نظریاتی سوالات کے جوابات (1)


محترم جناب مرزا صاحب۔

 میں کراچی یونیورسٹی میں ” بین الاقوامی تعلقات ” کا نو وارد طالب علم ہوں۔ مختلف نظریات (Ideologies ) میرے پسندیدہ موضوع ہیں۔ جن میں سیکولرازم، لبرل ازم، کیپیٹل ازم، کمیونزم اور سوشل ازم وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ابھی تک صرف دو کو کسی حد تک سمجھ پایا ہوں۔ سیکولرازم اور لبرل ازم کو، باقی ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔

 لہذا اس سلسلے میں چند سوالات کے جوابات درکار تھے۔ کمیونزم اور سوشلزم کے حوالے سے کیونکہ آپ ایک ایسے ملک میں رہائش پذیر ہیں جہاں وہ اس نظام کو practise کر رہے ہیں۔اور اس کے نتائج سے بھی بہرہ ور ہوچکے ہیں۔

1۔ سوشل ازم اور کمیونزم کے درمیان بنیادی فرق کیا ہیں؟ اور کارل مارکس اصلا” کس کے بانی ہیں؟

2۔ روس میں اب کون سا نظام لاگو ہے؟ کیا پرانے ورژن کا ہے یا جمہوریت کا ملغوبہ ہے؟

3۔ چین ، روس اور نارتھ کوریا کے نظاموں اور نظریات میں کتنا فرق ہے؟

4۔ کارل مارکس کے نظام کو دین دشمن اور مذہب مخالف کہا جاتا ہے اب کیا حال ہے مذہبی حوالے سے؟

5۔ کیا مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو عبادات کی چھوٹ ہے؟

6۔ روس میں دہریت کے بعد سب سے بڑا مذہب کون سا ہے؟

7۔ کیا اب بھی ذاتی ملکیت پر کوئی روک ٹوک کا قانون ہے؟

ایک کتاب میں کمیونزم کے بارے میں پڑھا کہ” کمیونزم ذاتی ملکیت کا دشمن ہے ۔ چاہے وہ ملکیت عورت ہی کیوں نہ ہو، ہر جگہ، ہر جنسیت اور اباحیت مطلقہ کو پھیلانا کمیونسٹ انقلاب کا صریح ہدف ہے۔ کیونکہ شادی خاندان کو جنم دیتی ہے اور خاندان ان کی نظر میں غیر طبقاتی معاشرے کا سب سے بڑا دشمن ہے کیونکہ خاندان قائم ہونے سے ذاتی ملکیت اور جائیداد اکھٹا ہوتا ہے اور انفرادی ملکیت استحصالی جاگیردارانہ نظام کی رسم ہے۔ اگر اس کو ختم نہ کیا جائے تو معاشرہ حقیر تاریخی دور کا حامل رہے گا ۔”

اس میں کتنی سچائی ہے ؟

مجھے ایک ہفتہ قبل یہ خط ملا تھا۔ طالبعلم نے خود کو ایم اے کا سٹوڈنٹ بتایا ہے اور انہوں نے سیکولرازم اور لبرلزم کو بھی معاشی نظریات میں شامل کیا ہوا ہے جب کہ ان دونوں کا تعلق عمرانیات اور اجتماعی نفسیات سے ہے۔ خیر چونکہ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات کی سائنس ابھی ابھی پڑھنا شروع کی ہے تو کوئی بات نہیں۔

پھر ان کے خط سے ظاہر ہوتا ہے جیسے روس میں کمیونزم ابھی تک رواں دواں ہے ساتھ ہی وہ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ روس میں اب کونسا نظام لاگو ہے؟ کیا پرانے ورژن کا ہے یا جمہوریت کا ملغوبہ ہے؟ اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آج ” بین الاقوامی تعلقات” میں ایم اے کرنے والے کس قدر بے خبر ہیں۔ اس عمر میں ہم میڈیکل کے طالب علم ہوتے ہوئے بھی محض اخبارات اور رسائل کے توسط سے دنیا بھر کے معاملات سے واقف ہوتے تھے اور جو نہیں تھے وہ کم از کم اپنے میدان یعنی طب میں طاق ہوا کرتے تھے۔ اساتذہ بھی پڑھاتے تھے اور شاگرد بھی محنت کرتے تھے۔

 ان سوالات میں ایک سوال بہت دلچسپ ہے۔ وہ یہ کہ : روس میں دہریت کے بعد سب سے بڑا مذہب کون سا ہے؟ اس سوال میں یا تو موصوف نے دہریت کو بھی مذہب لیا ہے، اگر ایسا ہے تو ان کی وسیع النظری ہے کیونکہ انتہائی ملحد مذہبی افراد کی طرح اپنی ضد کے ساتھ چمٹے ہوتے ہیں یا پھر ان کے خیال میں کسی ملک میں دہریت کی شرح مذاہب کی نسبت زیادہ ہو سکتی ہے جسے ان کی لاعلمی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اب تک ہم نے یہ رائے دی کہ جو طالبعلم سوال کر سکتا ہے وہ بھی خاصا لاعلم واقع ہوا ہے اگرچہ ایسے طالبعلم باہمت ہوتے ہیں مگر سوال کرنے سے پہلے متعلقہ معلومات ہونی چاہییں تبھی آپ کا سوال جواب دینے والے کو متاثر کرے گا۔ سوال برائے سوال تو کرنے والے کرتے ہی رہتے ہیں۔

 آئیے ہم جستجو کرنے والے کی مزید حوصلہ شکنی کیے بغیر ان کے متعلقہ سوالوں کا جواب دیں:

 1 ۔ سوشل ازم اور کمیونزم کے درمیان بنیادی فرق کیا ہیں؟ اور کارل مارکس اصلاً کس کے بانی ہیں؟

  مختصرا” سوشلزم کی تعریف ” کار بقدر استعداد اور اجرت بقدر کار” ہے۔ یعنی آپ مزدور ہیں یا سائنسدان، آپ کو مقررہ وقت کے لیے مقررہ کام کرنا ہوگا چاہے وہ آپ کی صلاحیت کے مطابق ہو یا اس سے مختلف مگر آپ کو کام کے مطابق اجرت دی جائے گی یعنی تقریباً سبھی کو برابر۔ محصولات میں باقی بچ رہنے والے وسائل سے لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے اور معیار زندگی بڑھانے کی تگ و دو کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔

اسی طرح مختصراً کمیونزم کی تعریف یوں کی جائے گی کہ “کار بقدر استعداد، اجرت بقدر ضرورت” یعنی اگر آپ مزدور ہیں تو آپ مقررہ وقت کے لیے کام کریں گے۔ آپ کی ایک بیوی اور چار بچے ہیں۔ اسی طرح سائنسدان بھی مقررہ وقت کے لیے کام کرے گا لیکن وہ اکیلا ہے، بیوی مر چکی ہے یا چھوڑ گئی ہے، دو بچے باپ کے رہ گئے ہیں۔ یوں کسان کے افراد خانہ چھ ہوئے اور سائنسدان کے تین۔ انسانی ضرورتوں اور خواہشوں کو یکساں تصور کیا جائے گا چنانچہ مثال کے طور پر مزدور کو چھ ہزار تنخواہ ملے گی اور سائنسدان کو تین ہزار۔

یاد رہے جہاں کہیں بھی یہ نظام رائج رہے یا رائج ہیں وہاں اس کلاسیکی تعریف پر عمل نہیں کیا گیا۔ جس طرح کیا گیا یا کیا جاتا ہے، وہ اس سوال کے زمرے میں نہیں آتا۔

سوال کا دوسرا حصہ کارل مارکس کے بارے میں ہے۔ کارل مارکس کسی بھی نظریے کا بانی نہیں تھا۔ وہ ایک ماہر معیشت اور سیاسی طور پر فعال فرد تھا۔ کمیونزم لفظ کمیون سے ہے جب زمانہ قدیم میں لوگ گروہوں یعنی کمیون کی شکل میں رہتے تھے۔ جو حاصل ہوتا تھا، چاہے شکار سے یا جنگلی پھل وغیرہ اکٹھے کرکے اس پر سب کا حق ہوتا تھا۔ بچے کمیون کی مشترکہ ملکیت ہوتے تھے جن کی خوراک، تربیت، دیکھ بھال اور تحفظ سبھی کے ذمے تھے۔ کارل مارکس سے پہلے بھی تصوراتی اشتمالیت پسند افراد نے اپنے کارخانوں میں سوشلزم کی مثال قائم کرنے کی دو ایک کوششیں کی تھیں۔ یاد رہے کہ سوشلزم اور کمیونزم پر عمل درآمد کا خیال تب ہی آیا جب صنعت لگنے کے سبب اشیاء کی بہت زیادہ پیداوار ہونے لگی۔ مزدوروں یا کاریگروں کو معمولی اجرت دی جانے لگی اور منافع کا بیشتر حصہ کارخانہ دار یا مالک کی جیب میں جانے لگا تھا۔ کارل مارکس نے ابتدائی صنعتی دور کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متبادل معاشی نظام وضع کرکے دیا تھا، یوں وہ بانی نہیں تھا بلکہ اس ںطام کو شکل دینے والا تھا۔

 2۔ روس میں اب کون سا نظام لاگو ہے؟ کیا پرانے ورژن کا ہے یا جمہوریت کا ملغوبہ ہے؟

روس میں “پرانا ورژن” تمام ہوئے چھبیس برس بیت چکے ہیں۔ آپ کو کیوں اس بارے میں خبر نہیں، میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ملغوبہ؟ ایسا کرنے کی کوشش 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو نے “اسلامی سوشلزم” کے نام سے کی تھی۔ اس کے بعد اگر کہیں ایسی کوشش ہوئی ہو تو مجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہے۔

روس میں باقاعدہ جمہوریت ہے۔ نظام صدارتی ہے۔ البتہ جمہوریت سے متعلق مغرب کی شکایات کا جواب دیتے ہوئے روس کے صدر پوتن نے ایک بار کہا تھا کہ “ہر جگہ کی جمہوریت وہاں کے حالات کے مطابق ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں پہلے سلطانیت یعنی زاروں کی حکومت تھی اور پھر ستر سال سے زائد کمیونسٹ پارٹی کی۔ اگر کسی کا خیال ہو کہ روس میں ربع صدی کے دوران فرانس یا برطانیہ کی سی جمہوریت ہو تو ایسا ممکن نہیں ہے۔” چنانچہ یہاں رائج جمہوریت کو مغرب والے کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا متعصبانہ نام دیتے ہیں۔ اگرچہ ہم یہاں رہنے والوں کو ایسا نہیں لگتا تاہم ابھی مغربی طرز کی جمہوریت سے بہت پیچھے ہے اور ہمارے ہاں کی جمہوریت سے خاصی پیش رفتہ۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).