افسرو نہ حقانی نہ روہنگیا بس اپنے اکیس کروڑ نونہال


ہمارے افسر آج کل اچانک بڑے زور سے جمہوری ہو گئے ہیں۔ ہم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں انہیں دل لگا کر سبق یاد کرتے دیکھ رہے ہیں۔ عدالت نوازشریف کو اقامہ دکھا کر میدان سے باہر نہ کرتی تو یہ اجلاس کدھر ہونے تھے۔ ہمارے نئے وزیراعظم ڈھونڈ ڈھونڈ کر فوت شدہ آئینی اداروں میں جان ڈال رہے ہیں۔

ابھی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس میں مردم شماری کے ابتدائی نتائج کی منظوری دی گئی ہے۔ قوم کو لڑنے کے لیے کوئی بہانہ چاہیے اب ان نتائج پر لڑے گی لڑتی رہے۔ ہم نینشل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کی جانب واپس چلتے ہیں۔ اس کونسل کی ترتیب دلچسپ ہے اور اس میں سول حکومت کی نامزدگی دلچسپ ترین ہے۔

سی پیک کے نگران اور ماہر پروفیسر احسن اقبال اب وزیرداخلہ کے طور پر اس کونسل کے ممبر ہیں۔ خواجہ آصف ہیں جو واٹر اینڈ پاور کے سابق وزیر ہیں اور اب وزیر خارجہ ہیں۔ دو ہزار تیرہ کا الیکشن جیت کر مسلم لیگ نون نے پاور کمپنیوں کو گردشی قرضوں کی سینکڑوں ارب روپے کی اکٹھی ادائیگیاں کر دی تھیں۔ الیکشن اب پھر سر پر ہے گردشی قرضے پھر آسمان کو چھو رہے ہیں۔ پاور کمپنیوں کو پیسے نہ ملے تو بجلی نہیں آنی بجلی نہ آئی تو ووٹ نہیں ملنے ووٹ نہ ملے تو شیر کی بلی بنی ہوئی لیں۔ اس ووٹ کے لیے کچھ بھی کرے گا۔

اس کونسل کے ایک ممبر اسحق ڈار صاحب ہیں۔ کچھ ہفتوں میں وہ حد آنے والی ہے جب پاکستان مزید قرضے لینے کے لیے نا اہل ہو جائے گا۔ عالمی اداروں سے قرض لینے کی ایک سادہ سی شرط یہ ہے کہ قرض مانگنے والے ملک کے پاس اپنی درامدات کے لیے تین مہینے کی نقد رقم موجود ہو۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی خود پہلے پیٹرولیم اور گیس کے وزیر تھے۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے پہلا نیک کام یہ کیا کہ پانی و بجلی پیٹرولیم اور گیس کو ضم کر کے انرجی کی وزارت بنا دیا جس کا چارج انہی کے پاس ہے۔ ان وزارتوں کا ضم کرنے کے لیے عالمی ادارے کب سے ترلے کر رہے تھے عرصہ تین سال سے نوازشریف اس فائل پر سائین نہیں کر رہے تھے۔ گیس بھی پیسوں سے آتی ہے۔

یہ چاروں سول ممبران سیکیورٹی کونسل جس جذبے سے حکومت کی مالی حالت پر رو سکتے ہیں، ہم اس کا اندازہ تک نہیں لگا سکتے۔ اسی کونسل کے ایک رکن خرم دستگیر خان بھی ہیں۔ گوجرانوالہ سے ان کا تعلق ہے وزارت کوئی ہو ان کی دلچسپی غیر ملکی سفر اور سیاحت وغیرہ سے ہی ہوتی ہے۔ نوازشریف نے نا اہل ہونے کے بعد سب سے اچھا پاور شو گوجرانوالہ میں ہی کیا ہے۔ وہاں میاں صاحب کے انتظار سے تھک کر پہلوان ڈنڈ بیٹھکیں بھی لگاتے رہے ہیں۔ خرم دستگیر اب کل عالم کی مسلح افوج سے گارڈ آف آنر لینے نکلیں گے۔ ان سب فوجوں کو اپنے پہلوانوں کے ڈنڈ بیٹھکوں کی فوٹو اپنے لیڈر کے جلسے وغیرہ دکھائیں گے۔ ساتھ ان کا مصرعہ بھی سنایا کریں گے کہ ”مجھے کیوں نکالا“۔ اب پنڈی آنے والے ہر غیر ملکی فوجی وفد کو چیف صاحب یہ لازمی بتایا کریں گے کہ اوئے ہم نے نہیں نکالا۔

پاکستان میں جو تبدیلی ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئینی اداروں کے اجلاس جاری ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو میاں صاحب کی رخصتی ہے دوسری وجہ ٹرمپ کی وہ تقریر بھی ہے جس میں اس نے اپنی نئی افغان پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی بہت سیدھی سادی سی ہے۔ جب تک ضرورت ہے ہم یہیں ہیں کہہ کر اس نے افغان جنگ میں وقت اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے طالبان کو گھڑی پکڑا دی ہے کہ لو اس پر ٹائم دیکھا کرو۔ ٹرمپ نے صاف کہا ہے بلکہ کسی حد تک شرم دلائی ہے کہ ہم یہاں تمھاری قومی تعمیر نہیں کرنے آئے۔ ہماری آمد کا بس اب ایک ہی مقصد ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کو مارنا ہے۔

دہشت گردوں کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ ان کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں۔ یہی ہمارے لیے فکر کی بات ہے۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر کہتے سنے گئے ہیں کہ پشاور اور کوئٹہ میں موجود طالبان قیادت کو اب راتوں کو نیند نہیں آنی چاہیے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ امریکی پاکستان کے اندر خدانخواستہ کسی کارروائی کی نیت باندھ چکے ہیں۔ ہماری سول ملٹری قیادت صورتحال سمجھ چکی ہے اور سر جوڑ کر بیٹھی ہے۔ گھبرانے والی بات کوئی نہیں ہے فیصلے سوچ سمجھ کر مشورے سے کیے جائیں تو راستے نکل ہی آتے ہیں۔

پریشانی کی بات اور ہے ہمارا میڈیا ہمارا سوشل میڈیا اپنی اندرونی حالت کی بجائے جذبات کا رخ برما کے مظلوموں کی جانب موڑ چکا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ہمیں اپنا بزرگ یاد آ گیا جس جب بھی جائداد کے بٹوارے کی بات کرتے تو وہ کہا کرتا کہ ہائے اوئے اک پاسے کلا (اکیلا) صدام دوسری طرف ساری دنیا۔ بات چیت کا رخ صدام کی حالت زار کی جانب مڑ جاتا اور اپنے حق کی بات کہیں بیچ میں گم ہو جاتی۔

نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں سول ممبران آج کے ہوں کل والے ہوں یا آنے والے۔ ہمیشہ اس قابل ہوتے ہیں کہ راستہ نکال سکیں۔ یہ راستہ نکالنے کے لیے ان کو تھوڑی پبلک سپورٹ فراہم کرنی ہوتی ہے جو ہمارا میڈیا ہونے نہیں دیتا۔ چلیں پھر خود ہی پوچھتے ہیں کہ پیارے افسرو دو ڈھائی ہزار حقانیوں کے لیے اکیس کروڑ نونہالوں کو داؤ پر لگانا ضروری ہے کیا۔ ذرا قوم پر دھیان کرو افسرو۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi