ایسا تو نہیں ہوتا“ کے ساتھ ساتھ اور بھی لوازمات لکھیں گے۔ انہیں بتا دیں کہ ”ایسا ہی ہوتا ہے“ بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔

کچھ افراد نے مجھے انباکس اور ٹیگ کیا کہ چنیوٹ میں ایک شخص نے تبلیغی جماعت (یقیناً مخالف) سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو ”گستاخی“ کے شک (بغیر تصدیق) پہ قتل کر دیا۔ مجھ سے اس حوالے سے رائے طلب کی گئی کہ آپ اکثر ان واقعات کی نشاندہی کرتی رہتی ہیں مگر وجہ بتائیں کہ آخر کیوں یہ جنونیت بڑھتی جا رہی ہے؟

مجموعی طور پر جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک بیمار معاشرے میں جی رہے ہیں۔ ایسا معاشرہ جسے جہالت، غربت اور توہم پرستی جیسے موزی امراض لاحق ہیں۔ جنونیت کو ہوا دینے اور افواہ کو خبر بنانے کے لئے انہی تین بیماریوں میں سے کسی ایک کا ہونا ہی کافی ہے اور یہاں تو تینوں موجود ہیں۔

بارے چنیوٹ واقعے کے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ قتل کرنے والا اگر خادم حسین رضوی کے بجائے اگر اس کا دس فیصد بھی رحمت اللعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھ لیتا تو انسان کو قتل کرنا تو دور کسی جانور کو زندگی بھر پتھر تک نہ مارتا۔

چنیوٹ میں ہوا واقعہ ہم سب کے لئے آئینہ ہے جس میں ہم اپنے بھدے داغدار عکس کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ صرف آئینے کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ آئینہ توڑنا بھی حل نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چہرے کے داغوں کا علاج شروع کیا جائے۔ عکس خود بخود صاف نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

کیچڑ کے اوپر کیسا ہی حسین قالین لا کر کیوں نہ بچھا دیں بدبو پھر بھی اٹھے گی کیونکہ یہ بو پتہ دیتی ہے کہ گندگی ہے اسے دور کریں۔ اسے ڈھک دینے سے صرف نظر سے اوجھل ہو گی وجود وہیں باقی رہےگا۔ انتہا پسندی، عدم برداشت اور جہالت ہمارے معاشرے کا کیچڑ ہیں۔ ان پر وضع وضع کے قالین نہ ڈالیں بلکہ ان کی صفائی کا انتظام کریں۔ خود سے مختلف کو قبول نہ سہی مگر برداشت تو کریں۔ ہم اپنا تباہ و برباد حال دیکھ رہے ہیں مگر اپنی آنے والی نسل کے لئے کچھ بہتری کے بیج ڈال دیں تاکہ کل کو وہ ایک بہتر پھل پا سکیں اور شاید آج سے بہتر فضا میں بغیر کسی دباؤ اور بوجھ کے ایک آزاد سانس کھینچ پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).