سائنس بھی کہاں سے کہاں پہنچ گئی


کوئی بھی عقیدہ ہو اس کا اپنا الوہی و مادی نظامِ حقائق و دلائل ہوتا ہے اور یہ نظام غیر مشروط قبولیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب کہ سائنس کا علم خالصتاً مادی بنیاد پر حقائق کی جستجو کا نام ہے۔ اسی لیے اپنی جگہ پر قائم عقائد کے برعکس سائنس ہمیشہ رد و قبول کی گردشی کسوٹی پر چڑھی رہتی ہے۔

عقیدے میں سوال کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے جب کہ سائنس کی تو غذا ہی ہر آن سوال اٹھانا ہے۔ لہذا جب کوئی الوہی عقیدے کو مادی سائنس سے خلط ملط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں جنم لینے والے کنفیوژن کا حتمی نقصان بالآخر عقیدے اور سائنس کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں مجھ جیسے ناسمجھوں کے لیے یہ بات سمجھنا خاصا مشکل ہے کہ انسان تو ہندو، یہودی، عیسائی اور مسلمان ہو سکتا ہے۔ سائنس ہندو، یہودی، عیسائی اور مسلمان کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنسدان کے لیے لا مذہب ہونا ضروری ہے۔

جابر بن حیان، عمرِ خیام، ابن الحیثم، البیرونی، ادریسی، نظام الملک طوسی اور ابنِ سینا جدید سائنس کے عظیم ستون بھی تھے اور نماز روزے اور دیگر عبادات کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ آریا بھٹ، لگادھا، بھاسکر، بدھیانہ، اچاریہ چنداسترا وغیرہ پراچین ہندوستان میں علمِ فلکیات، ریاضی، لسانیات، علم الابدان، طب اور دھات سازی کی تحقیق میں جھنڈے بھی گاڑ رہے تھے اور مندر میں دیوتاؤں کے چرن بھی چھوتے تھے۔ نیوٹن کششِ ثقل پر بھی کام کر رہا تھا مگر چرچ جانا بھی نہیں بھولتا تھا۔ آئن اسٹائن نے کبھی نہیں کہا کہ اس کا نظریہِ اضافت تورات کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ان سب عظیم سائنسدانوں نے عقیدے اور لیبارٹری کو دل میں ساتھ ساتھ اور دماغ میں الگ الگ رکھا۔

مگر جو کام کل تک نہیں ہوا وہ آج ہو رہا ہے۔ جو بھارت مریخ پر خلائی جہاز بھیج رہا ہے اسی بھارت کا وزیرِ اعظم یہ بھی کہہ رہا ہے کہ گنیش جی کے جسم پر ہاتھی کا سر ثابت کرتا ہے کہ یہ کام ہزاروں برس پہلے کسی پلاسٹک سرجن نے کیا ہو گا۔ ریاست گجرات میں ماہرِ تعلیم جگدیش بترا جی کی جو کتابیں اسکولوں میں پڑھائی جا رہی ہیں ان میں بتایا جا رہا ہے کہ مہا بھارت کے زمانے میں موٹر کار کیسے ایجاد ہوئی؟

گزشتہ ہفتے ہی ممبئی یونیورسٹی میں پانچ روزہ عالمی سائنس کانفرنس میں بھارت اور بیرونی دنیا کے لگ بھگ بارہ ہزار محقق اور سائنسدان شریک ہوئے۔ افتتاحی اجلاس میں مرکزی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی ہرش وردھن نے شرکا کو اپنے گیان سے سمانت کرتے ہوئے کہا کہ الجبرا کے ابتدائی اصول بھارت ورش میں مرتب ہوئے لیکن عربوں نے جب الجبرا پر دعویٰ بولا تو ہم چپ بیٹھے رہے۔ ریاضی کا فیثا غورث تھیوریم ہزاروں سال سے بھارت میں استعمال ہو رہا ہے مگر اسے یونانیوں نے جانے کیوں اپنے نام سے مشہور کر دیا۔

اسی کانفرنس میں ایک سیشن قدیم سنسکرتی سانئنسی نظریات کے عنوان سے منعقد ہوا۔ پراچین ہندوستان میں ہوابازی کے بارے میں پائلٹ ٹریننگ اسکول کے سابق پرنسپل کیپٹن آنند بوڈرس نے اپنے مقالے میں بتایا کہ مہا رشی بھردواج نے سات ہزار سال پہلے لکھا ہے کہ بھارت میں ساٹھ فٹ سے دو سو فٹ تک چوڑے طیارے اڑتے تھے۔ بڑے جہازوں میں چالیس چھوٹے انجن نصب تھے۔ یہ طیارے دوسرے دیشوں تک بھی اڑان بھرتے تھے اور ریڈار کے لیے قدیم سنسکرت میں روپر کن رہسیا کا شبدھ تک موجود ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں امریکا کے بعد سب سے زیادہ سائنسدان بتائے جاتے ہیں۔ جہاں سائنسدانوں کی ایسوسی ایشن ایک سو دو برس سے قائم ہے اور لگ بھگ تیس ہزار سائنسی ماہر اس کے رکن ہیں اور جہاں انیس سو بارہ سے سالانہ قومی سائنس کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ یہ بات اب سے پہلے کیوں کسی بھارتی سائنس فورم پر دھڑلے سے نہیں ہوئی کہ سات ہزار سال پہلے بھارت میں پلاسٹک سرجن بھی تھے، موٹر کار بھی تھی، جہاز بھی اڑ رہے تھے۔ یہ سب نریندر مودی سرکار میں ہی کیوں سامنے آ رہا ہے؟

چونکہ مودی کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس اور آر ایس کی طفیلی تنظیمیں ہر شے ہندوئیت کے آئینے میں دیکھنے کی عادی ہیں لہذا وہ ہر شعبے کو اپنے نظریے سے جوڑ کے دکھانے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ جہاں عقلی مباحثہ اس سطح پر آ جائے کہ بی جے پی کے ایک رکنِ پارلیمان یوگی ادتیا ناتھ انکشاف کریں کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ہندو ہوتا ہے بعد میں اس کا دھرم زبردستی بدلوا دیا جاتا ہے اور اس کے جواب میں مجلسِ اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی یہ دعویٰ کریں کہ دراصل ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے۔

ایک اور رکنِ پارلیمان یہ انکشاف کریں کہ راون دراصل دلی کے نزدیک غازی آباد میں پیدا ہوا اور ایک صاحب اٹھ کے کہیں کہ تاج محل ایک مندر کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور انڈین ہسٹری کمیشن کے موجودہ چیئرمین یہ فرمائیں کہ جو بھی ویدوں میں ہے وہ کوئی علامتی قصے نہیں بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی حقیقت میں ہوا بھی ہے۔ لہٰذا رامائن کے ہوتے ہمیں کسی اور کھوج اور تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ایسے ماحول میں اگر سات ہزار سال پہلے جہاز اڑایا جا رہا ہے تو حیرت کیوں؟

بھارت پر تو یہ وقت آج پڑا ہے۔ پاکستان تو اس مرحلے سے چھتیس چونتیس برس پہلے ہی گزر چکا۔ پاکستان میں سائنس کانفرنسیں انیس سو اڑتالیس سے ہو رہی ہیں۔ لیکن جس طرح کی تحقیق ضیا دور میں ہوئی نہ پہلے ہوئی نہ بعد میں۔ اس دورِ تحقیق کو ماہرِ فزکس پرویزہود بھائی سمیت بہت سے اصحابِ سائنس نے سمیٹنے کی کوشش کی۔
مثلاً پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینئر سائنٹسٹ ڈاکٹر بشیر الدین محمود نے انیس سو اسی میں یہ نظریہ پیش کیا کہ چونکہ جنات آگ سے بنے ہیں لہذا انھیں قابو میں لا کر ان سے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔

جنرل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ان دی اسلامک ورلڈ میں ڈاکٹر صفدر جنگ راجپوت نے اپنے تحقیقی مقالے میں بتایا کہ جنات دراصل میتھین گیس سے بنتے ہیں۔ میتھین نہ صرف بے ذائقہ و بے بو ہے بلکہ اس کے جلنے کے عمل میں دھواں بھی نہیں اٹھتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنات وجود رکھتے ہوئے بھی عام لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جنات سفید فام ہوتے ہیں ( اگرچہ دکھائی نہیں دیتے)۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف سائنس اینڈ سائنٹفک پروفیشنلز نے جون انیس سو چھیاسی میں قرآن اور سائنس کے موضوع پر جو بین الاقوامی سیمینار کروایا اس میں پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کے ایک سرکردہ ماہر ڈاکٹر ارشد علی بیگ نے اپنے تحقیقی مقالے میں معاشرے میں منافقت کی مقدار ناپنے کا فارمولا پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ ان کے تیار کردہ اسکیل کے مطابق مغربی معاشروں میں منافقت بائیس کے اسکیل پر ہے اور اگر انفرادی مطالعہ کیا جائے تو اسپین اور پرتگال وغیرہ میں سماجی منافقت چودہ اسکیل پر ہے۔ ڈاکٹر صاحب شاید وقت کی کمی کے سبب پاکستانی سماج کا منافقت اسکیل نہ بتا پائے۔

خلائی ریسرچ کے ادارے سپارکو کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم محمود کے مقالے کا موضوع تھا۔ آئین اسٹائن کا نظریہِ اضافت اور واقعہِ معراج۔
اکتوبر انیس سو ستاسی میں جو اسلامک سائنس کانفرنس منعقد ہوئی اس میں ستر کے لگ بھگ مقالے پڑھے گئے۔ چھیاسٹھ لاکھ روپے کا صرفہ حکومتِ سعودی عرب نے برداشت کیا۔ اس کانفرنس میں جرمنی سے تشریف لائے ایک ماہرِ ریاضی نے فرشتوں کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم کرنے کا فارمولا پیش کیا۔ جب کہ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ایم ایم قریشی نے وہ طریقہ بتایا جس کے ذریعے ایک نماز کا ثواب کیسے کیلکولیٹ کیا جا سکتا ہے۔

ضیا دور میں ہی طبِ یونانی طبِ اسلامی ہوئی اور اب یہی طبِ اسلامی ہے۔
ضیا کے بعد کی حکومتوں نے اس نوعیت کی تحقیق کی کماحقہ حوصلہ افزائی نہیں کی۔ چنانچہ اس کا فائدہ پڑوسی ملک نے یوں اٹھایا کہ جو گران قدر کام پاکستان میں سائنس کمیونٹی نے انیس سو اٹھاسی میں چھوڑا تھا۔ اسی کوچھبیس برس کے وقفے سے مودی حکومت کی سائنسی سوچ نے چند ہی ماہ میں اس قدر آگے بڑھا دیا کہ کون جانے مودی حکومت کے پانچ برس مکمل ہونے تک وید اور رامائن کے بارے میں پتہ چلے کہ یہ تو دراصل دنیا کے اولین سائنس جرنلز ہیں۔
جمعـء 9 جنوری 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).