بنگلا دیشی روہنگیا کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟


جمیل خان نوجوان ہیں۔ انہوں نے ماسکو سے صحافت کی نئی قسم ” موبائل جرنلزم” میں ہی ایچ ڈی کی ہے اور اس وقت بنگلہ دیش کے ایک بڑے میڈیا ہاوس میں بطور ” موبائل جرنلزم سپیشلسٹ” تعینات ہیں۔

 میں نے ان سے روہنگیا کے بارے میں لوگوں کے خیالات پوچھے تو انہوں نے بتایا:

Here mostly want UN intervention by declaring Rakhaine a safe zone.

یہاں اکثریت چاہتی ہے کہ اقوام متحدہ مداخلت کرے اور رکھاین کو ایک محفوظ خطہ قرار دے۔

 People don’t want that Bangladesh should take more Rohingha refugees as already here living 3 lakhs Rohinga۔

 لوگ نہیں چاہتے کہ بنگلہ دیش مزید روہنگیا مہاجروں کو قبول کرے۔ یہاں پہلے ہی ان کی تعداد تین لاکھ ہے۔

Giving a shelter in Bangladesh is not a permanent solution of such minority Muslim community.

 بنگلہ دیش میں ( روہنگیا کو ) پناہ دینا اس قسم کی مسلمان اقلیتی برادری کے ( معاملے ) کا مستقل حل نہیں ہے۔

 World leaders should come forward to talk on this vulnerable issue۔

 اس نازک مسئلے پر مذاکرات کرنے کے لیے عالمی رہنماوں کو آگے آنا چاہیے۔

These are the common thoughts here in Bangladesh۔

 یہ بنگلہ دیش میں لوگوں کے عمومی خیالات ہیں۔

 ( یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں روہنگیا کے معاملے پر کوئی خاص جوش نہیں پایا جاتا، اگرچہ یہ برادری نسلی طور پر بنگالی ہے مگر ایک صدی سے زیادہ عرصے کی علیحدگی انہیں “اپنے” کی جگہ “غیر” بناتی ہے )

 پاکستان میں بالخصوص سوشل میڈیا پر تشدد کی وحشت ناک وڈیوز پھیلا کر ہیجان پھیلایا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اگر روہنگیا کی اکثریت مسلمان نہ ہوتی، روہنگیا مسلمانوں، ہندووں اور عیسائیوں پر مشتمل مخلوط برادری ہے، تو ان پر ظلم توڑا جانا کوئی زیادہ قابل ذکر تردد نہیں تھا۔

دنیا میں انسانوں کے ساتھ جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے وہ قابل مذمت ہے اور اسے روکنا عالمی برادری کا فرض اور عالمی رہنماوں کی ذمہ داری ہے لیکن کسی خاص برادری کے حق میں بات کرتے ہوئے حقائق سے پہلو تہی کرنا عقلمندی قرار نہیں پاتی۔

جمیل خان نے ماسکو کی پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی سے صحافت میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ یونیورسٹی میں صحافت کے لیکچرر رہے۔ ساتھ ہی ریڈیو وائس آف رشیا کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا میں بنگالی سیکشن کے انچارج بھی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).