رومانوی نوجوانوں کو شدت پسند بناتی روہنگیائی ویڈیوز


انسان سماج سے متعلق رہنا چاہتا ہے۔ تبادلہ، رحم، ایثار اور غم غصہ وغیرہ کے جذبات اس کی ضرورت ہیں جبکہ نت نئے موضوعات میڈیا کی ضرورت۔

سو چند دن میں روہنگیا کسی آئل ٹینکر تلے جل کر بھسم ہو جائے گا مگر اکیسویں صدی میں ماؤں کے سامنے ان کے لخت جگر چیر دینے کی سفاک ویڈیوز نے اس سماج پسند انسان کی نفسیات پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ بالخصوص نوجوان کہ جو سرمایہ دارانہ چکا چوند کے پیدا کردہ غیر ضروری تحرک، تبدل اور تغیر کی بدولت بنیادی مطالعہ اور حتمی رائے سے محروم ہیں تاہم عدم تربیت کے باوجود وہ سیاست میں سرسری نظر اور چڑچڑے عمل کے ہی سہی، ہنوز قائل مائل دکھائی دیتے ہیں۔ جھنڈا، کرسی، نعرے، تبدیلی، چندہ، تلاش، بحث، جھگڑے سے سے سر پٹکتی کھولتی بولتی باغی نسل نو۔

ان مناظر نے، دوسری طرف، مذہب، روایت اور قومیت سے جڑی دائیں طرف رہنے والی اس نسل نو کو بھی ٹھیک ٹھاک متاثر کیا ہے جن کے لیے موجودہ چنگیزی سیاست محض رات آٹھ سے گیارہ کے شو میں چنگھاڑتے جذباتی دلائل ہیں یا پھر ہوٹل اور کینٹین کی دیوار پر لکھا یہ جملہ کہ
’یہاں سیاسی بحث کرنا منع ہے‘
المیہ ہے۔

ہر پانچ سات برس بعد ایسا کوئی واقعہ یا عمل جذباتی نوجوانوں کو دکھ، درد، کرب سے گزارتا ہے اور مطالعہ مشاہدہ، مکالمہ اور عام فہم تجزیہ نہ ہو سکنے کے سبب، بدقسمتی سے، انہیں مزید ’شدت پسند‘ بنا جاتا ہے۔ کبھی فلسطین سلگتا ہے تو کبھی بوسنیا، کہیں کشمیر روتا ہے تو کہیں صومالیہ عراق، کہیں سوڈان، کہیں افغانستان۔ بس نظر میں نہیں تو اپنا پاکستان!

آج کل یہ ایمانی حدت روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم و ستم سے بہم پہنچ رہی ہے اور پہنچنی چاہیے بھی کہ انسانوں کو مذہب، نسل اور جغرافیے پہ لال بیگوں کی طرح کچل دینا اکیسویں صدی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔

سو منظر یہ ہے کہ سکولوں، یونیورسٹیوں، مسجدوں، مدرسوں میں تلاوت و نعت کے بعد دعائیہ تقاریب میں سسکتے روتے ان کروڑوں لڑکوں لڑکیوں کے خیال میں، مذہبی اینکرز و مقدس پیشوا تو برما میں کٹتے پھٹتے ان معصوم لوگوں کے لیے فوری قدم اٹھانا چاہتے ہیں مگر حکمران چونکہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں اس لیے اپنے سامنے معصوم بچیوں کو محمد بن قاسم کے انتظار میں رزق خاک بنتا دیکھ رہے ہیں۔

رسم دنیا کے مطابق، میڈیا پر یہ موضوع رزق خاک بن بھی جائے، ان کروڑوں ’تعلیم یافتہ‘ ذہنوں میں یہ سوال ضرورچھوڑ جائے گا کہ ہم اپنے ان مسلمان بہن بھائیوں کو جلتا مرتا دیکھ کر بھی ان کی مدد کیوں نہیں کر پائے جبکہ امت مسلمہ کے پاس ساٹھ ملک ہیں، تیل گیس ہے، ایٹم بم ہے، فوج ہے۔ علی ہذا القیاس۔

یہ تحریر ایسے واقعات کے محرکاتی تجزیے یا شماریاتی موازنے کے بجائے اسی ’خام استفہامی نسل‘ کے لیے چند بنیادی نوعیت کے سوالات لیے ہوئے ہے جو ان مظالم کی تحریر و تصویر دیکھ دیکھ کے جلتے ہیں۔ خود میری طرح!

سوال1۔
مکہ مکرمہ کی بیس فیصد آبادی روہنگیا نسل سے ہے اور کلیدی حیثیتوں میں رہ چکی ہے۔ اسی مقدس ملک کے پاس چونتیس اسلامی ملکوں کی عسکری افواج کی سربراہی بھی ہے۔ ابھی ہفتہ پہلے ہی بیس لاکھ مسلمانوں کی آمد سے کئی ارب ڈالر کی آمدن بھی ہوئی ہے۔ ملکہ سبا کے تاریخی یمن پر چڑھائی کر دینے والا، امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار یہ ملک اگر میانماری ظلم پر خاموش ہے تو یقینا اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وہ برما کی پشت پر کھڑے چین و روس سے ڈرتا ہے۔
اگر سعودیہ بھی ڈرتا ہے تو پھر وہ اسلامی ممالک کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ اور اگر معاملہ خوف کا نہیں، بے حسی اور تعصب کا ہے تو کلمہ گو پر حملہ اور ’کفار‘ کے سامنے بریشم جیسی نرمی کیا یہ صاف پیغام نہیں دیتی کہ عہد جدید میں مذہبی بنیاد پر اکٹھ یا نمائیندگی سوائے نرگسی اکڑفوں اور انفرادی فوائد کے کوئی حقیقی شے ہے ہی نہیں؟

سوال نمبر2۔
کیا واقعی ان برمی مسلمانوں نے دو قومی نظریے پر سن انیس سو سینتالیس میں ’قائد اعظم‘ سے اپیل کی تھی کہ ہمیں (مشرقی)پاکستان سے الحاق کرنے کی اجازت دی جائے مگر قائد نے یہاں مذہبی اکثریت کی بے چینی اور ہم نوائی کے باوجود اسے برما کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر ان کی مدد سے انکار کر دیا تھا؟
مسٹر جناح جیسے دوراندیش کا دو قومی نظریہ کو بنیاد بنانے کے باوجود مذہبی و ملی جذباتیت کی عالمی دلدل سے بچنا اور برما میں جاری کشمکش سے سے الگ رہنا قوم کے لیے ایک حقیقت پسندانہ پیغام نہیں تھا؟

سوال نمبر 3۔
برما کے پولیس سٹیشنز اور فوجی یونٹس پر مسلم عسکری جنگجوؤں کے حملوں کو ہمارا عادی سماج تو ’ تنگ آمد بجنگ آمد‘ جیسی جذباتی رعایت دے دسکتا ہے، عالمی سماج ہرگز نہیں۔
بارعب ناموں والی عسکریت پسند تنظیموں سے بے بس روہنگیا عوام پر تو رعب پڑ سکتا ہے، دنیا پر نہیں۔ امریکہ، یورپ کے بعد اب، جب چین، روس تک بھی انتہا پسند تنظیموں پر فوری پابندی کی بات کر رہے ہیں تو کیا ایسے میں روہنگیا مسلمانوں کی امداد کے لیے شدت پسند اور عسکریت نوازتنظیموں کی مالی امداد ان کے لیے اور خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرے گا یا آسانی؟

سوال نمبر4۔
برما کے پڑوس میں بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان میں جماعت اسلامی کا نظریہ اور ورکر اب بھی موجود ہے۔ لشکر طیبہ، جیش محمد، جماعت اسلامی سمیت دیگر بنیاد پرست تنظیمیں کھالیں مانگ کر ان بے بس ’کھالوں‘ کی مدد کے بجائے جہاد کشمیر، جہاد افغانستان جیسا ایک اور آپریشن ’جہاد میانمار‘ کیوں شروع نہیں کرتیں؟
اگر وہ ایسا نہیں کر رہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچھلے دو تین عشروں میں ان تنظیموں نے جتنے بھی جہاد کیے، وہ اس وقت کی ریاستی مشینری کی سرپرستی اور رضامندی کے ساتھ تھے اور مقصد مواخات نہیں، مفادات تھا؟

سوال نمبر 5۔
مولانا عزیز، مولانا طاہر قادری، مولانا فضل الرحمان، مولانا طارق جمیل، مولانا خادم حسین، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا ناصر عباس، مولانا زید حامد، مولانا ’اوریا ہارون عباسی‘ سمیت حرمت اسلام پر مر مٹنے کے عالی قدر بیانات دینے والے سب زعمائے ملت کہاں ہیں۔
یہ سب حضرات خود کو اس سماج کا انجن کہتے ہیں۔ خود چلیں گے تو باقی ڈبے پیچھے ہوں گے۔ ان میں سے کس نے اور کچھ نہ سہی، اسلام آباد میں برما سفارت خانے کے سامنے بھوک ہڑتالی یا کم از کم احتجاجی کیمپ کا ہی اعلان کیا ہے؟

سوال نمبر6۔
میانمار کے وحشیانہ فوجی مظالم دکھانے والے قومی میڈیا نے کیا اپنے دیس میں جاری نسلی، مذہبی مسلکی تعصب و وحشت پر دس فیصدی وقت بھی دیا؟
انہیں چھوڑیے کیا مدنی چینل، کیو چینل، اذان ٹی وی، پیغام ٹی وی، ہدایت چینل، ہادی چینل اور بیسیوں دوسرے مذہبی پلیٹ فارمز پر ان مسلمانوں کے لیے جذباتی آہ و بکا اور دعا کے علاوہ مقتدر مذہبی شخصیات کا لائحہ عمل، پلان وغیرہ سامنے آیا؟ کسی قسم کے ٹھوس اقدامات یا کم از کم پیغامات وغیرہ ہی سامنے آئے؟ اگر نہیں آئے ہیں تو اس کا مطلب کیا یہ ہوا کہ میڈیا پر اگر ہر شے ایک پراڈکٹ ہے تو سادہ لوحوں کی مذہبی عقیدت بھی ایک پراڈکٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی؟ اور اسے اپنے تیقن، اپنی سرمستی و سرخوشی سے نکال کر دیگر افراد پر نافذ کرنے کی خواہش نری خام خیالی ہے۔ ؟

سوال نمبر 7۔
عدم تشدد کے علمبردار بدھسٹ آخر روہنگیا مسلمانوں سے اتنا الرجک کیوں ہیں۔ کیا ان کے بھڑکنے کی وجہ ان کے اہل و عیال پر مبینہ پرتشدد حملے تو نہیں جنہیں ہمارے میڈیا پر رپورٹ نہیں کیا جا سکا۔ ایسے ہی کیا بامیان میں ان کے ’خدا‘ مہاتما بدھ کے اصلی اور قدیم مجسموں کو گرائے جانے پرمسلم زعما نے ویسا ہی اظہار مذمت کیا جیسا دو دن پہلے پوپ نے روہنگیا مسلمانوں کے لیے کیا ؟ اب ان مجسموں کو، براہ کرم، بت نہ کہیے گا کہ کچھ سنگ در جاناں ہمارے لیے لاکھوں انسانوں سے زیادہ متبرک اور قیمتی ہیں۔

سوال نمبر 8۔
کیا ایسا ممکن تھا کہ مذہبی اداروں اور شخصیات کی ہی سرپرستی، رائے اور اتفاق سے سالانہ بلین ڈالر مقدس روایت ’قربانی‘ پر اس بار اجتہادی فیصلہ دیا جاتا اور اپنے لخت جگروں کے اعضا اٹھائے ننگے زخمی جسموں سے جائے پناہ ڈھونڈتے روہنگیاؤں کے لیے اس بلین ڈالر فنڈ (یا خوراک کو ہی ) مختص کر لیا جاتا؟ ایسی کوئی تجویز؟ کوئی مشاورت؟ کوئی منظم مثال؟

سوال نمبر 9
چند دنوں میں یمن، قطر وغیرہ کا حقہ پانی بند کر دینے والے باقی عرب شیوخ کہاں ہیں؟ خود ایران کہاں ہے؟ اور ترکی صرف اخراجات اٹھانے کے پیشکش کرے گا۔ یہ آفر تو کھالیں جمع کرنے والے مصلحین بھی کر رہے۔ سفارتی سطح پر احتجاج یا بائیکاٹ کس کس اسلامی ملک نے کیا؟ اگر کسی نے بھی نہیں کیا تو نسل نو کو خلافت اسلامیہ کے خواب سے نکل کر ظلم کو مذہبی، قومیتی لبادے میں شناختنے کے بجائے ہر مظلوم انسان کے لیے آواز اٹھانا چاہیے۔ چاہے وہ انڈیا کی گوری لنکیش اور بنگلہ دیش کے مطیع نظامی کیوں نہ ہوں، بلتستان کے بابا جان اور پنجاب کے مہر عبدالستار ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا نسل نو ان لیے گئے چند ناموں کے بارے کچھ جانتی بھی ہے؟

سوال نمبر 10
انٹرنیٹ پر جنگی فلموں اور پرانی خانہ جنگیوں کی تصویریں ویڈیوز میانمار کے نام پر نشر کرنے سے ہم نے خود کو اداس در اداس تو کر لیا مگر اس سے روہنگیا کیس سنجیدہ اشو بنا یا متنازعہ ناقابل یقین معاملہ؟
نسل نو کا وہی خواب ناک تصوراتی جہان ماورات کہ جہاں جناب عمران خان، جناب سراج الحق، جناب طیب اردگان وغیرہ کو بشمول سپہ سالاران اسپ تخیل پہ سوار حریفان کی صفیں چیرتا دکھایا جاتا ہے۔

کیا ایسے ’غلو عالی‘ رویے سے ہم مریدان صفت اس سائبر آئی ٹی عہد میں سچا، متوازن اور حقیقی موقف پیش کر سکتے ہیں؟ اسے منوا سکتے ہیں؟

سوال نمبر 11
اراکان میں عسکری آپریشن پر جو حساسان وطن تنقید کر رہے ہیں۔ کیا انہیں معلوم ہے کہ ہمارے تین چوتھائی صوبوں میں درجنوں بار ایسا آپریشن ہوا اور اب بھی جاری ہے؟ ہزارہ برادری ہو یا احمدی، شیعہ ہوں یا بلوچ، مولوی نما قبائیلی پٹھان ہوں یا اوکاڑوی مزارعے۔ کیا بنا تفتیش و جرم، معصوم لوگوں پر ایسی ہی آفت و قیامت اپنے ارد گرد دکھائی نہیں دیتی۔ دکھائی نہیں دیتی تو کیا سنائی بھی نہیں دیتی، ، ،
ﺩﺍﻍِ ﺩﻝ ﮔﺮ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ
ﺑُﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ؟

سوال نمبر 12
اگر ایک مخصوص قومیت یا مذہب و مسلک پر علیحدگی روہنگیا کا حق ہے تو کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان تک میں جاری ایسی تحریکوں کے بارے میں کل دنیا ہم پر یہی دباؤ ڈالتی ہے تو ہمارا مؤقف کیا ہو گا۔ خاکم بدہن۔ ایسی ایک مثال بہاری مسلمانوں کی ہے جو مہاجر کیمپوں میں گل گل جل جل معدوم ہوئے اور پس ماندہ مایوس۔ کیا روہنگیا نسل کی بے بسی سے زیادہ ان بہاری مسلمانوں کی بے کسی زیادہ تکلیف دہ نہیں ہونی چاہیے کہ جنہیں بنگلہ دیش نے پاکستان سے محبت کی سزا میں خیمے دیے اور ہم نے امید، پالیسی، پلان اور مداوا کے جھٹپٹے شگاف۔

سوال نمبر 13
جس ملک میں مذہب، مسلک، قومیت، شعبہ، زبان اور سیاسی وابستگی پر دنیا میں سب سے زیادہ افراد مارے جاتے ہوں، ان کے باسیوں کو اولاً اس بدنامی، حقارت، ذلت اور دہشت سے نکالنے کے لیے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے یا دوجوں کی بنیان میں؟ وہاڑی میں سولہ سالہ مسیحی طالبعلم کی لاش ابھی تک تضحیک و تذلیل کی مٹی میں گرم ہو گی۔ اور گوجرہ، کوٹ رادھا کشن سے سندھ تک میں اقلیتوں کے درجنوں گھر جلا کر رہائشیوں کو راکھ کر دینے والوں پر کوئی احتجاج؟ کوئی فیصلہ؟ کوئی سزا؟

مایوسی اور تشدد کی طرف مائل ہونے کے بجائے ان تلخ سوالوں کا جواب باصلاحیت نوجوانوں کو خود تلاش کرنا پڑے گا کیونکہ تعلیمی اداروں اور خاندانی و ادارتی سربراہوں کے مطابق تو سوال اٹھانے والے افراد ہوں یا کتابیں، قابل ضبطی ہیں۔ ماسوائے اس کے کہ قلعہ مقدس کی ہری دیواروں پر فرشتے قطار اندر قطار اتر کر حریفوں کے دانت کھٹے کرتے ہیں اور تاریخ اسلامی کا دہن شیریں۔ تب ہی شاید، یونیورسٹی طلبہ کے ڈنڈوں مکوں گھونسوں سے کہیں مشال مر جاتا ہے، کہیں اظہار الحسن بچ جاتا ہے۔

مکرر عرض ہے کہ میانماری روہنگیاز پر ظلم و ستم کی یکطرفہ کوریج نے نسل نو کے تصوراتی و حقیقی جہان ملت کو دہلا کے رکھ دیا ہے۔ ان کے خیال میں مذہبی اینکرزو پیشوا وغیرہ تو برما میں کٹتے پھٹتے ان معصوم لوگوں کے لیے فوری قدم اٹھانا چاہتے ہیں مگر حکمران چونکہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں اس لیے اپنے سامنے معصوم بچیوں کو محمد بن قاسم کے انتظار میں رزق خاک بنتا دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا پر یہ موضوع روہنگیاز کی طرح رزق خاک بن بھی جائے، ان کروڑوں ’تعلیم یافتہ‘ ذہنوں میں یہ سوال ضرورچھوڑ گیا ہے کہ ہم اپنے ان مسلمان بہن بھائیوں کو جلتا مرتا دیکھ کر بھی ان کی مدد کیوں نہیں کر پائے جبکہ امت مسلمہ کے پاس ساٹھ ملک ہیں، تیل گیس ہے، ایٹم بم ہے، فوج ہے۔ علی ہذا القیاس۔

کاش انہیں کچھ گستاخانہ انداز میں یہ سمجھایا جا سکے کہ
جنس اور غیرت کا جذبہ کب جاگ اٹھے، کون جانے
نہ اٹھے تو ’شام‘ ڈھلے ’گھر‘ کی ام ’یمن‘ برہنہ ہونے پر نہ اٹھے،
تحریک اٹھے تو غیر کا ’برما‘ پھرنے پہ تن جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).