عقائد پر بحث ایک مناسب موضوع نہیں


 

ن م راشد اردو شعر کا ایک عظیم نام ہیں۔ جدید اردو شاعری ن م راشد کا نام لیے بغیر شروع نہیں ہوتی۔ 1910ء میں پیدا ہوئے۔ اکتوبر 1975ء میں وفات پائی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی طور پر معاشی مشکلات کا سامنا بھی کیا۔ ن م راشد آل انڈیا ریڈیو کے دلی سٹیشن پر اعلی عہدیدار رہے۔ دوسری عالمی جنگ میں فوج سے وابستہ رہے۔ کیپٹن کے عہدے تک گئے۔ پہلی شادی سے مطمئن نہیں تھے، اہلیہ کی وفات کے بعد ایک یورپی خاتون سے شادی کی۔ 1952ء میں بیرون ملک چلے گئے۔ باقی زندگی کے تئیس برس ملک سے باہر گزارے۔ اقوام متحدہ میں ملازمت کے لیے پاکستان سے رخصت ہو رہے تھے تو نوجوان احمد فراز نے ایئرپورٹ پر ایک شعر ن م راشد کو سنایا تھا

چلی تو حجلہ انگور سے ہے طنازہ

یہ ڈر ہے کوچہ و بازار میں نہ ہو رسوا

فیض احمد فیض اقبال کے بعد اردو شاعری کی مستند ترین آواز ہیں۔ فکری وابستگی، بیان کا ہنر اور اساطیری پذیرائی، فیض کو سب ملا۔ فیض محبوب تھا، محبوب ٹھیرا۔ 1912ء میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے۔ برطانوی فوج میں لیفٹننٹ کرنل کے عہدے پر فائز رہے۔ یورپی خاتون سے شادی کی۔ عمر کا آخری حصہ وطن سے باہر گزارا۔ فیض صاحب نے لکھا تھا،

ہم اپنے وقت پہ پہنچے حضور یزداں میں

زباں پہ حمد لیے، ہاتھ میں شراب لیے

یہ شعر حافظ نے کہا ہوتا تو اس سے اچھا کیا کہہ لیتے۔

 

فیض احمد فیض اور راشد میں کتنے بہت سے نکات مشترک ہیں۔ اختلاف کے خطوط پر غور کرنا چاہئیے۔ راشد اور فیض نے جدید تعلیم پائی تھی۔ دونوں استعمار، عالمی طاقتوں کی ستیزہ کاری اور تیسری دنیا کی محکومی کے نوحہ خواں تھے۔ فرق یہ ہے کہ فیض احمد فیض اپنی حیات مستعار کے آخری دنوں میں سیالکوٹ کے آبائی گاؤں کالا قادر گئے۔ ان کی دستار بندی کی گئی۔ فیض صاحب حسب معمول مسکراتے رہے، دلوں پر مرہم رکھتے رہے۔ امید سے بھرے پانیوں میں استقامت سے اپنا راستہ بناتے رہے۔ راشد صاحب میں ایک اضطراب تھا۔ فیض غداری کے مقدمے میں اسیر ہوئے تو فرمایا نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن۔۔۔ راشد صاحب خاکسار تحریک سے منسلک رہے۔ مزاج میں تحکمانہ رنگ تھا۔ راشد صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کیا گیا۔ یہ شخص زندگی بھر اپنے ہاتھوں میں اپنا سر اٹھائے چلتا رہا۔

 

مذہبی عقیدہ راشد صاحب کا وجودی سوال تھا۔ وہ اس الجھن کو سلجھا نہیں پائے۔  راشد صاحب لکھتے تھے

 

اپنے بے کار خدا کی مانند

اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں

ایک افلاس کا مارا ہوا ملائے حزیں

ایک عفریت اداس

تین سو سال کی ذلت کا نشاں

ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی

فیض صاحب نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا۔ سوال کیا گیا، فیض صاحب آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرمایا، ہمارا مذہب وہی ہے جو مولانا رومی کا تھا۔ سوال کرنے والے نے پلٹ کر پوچھا، اور مولانا رومی کا مذہب کیا تھا؟ فیض صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں فرمایا، ارے بھائی، وہی جو ہمارا ہے۔

دیکھیے دنیا میں ہر رنگ کا انسان پایا جاتا ہے۔ باشعور انسانوں کی زندگی ہر لمحے میں درپیش امکانات اور ان کے ذاتی انتخاب سے ترتیب پاتی ہے۔ راستہ تو راشد صاحب نے بھی اپنایا۔ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس راستے کی اپنی ایک قیمت ہے۔ راستہ فیض صاحب نے بھی نکالا۔ اس راہ کے سالک کو اور امتحان پیش آتے ہیں۔

 

عرض صرف یہ ہے کہ معاشرے میں عقائد پر بحث کرنے سے تلخی پیدا ہوتی ہے۔ اگر عقیدے پر بحث مباحثہ کسی نتیجے تک پہنچ سکتا تو دنیا میں ہم سے بڑے علم اور عقل والے گزرے ہیں، یہ بحث انہوں نے ختم کر دی ہوتی۔ اس بحث میں وہ مقام بہت جلد آ جاتا ہے جہاں تہذیب کو کہنا پڑتا ہے، یہ معاملے ہیں نازک، جو تیری رضا ہو، تو کر۔۔۔ کسی کو دکھ البتہ نہیں دینا چاہئیے۔ رائے رکھنے پر سب کا حق تسلیم کرنا چاہیے۔

 

معیشت پر بحث ہو سکتی ہے۔ تاریخ پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ معاشرت کے خدوخال پر اختلاف رائے آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ سیاست میں سو طرح کے زاویے ہو سکتے ہیں، عقیدہ تو دلوں کے اندر کی کوئی حکایت ہے۔ چراغ راہگزر کو رگ و ریشے میں دوڑنے والے لہو کی بوند تک رسائی نہیں ہے۔

 

جو دوست مذہبی معاملات پر عوامی اظہار رائے کا ذوق رکھتے ہیں، یہ سطور ان کی توجہ کے لیے لکھی ہیں، وقت کم ہے، توانائی محدود ہے۔ اسے کسی ایسی سمت میں صرف کرنا چاہئیے کہ آج کا صحیح استعمال ہو سکے اور آنے والے کل میں اس سے فائدہ برآمد ہو سکے۔ اگر دنیا میں سب لوگ ایک ہی عقیدے پر متفق ہو جائیں لیکن دنیا میں ظلم باقی رہے، ناانصافی ہوتی رہے، غربت ڈیرے ڈالے رہے، نفرت پھیلتی رہے، جہالت کا دور دورہ ہو تو ہم نے بحث جیت کر بھی کیا حاصل کیا؟

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).