خود مختاری کا ناٹک کب تک


حالات کو سرخ اور سفید دائروں میں تقسیم کرکے تجزیہ اور تقریر کرنے والے آج کل امریکہ پہ باتونی چڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سب پبلک ریلیشن کی مشق ہی ہے اس کا ماحصل صفر ہی نکلا ہے اور آئندہ بھی یہی رہے گا۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کی امریکہ یاترا کو متنازعہ قرار دینے والوں کا ایک معتدد بہ طبقہ آج بھی موجود ہے۔ اس وقت کے سویت یونین (روس)باقاعدہ سرکاری دورے کی دعوت دینے کے باوجود پھر اس کو منسوخ کیوں کیا۔ یہ سوالات آج بھی جواب طلب ہیں۔ کیونکہ ہم سے آزادانہ خارجہ پالیسی ترتیب دینے کی کڑی یہیں سے گم ہوگئی تھی۔ ا اس گم شدہ کڑی کی بازیافت اس وقت ممکن ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے بےجا پیار سے باہر آسکیں۔ صرف ایک واقعہ کا سہارہ لیتے ہیں اور جاننے کی کوشش کرتے کہ ہم کب خودمختار تھے جو اب اس اختیار کے چھین جانے کا رونا روتے ہیں۔

امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک عالمی حالات پر عقاب کی طرح نظر رکھتے ہیں۔ وہ روزمرہ کی بنیاد پہ اپنے سفارت خانوں سے متعلقہ ملک کی پوری تفاصیل طلب کرتے ہیں اور اس کے مطابق ان کے حوالے سے اپنی پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ یہ ان کا پرانا طریقہ وردات رہاہے۔ ان تفاصیل میں ان ملاقاتوں کا احوال بھی لکھا جاتا ہے جو کسی بھی ملک کے زعماء یا ارباب حل و عقد اور سفارت کاروں کے مابین ہوتی ہیں۔ اور پھر یہ کہ کم از کم بارہ سال بعد ان خفیہ پیپرز کو منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ مگر اس میں حساس نوعیت کی رپورٹس کو خفیہ رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے جو خفیہ پیپر شائع ہوتے رہے ہیں ان کے مطالعہ سے آپ حکومتی راہداریوں میں بننے والی سازشوں کا بخوبی ادراک حاصل کرپائیں گے۔ لیاقت علی خان جب امریکہ گئے تو صدر مملکت نے ملاقات میں ان کے سامنے پاکستان سے موصولہ ایک درخواست رکھی جس میں امریکہ سے قرض دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ لیاقت علی خان اس سے انکاری تھے مگر کھوج لگانے پر پتہ چلا کہ یہ پوری مشینری کو بائی پاس کرکے نامعلوم افراد کا کمال تھا۔

جدید سیاست کا طالب علم بخوبی جانتاہے کہ کسی بھی ملک کے لئے خارجہ پالیسی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس اصول کو سامنے رکھ کر ذرا سوچئے تو پاکستان آج تک بغیر ریڑھ کی ہڈی کے کھڑا ہے اور ہم اقوام عالم میں ہر مرتبہ کیوں ہزیمت اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیو‍ں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ ہم کو اپنے قدموں میں کھڑا ہونے کے لئے ریڑھ کی ہڈی درکار ہے مگر ہماری ریڑھ کی ہڈی کب کے ریزہ ریزہ ہوچکی ہے۔

کہنے والے نے ٹھیک کہا ہے کہ ملکی خارجہ پالیسی کیا ہے یہ وزارت خارجہ کو بھی پتہ نہیں۔ ان کے ترجمان کو ایک ڈرافٹ پکڑایا جاتا ہے اور ایک خاص ٹائم مقرر کیا جاتاہے اور ساتھ میں اس کے لئے دائرے تشکیل دیے جاتے ہیں اور باور کرایا جاتاہے کہ آپ نے اس سرکل میں رہ کر وقت مقررہ تک میڈیا کے سامنے رُکنا ہے۔ آپ کے اٹھتے قدموں کی چاپ تک کی بھی گنتی مقرر کی گئی ہو تو اس ملک میں آزادانہ خارجہ پالیسی ترتیب دینے کی باتیں کرنا گویا شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنا ہی ہے۔

میں اس پہ نہیں جاؤں گا کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہونی چاھئے اور یہ پالیسی ترتیب دینے کا اختیار کس کے پاس ہونا چاھئے اگرچہ میں ذاتی طور پر اس کا قائل ہوں کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں اتنی خواہش رکھتا ہوں کہ آزادی کے تصور کا ازسر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر جذباتی نعروں اور تقریروں سے ایک ہیجان برپا کرنا کونسا مشکل کام ہے بات یہ ہے کہ آپ کی تقریر پالیسی پر کتنا اثر انداز ہوسکتی ہے اور ہورہی ہے۔ اصل جاننے کی چیز یہی ہے۔ پورا پنجاب، کے پی کے، سندھ میں تمام پراجیکٹ یو ایس ایڈ کے بل بوتے پہ چل رہے ہیں۔ آپ آزادی چاھتے ہیں تو پہل کیجئے یہ یو ایس ایڈ کو باہر کیجئے۔ آپ نے آزادی کو یو ایس ایڈ کے ہاتھوں گروی رکھ کر ہمیں باتوں سے ٹرخانے نکلے ہیں۔ اور ویسے بھی بحیثیت قوم ہم میں اور شیخ چلی میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).