چین میں غیرت کی شدید کمی


اس وقت بھارت اور چین کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ بھوٹان اور چین کی سرحد پر بھارتی فوج نے چینی علاقے ڈوکلام پر قبضہ کر لیا ہے۔ بھارتی فوج اس خطے میں چین کو سڑکیں بنانے سے روک رہی ہے۔ چین اپنا غصہ دکھانے کو سرحد پر اصلی گولہ بارود کے ساتھ فوجی مشقیں کر رہا ہے۔

ایسے میں خبر ملے کہ چینی سرزمین پر ہونے والے برکس سربراہی اجلاس میں چینی صدر جا کر عیار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مسکرا مسکرا کر ہاتھ ملا رہے ہیں تو ہم جیسے غیرت مند پاکستانی وہیں زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ کاش چینیوں نے ہم پاکستانیوں سے غیرت کا سبق سیکھا ہوتا۔ اگر ہمارا کوئی وزیراعظم ایسی حرکت کرتا تو اسے عہدہ چھوڑنا پڑ جاتا۔

ادھر پاکستان میں نواز شریف نے پہلی مرتبہ عیار بھارتیوں سے دوستی کی کوشش کی تھی تو جنرل سید پرویز مشرف نے انہیں کارگل پر خوب شرمندہ کرنے کے بعد دس سال کے لئے جلاوطنی کی سزا دی تھی۔ دوسری مرتبہ نواز شریف نے نریندر مودی کو اپنی نواسی کی شادی پر بلایا تھا تو ہم نے اس بے غیرتی کے خلاف جلوس نکالے تھے۔

پھر جب نواز شریف نے نریند مودی کے چہیتے بھارتی تاجر سجن جندال کے ذریعے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کرتے ہوئے مری میں دوستی کی پینگیں بڑھائیں تو ہماری غیرت نے خوب جوش کھایا۔ اگر آپ ہماری طرح روحانیت کو مانتے ہیں تو یہ تسلیم کر لیں کہ اسی کا اثر پاناما فیصلے کی صورت میں سامنے آیا ہے ورنہ پانامہ میں چار سو دوسرے پاکستانی بھی تو تھے ان کا کون سا بال بھی بیکا ہوا ہے۔

یہ مانا کہ دنیا میں ہم جیسا غیرت مند کوئی دوجا نہیں ہے جو دشمن ہمسائے کی مرغی مارنے کی خاطر اپنی دیوار ہی ڈھا دے لیکن بہرحال اپنے سب سے گہرے دوست چین سے یہ امید رکھنا تو برحق تھا کہ وہ ہم سے آدھی غیرت ہی دکھا دیتا۔ کم و بیش ساٹھ برسوں میں چین نے آخر ہم سے سیکھا کیا ہے؟

یہ کیا بے غیرتی والی بات ہے کہ چین نے ہم سے یہ کہہ دیا کہ ہمسایوں سے دشمنی چھوڑ کر تجارت کی جائے؟ ہم سے تو ایسی بے غیرتی نہیں ہوتی۔ ہم تو بھارت کو واہگہ کے راستے سیمنٹ بیچتے ہیں اور اس سے ٹماٹر پیاز منگاتے ہیں، باقی کسی جنس کی تجارت ہم واہگہ کے راستے نہیں کرتے۔ دبئی کے راستے کرتے ہیں۔

لیکن چین کو دیکھیے کہ روپے پیسے کو غیرت سے بڑھ کر جانتا ہے۔ جگر تھام کر سنیے کہ شدید دشمنی کے باوجود بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چین ہے۔ دونوں ملک 71 ارب ڈالر سے زیادہ کی باہمی تجارت کرتے ہیں جن میں سے 61 بلین ڈالر کا مال چین بھارت کو بیچتا ہے اور دس ارب ڈالر کا مال بھارت سے خریدتا ہے اور ہم پر بھی زور دیتا ہے کہ ہم بھی بھارتی مارکیٹ سے فائدہ اٹھائیں۔ چین سے بھی بدمعاشی کرنے والے امریکہ اور چین کی باہمی تجارت پونے چھے کھرب ڈالر ہے۔ چین امریکہ کو ساڑھے چار کھرب ڈالر کا سامان بیچتا ہے اور اس سے ایک کھرب پندرہ ارب ڈالر کا مال خریدتا ہے۔

چینی ہماری بہت عزت کرتے ہیں۔ وہ ہم سے نفع کمانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ چین سے ہماری باہمی تجارت دس ارب ڈالر کے قریب ہے۔ ہم چین کو کوئی دو ارب ڈالر کا مال بیچتے ہیں۔ یعنی چین ہمارے ملک سے صرف 8 ارب ڈالر کما رہا ہے جبکہ بھارت سے وہ 61 ارب ڈالر اور امریکہ سے ساڑھے چار کھرب ڈالر کماتا ہے۔

ہمیں شک ہے کہ بھارت چین کو دس ارب ڈالر کا نمک بیچتا ہو گا۔ اس بھارتی نمک کے علاوہ اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ شہد سے زیادہ میٹھی دوستی والے چین نے حالیہ برکس سربراہی کانفرنس میں پاکستان میں موجود نہایت امن پسند تنظیموں پر دہشت گردی کا الزام لگا دیا ہے یعنی پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کی تہمت دھر دی ہے۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردی کے واقعات میں ملوث، ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔

اگر چین نے مودی ہی سے ہاتھ ہی ملانا تھا تو ہزاروں ایٹم بم رکھنے کا کیا فائدہ، ساڑھے تئیس لاکھ باقاعدہ فوج اور اتنی ہی ریزرو فوج رکھنے کی کیا حکمت، جدید ترین ہوائی و بحری بیڑے بنانے اور چاند تک مار رکھنے والے میزائلوں پر پیسہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر مودی سے اتنا ہی خوف تھا تو چین ہمیں حکم کرتا، ادھر سے ہمارے دفاع پاکستان کونسل کے مجاہدین ابھی جا کر لال قلعے پر چین کا سرخ انجمی پرچم لہرا دیتے۔ مگر صاحب، یہ تو غیرت والوں کا کام ہوتا ہے، چین نے تو الٹا اپنی سرزمین پر ہونے والی برکس سربراہی کانفرنس میں ان مجاہدین کا نام لے لے کر ان کی مذمت کر دی ہے اور لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی دفاعی تنظیموں کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ان کا نام داعش، القاعدہ اور تحریک طالبان کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ بہانہ یہ بنایا ہے کہ برکس ممالک یعنی بھارت، چین، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ دہشت گردی سے بہت تنگ ہیں اس لئے سب نے مل کر ان تنظیموں کا نام دیا گیا ہے۔

ہمیں بھارت سے تجارت کرنے کا کہا ہے؟ نا صاحب نا۔ یہ بے غیرتی ہم سے نہیں ہو گی۔ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ہم غیرت مند جنگجو ہیں۔ ہم گولی چلانے اور بم پھاڑنے پر یقین رکھتے ہیں، ہلدی نون بیچنے پر نہیں۔ چین اور روس چاہے جو مرضی کہیں، ہم ہاتھ سے بندوق نہیں رکھیں گے، ہم بھارت سے تجارت نہیں کریں گے بلکہ اسے سبق سکھا کر رہیں گے خواہ اس مقصد کی خاطر ہمیں ایک ہزار سال تک گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar