ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے یا خود غرضی دکھائی جائے؟


پاکستانی قوم کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پانامہ، عائشہ گلالئی اور حکومت کے جانے یا قائم رہنے جیسے مسائل میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ شام، یمن اور اب روہنگیا جیسے مسائل پر سوچنے کا وقت نہیں نکال پاتے۔اگر دنیا میں کہیں ظلم و زیادتی ہو رہی ہے تو ہمارا رد عمل اس طرح کا ہوتا ہے کہ فلاں آواز کیوں نہیں اٹھا رہا، موم بتی مافیا کیوں چپ بیٹھا ہے؟ یعنی جو کچھ کرنا ہے، دوسرے کریں ،ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اسے بھی چھوڑئیے، ایک حلقہ تو سفاکانہ حد تک خود غرضی کا مظاہرہ کرتا ہے، دوسروں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا تو ایک طر ف رہا، ان لوگوں کو یہ فکر پڑ جاتی ہے کہ کہیں وہ مظلوم ان کے گھر پناہ لینے نہ آ جائیں۔ ان لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آج اگر ہم کسی پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے تو کل کو کوئی ہمارے حق میں بھی آواز نہیں اٹھائے گا۔ اور اگر ہمارے دباؤ ڈالنے اور شور مچانے سے کسی کا مسئلہ وہیں حل ہو جاتا ہے تو پھر وہ کیوں ہمارے گھر پناہ لینے آئے گا۔

عالمی مسائل کو تو چھوڑیں ،ہم نے تو کشمیر کے مسئلے پر بھی آواز اٹھانا چھوڑ دی ہے، اگر اب بات بھی کرتے ہیں تو نیم دلی سے جب کہ ارون دھتی رائے نے دیگر مظلوم اقوام کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے پر بھی ہمیشہ جرات مندی کے ساتھ بات کی ہے۔ اس کا نیا ناول Ministry of utmost happiness کا اہم ترین حصہ ہے ہی کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کے بارے میں۔ اسی طرح ہم نے بہاریوں کے ساتھ کیا جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے وقت اپنی پاکستانی شناخت پر اصرار کیا لیکن پاکستان نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اتنے برس بعد ان کی دوسری اور تیسری نسل بھی بنگلہ دیش میں کیمپوں میں زندگی گزار رہی ہے۔ ایک ریاست اپنے شہریوں کو اتنی بڑی سزا کیسے دے سکتی ہے؟ کیا اس ظلم کے لئے ہم کبھی بھی جواب دہ نہیں ہوں گے۔ اگر ہم انہیں پاکستان نہیں لا سکتے تھے تو کسی پاکستانی حکومت کو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی کہ اقوام متحدہ کے توسط سے یا براہ راست بنگلہ دیش کی حکومت سے بات کر کے ان کے مسئلے کا کوئی اور آبرو مندانہ حل ڈھونڈ نکالتی لیکن اصولی بات کرنے اور حق کا اور مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے ہر حکومت اپنے ووٹ بینک کے بارے میں فکر مند رہی۔

اب روہنگیا کا مسئلہ سامنے آیا ہے۔اس حوالے سے اب تک جو کچھ شائع ہو چکا ہے ، اسے دہرائے بغیر ہم صرف بات یہاں سے شروع کریں گے کہ وہاں کئی عشروں سے را کھائن اسٹیٹ میں بدھسٹوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی چلی آ رہی ہے۔ گزشتہ سال 9 اکتوبر کو یہ کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب مسلمان عسکریت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں میانمار اور بنگلہ دیش کی درمیانی سرحد پر برما (میانمار) کے نو پولیس والے مارے گئے اور تب سے میانمار کی سیکورٹی فورسز نے ان کے بقول دہشت گردوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ جب کہ روہنگیا کا کہنا ہے کہ پولیس اور فوج اذیت رسانی اور زنا بالجبر کی مرتکب ہو رہی ہے اور اب تک تیس ہزار روہنگیا بنگلہ دیش فرار ہو چکے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ ایڈوکیسی گروپ اور اقوام متحدہ کی پناہگزینوں کی تنظیم  UNHCR کے بنگلہ دیش میں مقیم نمائندے نے میانمار کے اس مسئلے سے نمٹنے کے طریقے پر سخت تنقید کی ہے۔اقوام متحدہ کے نمائندے نے بی بی سی کو انٹرویو میں اسے نسل کشی کے مترادف قرار دیا۔ آنگ سان سوکی نے اگست 2016 میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو اس حوالے سے بنائی جانے والی ایڈوائزری کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ اس مسئلے نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے اور مختلف ممالک میں برما کے سفارت خانوں کے سامنے مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ حال ہی میں پوپ فرانسس نے سینٹ پیٹر اسکوائر میں زائرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ ہمیں ایک مذہبی اقلیت کے اپنے روہنگیا بہن بھائیوں پر ہونے والے جبر و تشدد کی افسوس ناک خبر ملی ہے۔میں ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہوں۔ الٰہی ان کی حفاظت فرما اور ایسے نیک لوگوں کو ان کی مدد کے لئے بھیج جو انہیں ان کے سارے حقوق دلوائیں‘‘۔

انیس ہارون کی اطلاع کے مطابق انسانی حقوق کے قومی کمیشن NCHR نے بھی اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔

ME- ISLAMABAD.ORG نے بھی سوشل میڈیا پر لوگوں سے اپیل کی ہے کہ تمام لوگ برما کے سفیر اور سفارت خانے سے براہ راست رابطہ کر کے اپنا احتجاج درج کروائیں کہ بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

سوشل میڈیا پر لوگ اس بات پر بھی حیرت کااظہار کر رہے ہیں کہ بدھسٹ لوگوں کے بارے میں ہمیشہ یہی سنا تھا کہ وہ بہت پرامن ہوتے ہیں اور کسی پر ظلم نہیں کرتے تو پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے جب کہ کسی کا کہنا ہے کہ بدھا کے پیروکار میانمار میں مسلمانوں کو مار رہے ہیں لیکن عالم اسلام میں مسلمان مسلمانوں کو مار رہے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چیزوں کا تعلق عقیدے سے نہیں بلکہ جہالت سے ہے۔

راکھائن اسٹیٹ کی تاریخ پر کام کرنے والے ایک مورخ جیکوئس لیڈر کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں صحافیوں کو جب تک رسائی نہیں دی جائے گی تب تک اصل صورتحال کا پتا نہیں چلے گا۔ بہر حال واقعات یکساں تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔ پہلے پرتشدد واقعہ رونما ہوتا ہے اور پھر فوج مناسب رابطوں کے بغیر ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے اور افواہیں جنم لیتی ہیں ۔نتیجے میں مسلمان بھاگنے لگتے ہیں، اکثر یہ جانے بغیر کہ ہوا کیا ہے، عام طور پر وہ شمال کا رخ کرتے ہیں تا کہ بنگلہ دیش کی سرحد عبور کر سکیں۔ برمی فوج 1950کے عشرے سے سرحدی علاقوں کی انچارج رہی ہے۔ فوج کو بدھسٹ اور مسلمانوں کے درمیان ثقافتی اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ اس کا کام سرحدوں کی حفاظت تھا، ویسے بھی اس صورتحال کی بنیادی ذمہ داری غربت اور پسماندگی پر عائد ہوتی ہے۔

میری رائے میں ایسی صورتحال میں یہی مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ غیر جانبدار میڈیا اور مبصروں کو وہاں جانے کی اجازت دی جائے تا کہ اس مسئلے کا کوئی ٹھوس اور پائیدار حل نکالا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).