رہائی کے لئے ایک نظم
عشرت آفریں
اسیر لوگو اُٹھو
اور اُٹھ کر پہاڑ کاٹو
پہاڑ مردہ روایتوں کے
پہاڑ اندھی عقیدتوں کے
پہاڑ ظالم عدالتوں کے
ہمارے جسموں کے قید خانوں میں
سینکڑوں بے قرار جسم
اور ….اُداس روحیں سسک رہی ہیں
ہم اِن کو آزاد کب کریں گے
ہمارا ہونا ہماری اِن آنے والی نسلوں کے واسطے ہے
ہم اِن کے مقروض ہیں
جو ہم سے وجود لیں گے
نمود لیں گے
کٹے ہوئے ایک سر سے لاکھوں سروں کی تخلیق
اب کہانی نہیں رہی ہے
لہو میں جو شے دھڑک رہی ہے
گمک رہی ہے
ہزاروں آنکھیں
بدن کے خلیوں سے جھانکتی بے قرار آنکھیں
یہ کہہ رہی ہیں
اسیر لوگو
جو زرد پتھر کے گھر میں یوں بے حسی کی چادر لپیٹ کر
سو رہے ہیں
اُن سے کہو
کہ اُٹھ کر پہاڑ کاٹیں
ہمیں رہائی کی سوچنا ہے
Latest posts by میری نگاہ میں (see all)
- وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف - 03/04/2024
- تم کیا ہو؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو ؟ - 10/04/2023
- بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں: نصرت نسیم کی خود نوشت - 06/02/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).