روہنگیا مسلمانوں کے لئے سوشل میڈیا کے تفکرات


لوگوں سے میرا ملنا ملانا اور سماجی تقریبات میں جانا تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اپنے گھر کے معاملات کی بھی خاص خبر نہیں ہوتی۔ اوپرکی منزل میں بنی ایک انیکسی میں رہتا ہوں جہاں آنے اور وہاں سے نکلنے کا الگ راستہ بھی موجود ہے۔ اخبارات، کتابیں اور کبھی کبھار ٹیلی وژن دیکھنا میری وقت گزاری کے ذرائع ہیں۔

رزق مگر مجھے کالم لکھنے اور ٹی وی پر ”نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز“کا ایک پروگرام کرنے سے کمانا ہے۔ ان دونوں کے لئے مواد اکٹھا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر سے مستقل رجوع کیا جائے اور ان دونوں کا سرسری جائزہ یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے اور سوچنے سمجھنے والے حساس افراد ان دنوں برما کے روہنگیا مسلمانوں پر آئی قیامت کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔

بے خطا انسانوں پر مذہب یا نسل کے نام پر ظلم کسی صورت بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے دل اگرچہ مسلمانوںپر ہوئے مظالم کے بارے میں زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ یہ پریشانی لیکن مجھے شام کے عام شہریوں کے بارے میں کبھی مناسب شدت کے ساتھ نظر نہیں آئی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے عرب دنیا کا یہ بہت ہی خوب صورت ملک، جس کا شہر دمشق کئی ہزار سال پرانا ہے، ایک ہولناک خانہ جنگی کا شکار ہے۔

70ءکی دہائی سے اس ملک پر اسد خاندان کی حکمرانی ہے۔ حافظ الاسد ایئرفورس کا ایک افسر تھا اس نے کئی دوسرے فوجیوں کے ساتھ مل کر وہاں بعث پارٹی کی حکومت بنائی۔ یہ پارٹی عرب قوم پرستی اور سیکولر ازم کے دفاع اور فروغ کی دعوے دار تھی۔ غیر جانبدارانہ تجزیہ مگر بتاتا ہے کہ بعث پارٹی کے نام پر اسد خاندان نے سنی اکثریت پر مشتمل اس ملک پر علوی فرقہ کا اجارہ قائم کررکھا ہے۔

علوی فرقے کے عقائد کے بارے میں ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایران مگر شام کی حکومت کا قریب ترین دوست ہے۔ یہ دوستی ہمیں یہ فرض کرنے پر مجبورکرتی ہے کہ شاید ایرانی اور علوی ایک ہی مسلک کی پیروی کرتے ہیں۔ اسی لئے اسد حکومت کو بچانے کے لئے لبنان کی حزب اللہ بھی بہت متحرک ہے۔ تھوڑی تحقیق کے بعد اگرچہ بآسانی دریافت کیا جاسکتا ہے کہ علوی مسلک کا اثناعشری مسلک سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ ایران، شام اور حزب اللہ کی قربت مسلکی نہیں بلکہ دفاعی ترجیحات کی بناءپر قائم ہوئی ہے۔

بہرحال، نام نہاد ”عرب بہار“ کے دنوں میں ترکی اور سعودی عرب نے اپنی Strategicضرورتوں کے مطابق اسد مخالف گروہوں کو ہتھیار فراہمکیے۔ ایک گروہ قطر نے بھی تیار کرلیا۔ ان تمام گروہوں نے شام کے مختلف علاقوں کو وہاں کی حکومت کے لئےNo Go Areasبنادیا۔ امریکہ نے ان علاقوں میں ”انسانی حقوق“ اور ”جمہوری روایات“ وغیرہ کو متعارف کروانا چاہا۔ ان علاقوں کو شامی حکومت کی پہنچ سے آزاد رکھنے کے لئے فوجی تربیت اور اسلحے وغیرہ کا بندوبست بھی کیا۔

اسد مخالف گروہ مگر کم از کم نکات پر یکجا ہوکر کوئی طاقت ور متحدہ محاذ نہ بنا پائے۔ ان گروہوں کے مابین بلکہ Turf Warsشروع ہوگئیں۔ شامی حکومت اور اس کے مخالف گروہوں کے درمیان پھنسے عام شہری لاکھوں کی تعداد میں اپنی جان بچانے کے لئے کسی نہ کسی طرح ترکی پہنچ کر یورپ کے کسی ملک میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہوگئے۔ بے تحاشہ شامی مسلمانوں کی کئی برسوں تک پھیلی المناک داستانوں نے بھی ہمیں مگر پریشان نہیں کیا۔

شام ہی کی طرح عرب کا ایک قدیم ترین ملک یمن بھی ہے۔ سرد جنگ کے دنوں میں یہ شمالی اور جنوبی حصوں میں منقسم تھا۔ اس ملک میں قبائلی تقسیم مسلکی بنیادوں پر مستحکم ہوکر صدیوں سے بہت ہولناک تصور کی جاتی ہے۔ ”عرب بہار“ نے وہاں بھی انتشار پھیلایا۔ فوجی اعتبار سے باغیوں کا ایک طاقت ور گروہ ایک ایسے مسلک کا پیروکار ہے جسے ایران برداشت کرسکتا ہے مگر سعودی عرب کووہ گوارا نہیں۔ اسی باغی گروہ پر قابو پانے کے لئے سعودی عرب نے یمن کے خلاف اعلانِ جنگ کررکھا ہے۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اس ملک کے کئی مقامات مسلسل بمباری کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔

یمن گزشتہ کئی برسوں سے خشک سالی اور قحط کا شکار بھی رہا ہے۔ خانہ جنگی اور سعودی عرب کی مسلط کردہ فضائی بمباری نے لاکھوں مسلمانوں کی زندگی یمن میں لہذا دہرا عذاب بنارکھی ہے۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچے ہیضے کی وباءکا شکار ہوئے۔ ان بچوں کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہوپایا۔ ہم مگران کے بارے میں بھی ہرگز پریشان نہیں ہوئے۔

روہنگیامسلمان اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ان کی بپتا دل دہلادینے والی تصویروں سمیت مسلسل ہمارے سامنے آرہی ہے۔ ہم ان کی مدد کے لئے کچھ کرنے کو بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس بے چینی کا اظہار کیسے ہورہا ہے۔

فیس بک کھولیں تو روہنگیا مسلمانوں پر نازل ہوئی قیامت کے حوالے سے سب سے مشہور ہوئی ایک تصویر ہے۔ اس تصویر میں آنگ سان سوچی، جس نے برما کی فوجی حکومت کے خلاف طویل جدوجہد کی اور اس کی بدولت نوبل انعام کی حقدار ٹھہری، ڈریکولا کی صورت دکھائی جارہی ہے۔ اس کے دانتوں سے خون بہہ رہا ہے۔ اس تصویر کو پھیلانے کے بعد کوشش یہ ہورہی ہے کہ نوبل انعام دینے والوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ سوچی سے نوبل ایوارڈ واپس لینے کا اعلان کردیں۔ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں کہ نوبل انعام دینے والے ہماری خواہش پر عمل کربھی لیں تو ان کا یہ فیصلہ روہنگیا مسلمانوں کی کیا مدد کرپائے گا۔

اسلام اور مسلمانوں سے بے تحاشہ محبت کرنے کے دعوے داروں کا ایک گروہ پاکستان پیپلز پارٹی سے شدید نفرت کرتا ہے۔ اس گروہ سے متعلق افراد ایک ایسی تصویر کو بھی فیس بک پر پھیلائے چلے جارہے ہیں جس میں آصف علی زرداری اپنی بیٹی کے ساتھ آنگ سان سوچی کو کوئی ایوارڈ دیتے دکھائے گئے ہیں۔ آصف علی زرداری اور آنگ سان سوچی لہذا اس گروہ کے نزدیک مسلمانوں پر ہوئے ظلم کے مشترکہ ذمہ دار ہوگئے۔ فرض کریں یہ تصوردرست بھی ہو تو روہنگیا مسلمانوں کی ابتلاؤں کو کم کرنے میں یہ کتنا مدد گار ہوسکتا ہے؟

فی الوقت روہنگیا مسلمانوں کی مدد صرف اسی صورت ممکن ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت کو قائل کیا جائے کہ وہ انہیں اپنے ہاں پناہ گزین ہونے کی اجازت دے۔ اس ضمن میں صرف ترک صدر ہی نے ٹھوس اقدامات کا تردد کیا۔ کسی اور مسلمان ملک نے زحمت ہی نہیں اٹھائی۔

دوسری جنگ عظیم کی تباہیوں کے بعد اقوام متحدہ کی صورت ایک عالمی ادارہ قائم ہوا تو اس کے ذریعے یہ اصول طے کرلیا گیا کہ جدید ممالک کی ہر حکومت اپنے تمام شہریوں کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسل، مذہب یا مسلک سے ہو، جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔ میانمار لیکن روہنگیا مسلمانوں کو دیس نکالا کے ذریعے Ethnic Cleansingجیسے سنگین جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ 90ءکی دہائی کے اختتامی سالوں میں ایسا ہی رویہ بلقان کے چند ممالک، خاص کر سربیا والوں نے اپنایا تھا۔ اقوام متحدہ نے اس کا نوٹس لیا اور امریکی صدر نے فضائی بمباری کے ذریعے سربیا کو مجبورکیا کہ وہ بوسنیا کے مسلمانوں کو ایک خود مختار ملک تشکیل دینے کے بعد اس میں رہنے دے۔

روہنگیا مسلمانوں کا دیس نکالا بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمان ممالک مگر یکجاہوکر اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس کیوں نہیں بلارہے؟ 42سے زائد اسلامی ممالک کا ایک Muslim Natoبھی بنایا گیا ہے۔ ہمارے جنرل راحیل شریف اس کے سربراہ ہیں۔ اس Natoکے پاس یقینا وہ قوت موجود ہے جو میانمار کی سرحدوں کے اندر روہنگیا مسلمانوں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں بناکر ان کا تحفظ اور خوراک وغیرہ کی ترسیل کو یقینی بناسکتی ہے۔ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں کہ فیس بک پر روہنگیا مسلمانوں کی مدد کو بے چین لوگ اس Natoکو شرم کیوں نہیں دلارہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).