آٹھ مارچ: ہم یہ دن کیوں منائیں؟


 یوں تو پاکستان اور اس سے ملتے جلتے معاشروں میں ہی خواتین کا عالمی دن منانے کی ضرورت ہے تا کہ معاشرے میں مسلسل زور زبردستی اور استحصال کا شکار ہونے والی نصف سے زیادہ آبادی کو مساوی حقوق دلوانے کے لئے حکمرانوں اور سماجی ٹھیکیداروں کی توجہ مبذول کروائی جا سکے۔ لیکن یہ بھی کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ہی اس دن اور اس قسم کے نیک مقصد کے لئے کسی بھی قسم کی کوشش کے خلاف دلائل لانے اور اس طرح کی کوششوں کو مسترد کرنے کے لئے ہزار حجتیں لائی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی دلیل تو خود اکثریت کا عقیدہ ہی ہے۔ مسلمان آبادی کے اس ملک کے مذہبی رہنما سب سے پہلے تو اسے کافروں کی سازش قرار دے کر مسترد کریں گے۔ پھر یہ دعویٰ کریں گے کہ اسلام نے عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق عطا کئے ہیں، اس کے بعد حقوق کے کسی نئے چارٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مقدس اعلان کرنے کے بعد وہ ایک ایک کر کے ایسے سارے کام گنوائیں گے جو عورت کو معاشرے میں مسلسل دوسرے درجے کا شہری بنائے رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ مساوی حقوق کی بات ان عناصر کے نزدیک دین کی برتری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے حالانکہ یہ دلیل خود ان لوگوں کے طرز عمل کے بارے میں دی جانی چاہئے جو عورت کو وہ مقام دینے سے گریز کر رہے ہیں جو خود اللہ کے رسول اسے عطا کر گئے ہیں۔

گویا عصر حاضر کے علمائے دین کا رویہ وقت کے پہیے کو جاہلیت کے دور کی طرف گھمانے کا طرز عمل ہے۔ وہ عورت کو ماں ، بیوی ، بہن اور بیٹی کہہ کر پھر ان حیثیتوں میں اس کا استحصال کرنے کے لئے شریعت کے احکامات کی فہرست سامنے لاتے ہیں۔ یہ سارے اقوال دراصل عورتوں کو محدود کرنے اور ان کے اس بنیادی حق سے انکار کرنے کے مترادف ہوتے ہیں کہ عورت اپنی کسی سماجی پہچان سے پہلے انسان ہے اور اس حیثیت سے اسے بھی وہ تمام حق اور سہولتیں حاصل ہونی چاہئیں جو کسی بھی انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو خود یہ دعویٰ ہے کہ عورت کے حق یا احترام یا اس کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے پہلے یہ تخصیص کی جائے کہ وہ ماں ہے، بیوی ہے ، بہن ہے یا بیٹی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان حیثیتوں سے باہر نکل کر معاشرہ عورت کی حیثیت بطور فرد اور بطور انسان قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور کسی بھی عورت کے لئے احترام اور قبولیت کا یہ پیمانہ اس کے وجود کو اس حیثیت میں مقید کر کے، اس حق کا دائرہ صرف ان رشتوں تک محدود کرنے کا سبب بنے گا اور بن رہا ہے۔ یعنی ایک ماں کی عزت تو صرف اس کی اولاد ہی کرے گی۔ بیوی کا احترام شوہر کرے گا۔ بہن کا حق اس کا بھائی دے گا اور بیٹی صرف باپ کی ذمہ داری ہے۔ یعنی باقی معاشرے کے لئے عورت ایک بے وقعت اور بے حییثت شے میں بدل دی گئی ہے۔ یہ تصور اس عملی تصویر سے بالکل مختلف ہے جو رسول پاک کے عہد میں عورتوں کو سماجی ، سیاسی ، حربی اور تجارتی حقوق دے کر مثال کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اس کج فہمی کی وجہ سے معاشرہ میں ان کی پوزیشن بدستور کمزور ہو رہی ہے اور اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو عقیدہ کا نعرہ لگا کر مسترد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ رویہ نہ اسلام نے عطا کیا ہے اور نہ یہ رسول پاک کی سنت ہے۔ بلکہ یہ صدیوں کے مردانہ سماج کا تسلسل ہے۔ بدنصیبی کی بات ہے کہ ایک ایسے مذہب کے نام پر اب ان قبیح اور استحصالی سماجی روایات کو جاری رکھنے اور مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی مردوں کے حقوق کے بارے میں یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک باپ ، بیٹا ، شوہر یا بھائی ہے ، اس لئے اسے فلاں فلاں حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔

مردانہ تسلط پر مبنی سماجی رویوں ہی کی وجہ سے مردوں نے عورتوں کو برابر درجہ دینے سے انکار کرنے کے درجنوں طریقے اختیار کئے ہیں لیکن بلاشبہ مذہب کو اس گھناﺅنی روایت اور انا پرستی پر مبنی خواہش کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا سب سے افسوسناک حرکت ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے دعوے دار جب بھی اس کے محاسن کی بات کرتے ہیں تو ان کی باتوں سے ایک ایسے سماج کی تکمیل کی خواہش کا اظہار ہی ہوتا ہے کہ عورتوں کو گھروں کی چہار دیواری تک محدود کر دیا جائے اور زمینی قدرتی وسائل پر مردوں کا قبضہ ہو جائے اور وہ احسان کے طور پر اس میں سے عورتوں کو اپنی سہولت کے مطابق حصہ ”عطا“ کریں۔ اسی لئے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اسے رشتوں کی تعریف میں محدود کر دیا گیا ہے تا کہ عورت بطور انسان اور اس خطہ زمین کی نصف سے زیادہ آبادی کے ان تمام وسائل اور مواقع پر اپنے حق کا دعویٰ نہ کر سکے، جسے مردوں نے زبردستی اپنے نام کیا ہوا ہے۔ یہ ایک طویل بحث ہے کہ مردانہ سماج عورتوں کو مسلسل ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے تراشتا ہے۔ کبھی قرآن سے شادی کا ڈھونگ رچا کر عورت کے حصے کی جائیداد پر قبضہ کیا جاتا ہے اور کبھی اسے ملکیت کا حصہ بنا کر باہمی فساد اور جھگڑے نمٹانے کے لئے ”جنس“ کے طور پر اس کا لین دین ہوتا ہے۔ ہمارے عہد یا ماضی قریب کے علمائے دین اگر واقعی اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کو عزت ، وقار اور برابری کا درجہ دینے میں دلچسپی رکھتے تو وہ سب سے پہلے ان تمام بری سماجی برائیوں کے خلاف مہم جوئی کرتے جو عورتوں کو محروم کرنے اور غلام بنائے رکھنے کے لئے روایت اور اخلاقی اقدار کے نام پر اختیار کی گئی ہیں اور جنہیں براہ راست یا باالواسطہ مقامی مذہبی رہنماﺅں کی تائید و اعانت بھی حاصل ہوتی ہے۔

اسلامی معاشرہ اقلیتوں کا تحفظ کرنے اور انہیں حقوق فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کو اسلامی معاشرہ بنانے کے دعوے دار مسلسل اس پیرائے میں بات کرتے ہیں جس سے صرف یہ تاثر عام ہوتا ہے کہ اسلام کے ذریعے معاشروں کو مختلف خانوں میں بانٹ کر طاقتور لوگ، کمزور لوگوں کا استحصال کر سکتے ہیں۔ جو جتنا کمزور ہوتا ہے، اس کے حقوق اتنے ہی زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے اقلیتوں میں بھی خاص طور سے عورتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی روایت زیادہ توانا ہے۔ سندھ میں ہندو اور پنجاب میں عیسائی لڑکیوں کو اغوا کرنے اور زبردستی مسلمان کر کے ان کو کسی ایک مرد کے عقد یا غلامی میں دینے کا رواج بدستور موجود ہے اور دستاویزی شواہد سامنے آنے کے باوجود، اس رویہ کو مسترد کرنے کے لئے نہیں کام کیا جا سکتا۔ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ اقلیتی فرقہ کی کمسن یا نوعمر لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد متعلقہ افراد مقامی مذہبی گروہوں کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ گروہ اسلام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، تھانے اور کچہری تک اس معاملے کا پیچھا کرتے ہیں اور غنڈہ گردی کی بنیاد پر اکثر صورتوں میں پولیس یا عدالت کو لڑکی یا اس کے خاندان کی مرضی کے بغیر فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے خاندان کو دھمکیاں دے کر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی بازیابی کی کوششیں ترک کر دیں۔ ایسے اکثر معاملات میں جنسی ہوس میں مبتلا علاقے کے طاقتور خاندان کا کوئی فرد ہوتا ہے جو کسی کمسن اور خوبصورت ہندو یا عیسائی لڑکی کو دیکھ کر اسے اٹھوا لیتا ہے۔ پھر دین کا نام اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب کے ”محافظوں“ کو خود سوچنا چاہئے کہ ایسے موقع پر انہیں کس کا ساتھ دینا چاہئے۔ ایک کمزور، لاچار اور بے بس لڑکی اور اس کے مجبور ماں باپ کا یا عیاشی کے لئے لڑکیوں کو بے آبرو کرنے والے بااثر خاندانوں کے اوباش نوجوانوں کا۔ لیکن ہمارے ملک کے دینداروں نے ایسے معاملات میں خود احتسابی کا عمل بہت دیر ہوئی چھوڑ دیا ہے۔

ملک میں مذہبی رہنما ایک طرف اس بات کی مخالفت پر صف آرا ہوتے ہیں کہ مسلمان عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں تحفظ فراہم کیا جائے اور خاندان کے مردوں کو عورتوں کو غلام سمجھ کر ذلت آمیز سلوک کرنے اور ظلم و ستم کا نشانہ بنانے سے روکا جائے۔ ان کا موقف ہوتا ہے کہ عورت مرد کی وکالت اور سرپرستی کے بغیر نامکمل ہے اور اسے وہ شرعی مثالوں سے ثابت کرنے کے لئے دن رات ایک کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر سندھ کی چودہ پندرہ سال کی کوئی نابالغ لڑکی اغوا کر کے کسی زمیندار بیٹے کی ہوس کا نشانہ بنائی جائے اور بعد میں پولیس اور عدالت کے ساتھ مل کر یہ ثابت کیا جائے کہ وہ لڑکی اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے اور اب اس کا تحفظ مسلمانوں کے لئے جہاد کا حکم رکھتا ہے تو ان مذہبی گروہوں کی طرف سے اس کم عمر نابالغ لڑکی کے اس ”حق“ کے لئے جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر ایک مسلمان لڑکی کی حفاظت کے نام پر شیطانی کھیل کھیلا جاتا ہے حالانکہ اگر ایک نابالغ لڑکی کفیل کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کر سکتی (یوں تو بالغ لڑکیوں کو بھی یہ حق دینے سے انکار کے ہزار بہانے ہمارے ملا اور سماج نے تراشے ہوئے ہیں) تو وہ لاعلمی اور کمسنی کی عمر میں اپنا عقیدہ کیوں کر تبدیل کر سکتی ہے۔ ان معاملات میں نچلی عدالتوں کے جج ایسے مذہبی گروہوں کی شدت پسندی کے سامنے مجبور ہوتے ہیں جو ایک بچی کو اس کے والدین سے چھین کر ایک عیاش دولت مند کے حوالے کرنے کی مذموم کوشش کو جہاد کا نام دے کر عدالت کے باہر نعرے بازی کر رہے ہوتے ہیں۔ شاذ ہی ایسے معاملات اعلیٰ عدالتوں تک پہنچتے ہیں اور اگر میڈیا کی وجہ سے غیر ملکی فنڈ سے چلنے والی کوئی این جی او NGO کسی مظلوم خاندان کی مدد کرنے کی کوشش کرے تو اسے آسانی سے اسلام کے خلاف سازش قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں یوم نسواں اور ان کے حق کے اس دن کو ایسے تمام مظالم کے خلاف علامت کے طور پر منانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہی رویوں کی وجہ سے نہ صرف اقلیتی بلکہ اکثریتی عقیدہ سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو بھی ان کے بنیادی انسانی حق یعنی ایک جیتے جاگتے انسان کے طور پر اس کی سوچ اور رائے کو مسترد کیا جاتا ہے اور انہیں بہرصورت مرد کا محتاج بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ دن اس اصول کو واضح کرنے کے لئے منایا جاتا ہے کہ ایک عورت بھی انسان ہے۔ اس کی اپنی ذات میں چند خواہشات اور خواب ہوتے ہیں۔ اسے اپنے طور پر اپنے طریقے سے ان خوابوں کی تکمیل کے لئے جدوجہد کرنے کا حق حاصل ہے۔ یوم نسواں اس بات کا اقرار کرنے کے لئے منایا جاتا ہے کہ یہ خواب ضروری ہیں اور عورتوں کو ایسی خواہش کرنے اور اسے پا لینے کا حق اور اختیار ہے۔

8 مارچ کا دن پاکستان کے مردوں کو یہ سبق یاد کروانے کا دن ہے کہ معاشرہ صرف مردوں کی کاوشوں سے نہ وجود میں آتا ہے نہ تکمیل کے مراحل سے گزرتا ہے۔ عورت مختلف حیثیتوں میں مرد کی شریک ہونے کے باوجود ایک خودمختار اکائی ہے۔ جس طرح عورت مرد کے ہونے کو قبول کرتی ہے، اسی طرح مردوں پر لازم ہے کہ وہ عورت کے اس حق کو تسلیم کریں۔ عورت صنف ، عقیدہ یا رشتوں کی پہچان سے پہلے ایک انسان ہے۔ آج کے دن کا پیغام یہ ہے کہ عورت کو انسان تسلیم کیا جائے۔ یہ مانا جائے کہ وہ اپنا ایک وجود رکھتی ہے اور اس کی ذات کے حق کو عقیدے کی تلوار، روایت کے حصار اور مردوں کے اختیار کے ذریعے مسترد کرنا ایک ناجائز اور ناقابل قبول فعل ہے۔ جب تک یہ استحصال جاری رہے گا، 8 مارچ کو یوم نسواں کے طور پر منانا ضروری ہو گا۔

اقوام متحدہ نے 2016 میں یہ عہد کیا ہے کہ دنیا میں عورتوں کو مساوی اکائیاں تسلیم کرنے کی جدوجہد کی تکمیل 2030 تک کرنا ہوگی۔  پاکستان اقوام متحدہ کے اس عزم کا حصہ ہے۔ اسی لئے اس ملک میں امسال آج کے دن اس مقصد کے لئے کام کا آغاز کرنا ضروری ہے۔ ہمیں بہت کم مدت میں بہت فاصلہ طے کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments