دیوانے، جنونی اور پاگل کے ساتھ کیا کریں؟


محض شوق سے کچھ نہیں ہوتا۔ شوق فیشن کی مانند ہے، جلد بدل جاتا ہے۔ کوئی بھی تعلیم، ہنر اور علم جذبے کے بغیر کار آمد نہیں ہوتا۔ ہم نے اکثر طلبا و طالبات سے سنا کہ انہیں نفسیات پڑھنے کا شوق ہے، اور اسی شوق کی بنا پر وہ سائکاٹرسٹ بننا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے اس شوق کے حصول میں کامیاب بھی ہو جا تے ہیں، لیکن جلد ہی یہ شوق ان کے اعصاب پر حاوی ہو جا تا ہے۔ اور ان کے مریضوں کی حیثیت محض ایک گاہک کی سی رہ جا تی ہے۔

پاکستان میں ہر پڑھے لکھے شخص کو نفسیات پڑھنے سے جتنی دلچسپی ہے اتنی ہی عدم دلچسپی اپنی یا دوسرے کی ذات میں پیدا ہونے والی ناہموار کیفیات سے ہے۔ اس کی وجہ ہمارے معاشرہ کا وہ عمومی رویہ ہے جو کسی بھی نارمل شخص کے معاشرے کی عام ڈگر سے ہٹنے کو نفسیاتی مرض قرار دے کر معاشرے کا غیر اہم فرد بنانے پر مصر رہتا ہے۔ ہر شخص وہی سننا چاہتا ہے جو اس کے کانوں کو بھلا لگے، اور نہ کہ ایسا ذہنی بیمار جس کے غصے، باتوں اور کیفیات میں عدم توازن اور بے ربطی ہو۔ اس سب سے گزر کر اگر سائکاٹرسٹ تک اپروچ ہو بھی جائے تو وہ مریض کو ابتدا میں ہی ایسے ہائی ڈوز دے دیتا ہے جس سے اس کی نیند غائب، ذہن سن، ہاتھ پاﺅں میں رعشہ اور کمر جھک جاتی ہے اور اسی کمزوری کے باعث نا تو اب وہ ٹھیک طرح بول پاتا ہے نا ہی گھر والوں سے لڑائی جھگڑا کرتا ہے، گھر والے بھی سکون میں اور سائکاٹرسٹ بھی مطمئن کہ اس کے رجسٹر میں ایک گاہک کا کم از کم دس سال کے لیے اضافہ ہو گیا۔

مریض کوایسی حالت میں کھلی فضا میں رہنا اچھا لگتا ہے لیکن ہم گھبراتے ہیں کہ کوئی مل گیا تومریض کے پاگل پن کی تشہیر ہو جائے گی۔ مریض کی بحالی ِ صحت سے زیادہ لوگوں کی الٹی سیدھی باتوں کی فکر میں مریض کو تنہائی کی سزا دی جاتی ہے جہاں اس کا مرض پاگل پن کی آخری حدوں کو تیزی سے چھونے لگتا ہے۔ کیوں کہ اضطرابِ اسیری جنوں کو مہمیز کر دیتا ہے۔ میر تقی میر نے یہ کیفیت واضح بیان کی۔

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

اس بے حسی کے دور میں اگر کو ئی شخص ہمیں نارمل اور پر سکون دکھا ئی دیتا ہے تو وہ بھکاری ہے یا پھر پاگل۔ ویسے ہر حساس اور غیرت مند شخص تھوڑا کم یا زیادہ ایب نارمل ضرور ہے، یہ الگ بات کہ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش میں ہم اور زیادہ حواس کھوتے جا رہے ہیں۔ اگر آپ محنتی، ایماندار اور حساس ہیں تو وحشت تو گردِ قدم رہے گی۔ پاکستان میں پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی اس مرض کو کسی جرم کی طرح چھپایا جا تا ہے، اس پر بات نہیں کی جاتی، اگر ہمارے کسی پیارے کی ذہنی حالت کسی واقعے، صدمے یا موروثیت کی وجہ سے ہمیں بہتر دکھائی نہ دے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں، کسی سے اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ اب یہاں پر مریض کے گھر والوں کے اعصاب کا امتحان شروع ہو جا تا ہے۔ اس امتحان میں زیادہ تر فیل ہو جاتے ہیں اور مریض کی کیفیت کو لاعلاج سمجھ کر غریب لوگ اسے پاگل خانے اور امیر اسے اچھی خاصی ماہانہ رقم کے عوض کسی ادارے میں چھوڑ دیتے ہیں۔

 مگر جن کے لیے ہم پاگل ہیں ان کے لیے کچھ تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔ اگرکوئی نفسیاتی پیچیدگی دیکھیں تو اس کے معمولات کا جائزہ لیں، اس کی بھوک، پیاس، نیند، بات چیت، اعضا کی حرکات، ہنسنا اور رونا نوٹس کریں، اگر وہ معمول سے زیادہ باتیں کر رہا ہے، زود رنج ہو رہا ہے، ماضی کے قصوں کو بیان کر رہا ہے غیر محسوس طریقے سے اس کے ساتھ رہیں اس سے باتیں کریں اس کے غیر معمولی غصے اور باتوں کو برداشت کریں وہ لڑکی ہو یا لڑکا اسے لیکچردینے سے گریز کریں اس کی ہاں میں ہاں ملائیں، اس کے ہر کام کو سراہیں اسے وقتی طور پر اپنا استاد سمجھیں یہ عام مریض کی تیمارداری سے ہٹ کر بڑا صبر آزما مرحلہ ہے، اپنے پیاروں کی بدلتی کیفیا ت اور مزاج کی ناہمواری میں اپنی ہمت، حوصلہ، صبر واستقامت اور ڈھیر سارا پیار شامل کریں اور اسے ایک مشن سمجھ کر اس سپاہی کی طر ح جُت جائیں جس کی مشقی ٹریننگ انتہائی سخت ہو تی ہے، دیکھیے گا آپ کا پیارا آپ کی توجہ اور اعتماد پا کرکیسے ایک نارمل ذندگی کی طرف لوٹتا ہے۔

خدا آپ کی مدد کرے گا۔ اس دوران آپ اسے سائکاٹرسٹ کے پاس لے جانے پر یقیناً آمادہ کرلیں گے۔ پاکستان میں اچھے سائیکاٹرسٹ کم یاب ہیں وہ اُسے محض آمدنی میں بڑھاوے کا سامان سمجھتے ہیں فوری ایڈمٹ کرنے کا مشورہ دیں گے یا پھر ہائی ڈوز دے کر اسے سلانے کی کوشش کریں گے۔ اگر حالت میں مزید تیزی آئے تو الیکٹرک شاکس دلوائے جاتے ہیں سائکاٹرسٹ کی تجویز کردہ ہائی ڈوز کے سبب مریض کے دل کی دھڑکن بے قابو ہو جاتی ہے وہ حد سے زیادہ لاغر ہو جا تا ہے۔

آپ کو ایک سائکاٹرسٹ کا کردار ادا کرنا ہے۔ تجویز کردہ دواﺅں سے آپ خود اس کی زندگی اور صحت کو خطرے میں محسوس کریں توپھر انہیں کم کرتے چلے جائیں، ہاں کچھ مریضوں کو ایک آدھ دوا یا انجکشن تو ساری عمر لینا ہی پڑتا ہے لیکن وہ ایک نارمل انسان کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔

عام بیماریوں کی طرح ذہنی امراض کی بھی اقسام ہیں کسی کے مرض میں شدت ہے اور کوئی معمولی نوعیت کے مرض میں مبتلا ہے لیکن ہمارے سائکاٹرسٹ نے کبھی کسی معمولی یا شدید نوعیت والے مریض کو مکمل طور پر ٹھیک نہیں کیا، کیوں ؟ کیا نفسیاتی مرض قابلِ علاج نہیں؟

دس سال پہلے کی بات ہے میری بہن نے مجھے بتایا کہ اس کی دیورانی گھر کی چیزیں، چینی، پتّی، خشک دودھ، گرم، مصالحے وغیرہ ادھر ادھر چھپا دیتی اور میاں سے ان چیزوں کے ختم ہو نے کا رونا روتی اس کا میاں اتنی جلد راشن ختم ہونے پر غصہ کرتا تو شور مچاتی، اس کی حالت میں تیزی سے شدّت آ رہی تھی ساری رات شور مچاتی شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی۔ جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے اسے نفسیاتی معالج سے علاج کرانے کا مشورہ دیا لیکن سسرال والوں کا خیال تھا کہ وہ ڈرامہ کرتی ہے، بدتمیز اور آوارہ ہو گئی ہے اسے کوئی بیماری نہیں گھر بھر کا سکون برباد ہو گیا۔ بچے بھی ماں سے تنگ آ گئے تو اس کا شوہر اسے بھائی کے گھر چھو ڑ آیا۔ وہاں بھی سب کی زندگی اجیرن کیے رکھی، گلیوں میں بھٹکتی پھرتی، حد سے زیادہ مذہبی ہو گئی، درس دیتی پھرتی، کسی بھی وقت اور کہیں بھی نماز پڑھنا شرع کر دیتی، محلے کے لوگوں میں اب اس کی قدر و منزلت بڑھ گئی تھی لوگ اس سے دعا کرانے آنے لگے، بھا ئی اور بھابی بھی اب اسے ڈرامہ سمجھنے لگے تھے، پانچ چھ ماہ اس کی یہ ہی کیفیت رہی مگر پھر وہ آہستہ آہستہ نارمل ہو نا شروع ہوئی اور اپنے بچوں کے پاس آ گئی۔

مجھے نفسیاتی امراض کی قسموں کا تو علم نہیں لیکن میرے ملنے جلنے والوں میں، میں نے جتنے بھی مریض دیکھے ان سب میں صنف مخالف کی طرف سیکس کے رجحان میں بہت شدت دیکھی۔ ایک مریضہ کی ماں مجھ سے انتہائی کرب اور بے بسی سے کہنے لگی کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں خود کسی لڑکے سے کہوں کہ میری بیٹی کو پرسکون کر دو۔ کیا نفسیاتی امراض کے ڈاکٹرز، مریض کی صنفِ مخالف کی طرف بڑھتی کشش سے واقف نہیں۔ ایک لیڈی سائکاٹرسٹ نے اپنے ایک مریض کو اس لیے پٹوا دیا کہ اس نے اس کے ہونٹوں کی تعریف کر دی تھی۔

ہر گل بدن کو تکنا آنکھوں سے چوم رکھنا

دیوانگی ہماری حد سے گزر گئی ہے

میرے گھر میں کام کرنے والی سکینہ کی بیٹی کو یہ مرض ہوا تو میں نے اسے لاکھ سمجھایا کہ اسے کسی نفسیاتی معالج کو دکھاﺅ لیکن وہ اسے جن نکالنے والے ”اسپشلسٹ“ اور جادو ٹونے اور تعویزوں والے ”اسکالر “ کے پاس لے گئے اور وہ جوان لڑکی چار ماہ علاج کے بعد ٹھیک ہو گئی بیماری کے دوران اس کی مردوں میں بڑھی ہوئی دلچسپی کے پیشِ نظر اس کی شادی کر دی گئی، اب وہ گاﺅں میں ہے لیکن جب کبھی اس پر جنون کا دورہ پڑتا ہے اسے سکینہ لے آتی ہے اور یہاں تعویز گنڈے، دم درود کے بعد جب اس کی طبیعت میں ٹھہراﺅ آتا ہے اسے دوبارہ سسرال چھو ڑ دیا جا تا ہے۔

کالج میں تدریس کے دوران ایک اٹھارہ انیس سال کا طالب علم طویل غیر حاضری کے بعد آیا تو وہ بوڑھوں کی مانند چل رہا تھا اس کے ہاتھ پاﺅں میں رعشہ تھا اور زبان میں لکنت تھی، اس کی ماں مر چکی تھی اور وہ کراچی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے چچا کے پاس رہ رہا تھا۔ اسے نجانے کیسے پتہ چل گیا تھا کہ میرے بھی بہت قریبی عزیز اس بیماری میں مبتلا رہ چکے ہیں اس لیے وہ اپنے چچا کے ساتھ لڑ جھگڑ کر میرے پاس آیا تھا، میں نے اس بچے سے دوائیں پوچھیں اس نے کافی ساری دوائیں مجھے بتائیں جو اسے ڈاکٹر نے تجویز کی تھیں اس کا چچا مسلسل اس کے رویے کی شکائت کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ اسے اس کے گاﺅں بھیج دے گا جب کہ وہ بچہ کراچی میں پڑھنا چاہتا تھا۔ مجھے چچا کو سمجھانے میں وقت تو کافی لگا لیکن اس بات پر کہ وہ صبر سے کام لیں وہ ٹھیک ہو جائے گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے اپنے بچے کو یہ مرض ہو جائے تب کیا آپ اس کے ساتھ بھی یہ ہی کریں گے؟

دلاور کے گھر میں تین افراد کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہے، اور ان تین نے سارے گھر کے اعصاب کو متاثر کیا ہوا ہے دلاور خاصا نارمل تھا، اس کی بہنوں نے اس کی شادی کر دی تھی لیکن وہ اپنی اچھی خاصی خوب صورت بیوی کو بدصورتی کا طعنہ دیا کرتا تھا، اس کی بیوی آخر میکے جا کر بیٹھ گئی اس کا بھا ئی قیس ہائی ڈوز کی وجہ سے اپنے سارے دانت گنوا بیٹا ہے، دلاور کی ایک بہن بھی شادی کے بعد بس نہ سکی اور میکے بیٹھ گئی وہ اب بھی اپنے شوہر کا ذکر بڑی محبت سے کرتی ہے اسے خود سمجھ نہیں آتا کہ آخر اس کا شوہر اسے لینے کیوں نہیں آتا۔

مجھے اپنی ایک دوست کانتا بھاٹیا یاد آرہی ہے۔ وہ بڑی پڑھاکو تھی، میڈیل کالج کے پہلے سال ذہنی دباﺅ کا شکار ہوئی، والدین اسے لندن لے گئے، پتہ چلا اور حالیہ تحقیق بھی یہ کہتی ہے کہ کالج کے پہلے سال کچھ طلباء ذہنی دباﺅ محسوس کرتے ہیں۔ بیرون ملک تو ان کے اس دباﺅ کو مناسب انداز سے ٹریٹ کیا جا تا ہے۔ اب وہ نہ صرف نارمل ہے بلکہ بہترین گائنا کالوجسٹ ہے، لیکن اگر اس کے مسئلے کو روائتی انداز سے ہینڈل کیا جا تا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیا ہو تا۔

میں نے ایسے مریضوں کو بھی جلد نارمل ہوتے دیکھا جن کی سائکاٹرسٹ تک اپروچ نہ ہو سکی اور وہ تعویز گنڈوں اور بابوں سے ہی ٹھیک ہو گئے۔ دوبارہ ان کی ذہنی رو بہکی تو دوبارہ یہ ہی عمل دہرایا گیا، مگر ایسے مریضوں کا ان گناہ گار کانوں نے نہ تو پاگل خانے جانے کا سنا نہ ان آنکھوں نے انہیں کسی بوڑھے کی مانند لرزتے دیکھا۔

ڈاکٹر خالد سہیل خود ایک حساس انسان ہیں، ایک ترقی یا فتہ ملک میں رہتے ہیں جہاں مریض کے گھر والوں کو مریض کے ساتھ برتا ﺅ کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے، پاکستان میں تعلیم کی کمی، دوغلے معیارات، اور معاشی کشمکش کی وجہ سے اس مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے پاکستان میں اس مرض کے ماہرین کو اپنے طریقہ علاج میں تبدیلی لا نی ہو گی، ایک ہمدرد انسان بننا ہو گا، نفسیاتی مریض کے رشتے داروں کی تربیت کرنی ہو گی، اسے گاہک نہیں، مہمان کی طرح برتیں۔ اگرآپ کے طریقہ علاج سے لوگوں کی تشفّی ہوئی تب آپ کے مریضوں میں بھی اضافہ ہو گا ورنہ آپ کا گاہک گدو بندر چلا جائے گا آپ کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔

میں نے اپنے ذاتی تجربے میں کی روشنی میں دو قسم کے مریضوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک وہ جنہوں نے علاج نہیں کرایا اور کسی حد تک نارمل اور صحت مند زندگی گزار رہے ہیں اور ایک وہ جنہوں نے نفسیاتی معالج سے رجوع کیا اور آج تک بیماری اور معالج کے چنگل میں پھنسے ہوئے ایک مفلوج، کمزور اور کپکپاتی زندگی کو اپنی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر جی رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لاشوں کا احترام اوران کی تکلیف کا بہت خیال کیا جا تا ہے، مگر خدارا ان چلتی پھرتی لاشوں کا اس وقت تک خیال کر لیں جب تک یہ دفن نہیں ہو جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).