دہشت گردی، برکس اعلامیہ اور ہماری خارجہ پالیسی


پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان اور وزیر دفاع خرم دستگیر نے دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم برکس BRICS کے اس اعلامیہ کو مسترد کیا ہے جس میں بعض ایسی دہشت گرد تنظیموں کا بھی ذکر کیا گیا تھا جن کے بارے میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان کی حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان میں خاص طور سے لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک شامل ہیں۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد بھارت جبکہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ پاکستان کو ان تنظیموں کا نام اس فہرست میں شامل ہونے پر تشویش ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے دہشت گردی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہے۔ تاہم اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی حکام یہ تسلیم کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ دنیا میں عالمی سیاست کے بارے میں اختلافات اور تضادات کے باوجود مختلف ممالک میں اس سوال پر وسیع اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے کہ دہشت گرد گروہ بنیادی طور پر عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے مل جل کر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

برکس ممالک نے اپنے قیام کے دس سالہ دور میں پہلی بار دہشت گرد گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے عالمی امن و امان پر اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ برکس اعلامیہ میں دہشت گرد تنظیموں کی جو فہرست شامل کی گئی ہے اس میں پاکستان سے سرگرم عمل تنظیموں کے علاوہ ایسے گروہوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو افغانستان یا دوسرے ممالک سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس اعلامیہ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ ہر ملک کو اپنے ہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے نمٹنا چاہئے اور اس حوالے سے دوسرے ملکوں کی خود مختاری کا احترام ضروری ہے۔ یہ مؤقف امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ملکوں کی حکمت عملی اور طریقہ کار سے بالکل مختلف ہے۔ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہا ہے اور مشرقی وسطیٰ کے متعدد ملکوں میں بھی وہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ عراق سے امریکی فوجوں کا انخلا سابق صدر باراک اوباما کے دور میں مکمل ہؤا تھا۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے غیر معینہ مدت تک افغانستان میں رہنے اور وہاں مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ برکس اعلامیہ بالواسطہ طور سے اس پالیسی کو مسترد کرتا ہے۔ پاکستان کو اس پہلو سے بھی اس اعلامیہ پر غور کرنا چاہئے تھا۔

برکس ممالک میں چین کے علاوہ، روس، جنوبی افریقہ، برازیل اور بھارت شامل ہیں۔ یہ پانچوں ملک دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل ہیں۔ دنیا کی پیداوار کا چالیس فیصد حصہ ان ملکوں میں پیدا ہو تا ہے۔ اسی طرح عالمی تجارت میں یہ بھی معیشیتیں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ خاص طور سے چین نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت تصادم کی بجائے تجارت اور تعاون کو فروغ دینے کا پیغام دیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی چین کی اسی پالیسی کا حصہ ہے ۔ اس طرح دنیا کے متعدد ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر اور مواصلت کے ذرائع کو فروغ دے کر چین لوگوں اور ملکوں کے درمیان تعلق اور مفادات کو فروغ دینے کی حکمت عملی پر گامزن ہے تاکہ تصادم کی بجائے مختلف خطوں کے عوام کی خوشحالی اور بہبود کے کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔

بعض ماہرین برکس کی اہمیت کے بارے میں شبہات کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن چین اور دیگر رکن ممالک نے چین کے شہر ژیامان میں مل بیٹھ کر اور عالمی معاملات پر واضح مؤقف سامنے لا کر یہ واضح کیا ہے کہ وہ باہمی تعاون کے ذریعے دنیا کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس بین الملکی معاشی اتحاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے برکس سربراہی اجلاس سے پہلے ڈوکلام میں چین کے ساتھ جاری سرحدی کشمکش کو ختم کرنے کے لئے متنازعہ علاقے سے یک طرفہ طور پر اپنی فوج واپس بلالی تھی۔ نریندر مودی حکومت کے اس اقدام کا مقصد صرف یہ تھا کہ وزیر اعظم مودی چین میں ہونے والی برکس کانفرنس کو کامیاب بنانے کے خواہشمند تھے اور ڈوکلام کے سرحدی تنازعہ کو اس اہم فورم کے کام میں رکاوٹ نہیں بنانا چاہتے تھے۔

چین کے صدر زی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان برکس کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں چین نے واضح کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ بقائے باہمی اور وسیع تر امن کے اصول کی بنیاد پر تعلقات کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ دونوں مدمقابل معیشتوں کے درمیان اثر و رسوخ اور تجارتی مفادات کے حصول کے حوالے سے مقابلے کی صورت حال بھی موجود ہے۔ امریکہ خاص طور سے بھارت کو بحر ہند اور جنوبی ایشیا میں چین کے مقابلے میں سامنے بھی لانا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے لیڈر یہ بھی جانتے ہیں کہ اس خطے میں دنیا کے ایک تہائی لوگ رہتے ہیں۔ ان کی بھلائی اور خوش حالی کے لئے باہمی مقابلہ بازی سے قطع نظر تصادم اور دشمنی سے بچنا ہوگا۔

ماضی میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے اور کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کے لئے امریکہ کا تعاون حاصل کرنے کی متعدد بارکوشش کی ہے۔ لیکن امریکہ نے کبھی اس معاملہ میں خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ اس کے برعکس وہ افغان جنگ میں پاکستان سے تعاون اور امداد کی توقع کرتا ہے لیکن دوستی اور معاشی و سیاسی تعلقات کی پینگیں بھارت کے ساتھ بڑھائی جارہی ہیں۔ دو ہفتے قبل صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے بارے میں جس پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں پاکستان کو مطعون کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعاون بڑھانے اور افغانستان میں اس کے کردار میں اضافہ کروانے کی بات کی گئی ہے۔ اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو برکس کے فورم پر بھارت اور چین کے درمیان تعاون کا فروغ پاکستان کے لئے بھی سہولت پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ چین بھارت کو سی پیک کی مخالفت ترک کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں جمی برف کو پگھلانے میں بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہوگا کہ اسلام آباد کی قیادت بھی حالات و واقعات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرے۔ پاکستان کو سارے معاملات کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے اتار چڑھاؤ کی روشنی میں دیکھنے اور یہ سمجھ لینے سے بچنا ہوگا کہ چین اور روس صرف ’امریکہ دشمنی‘ میں بہر صورت پاکستان کی بات سننے اور اس کا ساتھ دینے پر مجبور ہوں گے۔

دنیا کا ہر ملک سب سے پہلے اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے۔ اب یہ عام طور سے سمجھ لیا گیا ہے کہ دشمنی اور تصادم کی بجائے تعاون اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھتے ہوئے معاملات سے نمٹنا پڑتا ہے۔ اسی لئے چین اور روس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ اور کسی حد تک اشتعال انگیز بیانات کے باوجود امریکہ کے ساتھ تعاون اور رابطہ ختم کرنے کی بات نہیں کرتے۔ پاکستان کو بھی یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا اظہار اپنے قریب ترین حلیف ملک چین کے ہاں ہونے والے برکس اجلاس کے اعلامیہ پر تبصر کرتے ہوئے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پاکستان کی قیادت دو دہائیوں سے جاری اپنی ناکام سیکورٹی و خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے یا اس کے سخت فریم سے باہر نکل کر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتی ہے۔

برکس اعلامیہ کو مسترد کرنے اور یہ کہنے سے پہلے کہ پاکستان میں کوئی دہشت گرد گروہ موجود نہیں ہے پاکستانی پالیسی سازوں کو یہ جان لینا چاہئے تھا کہ اعلامیہ میں پاکستان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا بلکہ بعض ایسے گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں عام طور سے دہشت گردی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اگر وزیر دفاع یا وزارت خارجہ کے ترجمان یہ کہنا چاہتے تھے کہ لشکر طیبہ یا جیش محمد کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے تو انہیں نام لے کر واضح کرنا چاہئے تھا کہ پاک فوج کی کارروائی میں ان گروہوں کو ختم کیا جا چکا ہے۔ لیکن پاکستان بوجوہ ایسا دعویٰ کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے برعکس افغانستان کو داعش، جماعت الاحرار، پاکستان تحریک طالبان، مشرقی ترکمستان اسلامک موومنٹ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کا گڑھ قرار دے کر پاکستان کو لاحق خطرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن ان تبصروں میں افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ یا جماعت الدعوۃ، جیش محمد اور حزب التحریر کا ذکر کرنا مناسب خیال نہیں کیا گیا۔

انحراف کی اس حکمت عملی سے دنیا پاکستان کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھنا شروع نہیں کر سکتی۔ پاکستان کو برکس اعلامیہ پر مثبت طریقے سے غور کرنے اور اپنی ضد پر اصرار کرنے کی بجائے یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے تھی کہ اب اس کا قریب ترین حلیف ملک چین بھی ان گروہوں کا ذکر کرنے پر مجبور ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تصادم میں پاکستان کے لئے چین اور روس کی سفارتی مدد واحد سہارا ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن یک طرفہ اور عاقبت نا اندیشانہ پالیسی بیانات کے نتیجے میں اس دوستی میں بھی دوریاں پیدا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali