’’کردار کش‘‘ آرڈی ننس!


گزشتہ چند روز سے وہ حکومتی آرڈی ننس بڑے شدومد سے اخباری ہیڈلائنز اور تبصروں کا محور بنا ہوا ہے جس میں وزیراعظم اور حکومتی شخصیات کی کردار کشی کے حوالے سے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، ظاہر ہے کہ کردار کشی کے زمرے میں عام لوگ بھی آتے ہوں گے، تجزیہ کار مگر اس آرڈی ننس کو کالا قانون قرار دے رہے ہیں۔ وکلا، اخباری تنظیمیں اور سول سوسائٹی اس حوالے سے سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے کو اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے ڈائریکٹر سائبر کرائمز کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت اظہارِ رائے پر پابندی برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے تفصیلی ریمارکس میں اظہارِ خیال کیا کہ گرفتاری کی دھمکی کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

میں ان دنوں یہ سب کچھ پڑھ رہا ہوں اور مجھے وہ غلیظ ترین کردار کشی یاد آ رہی ہے جو وزارتِ اطلاعات کی اسٹیبلشمنٹ نے میرے پی ٹی وی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ کے بعد میرے حوالے سے شروع کی تھی، میرے مستعفی ہونےکے بعد عدالت میں پی ٹی وی کے ایم ڈی کے تقرر نہ ہونے کا کیس زیر بحث تھا اور وزارتِ اطلاعات کی اسٹیبلشمنٹ سے میرا تنازع ہی یہ تھا کہ وہ سیکرٹری اطلاعات کو پی ٹی وی کے ایم ڈی کا اضافی چارج نہ دیا کریں کہ میں ٹی وی کو حکومتی مائوتھ پیس نہیں بنانا چاہتا تھا مگر دورانِ سماعت اصل کہیں درمیان میں رہ گیا اور اس کی جگہ یہ سوال اٹھایا گیا کہ عطاء الحق قاسمی کو پی ٹی وی کا چیئرمین کیسے بنایا گیا اور ساتھ ہی سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، قابل اور دیانت دار بیوروکریٹ فواد حسن فواد اور درویش منش وزیر پرویز رشید کو بھی اس معاملے سے منسلک کر دیا گیا، میں یہ بتانے کے لیے کہ مجھے پی ٹی وی کا چیئرمین کیسے بنا دیا گیا ہے، یہاں خود ستائی  پر مجبور ہوں کہ میں پی ٹی وی سے ربع صدی سے زیادہ عرصے سے منسلک رہا ہوں یہاں سے نشر ہونے والے چند یادگار ڈراموں میں ’’خواجہ اینڈ سنز‘‘ اور ’’شب دیگ‘‘ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ میں پی ٹی وی کے مذاکروں اور مباحث میں بھی شریک ہوتا رہا ہوں۔ اب تک میری 20 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ادب کے سب سے بڑے ایوارڈز مجھے مل چکے ہیں۔ بطور ادیب پوری ادبی دنیا میں پہچانا جاتا ہوں۔ ترکی اور انگریزی زبانوں میں میری کتابوں کے تراجم شائع ہوئے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں مجھ پر بیسیوں ایم فل تھیسس کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھ پر مختلف یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے تھیسس بھی ہو رہے ہیں۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں بھی مجھ پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔

اس خود ستائی پر بے حد معذرت، مگر بتانا مجھے یہ تھا کہ اس مقدمے کے درمیان اور بعد میں جو الزام مجھ پر عائد بھی نہ تھے وہ بھی مجھ پرلاد دیے گئے اتنے گھٹیا اور ناقابلِ یقین اور عقل میں نہ آنے والے گالی نما الزاموں کے کیچڑ مجھ پر اچھالے گئے۔ ایک اخبار میں میرے خلاف جھوٹی خبربنا کر شائع کروائی گئی اور پھر اسے اپنے ٹائوٹوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی میری کردار کشی کروائی گئی۔ میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا مگر ایک جملہ معترضہ میرے جملہ کالم نگار دوستوں اور چند اینکرز کے علاوہ میری صحافتی برادری میں سے کوئی میری مدد کو نہیں پہنچا۔ نہ ایف آئی اے نے کسی کو گرفتار کیا اور نہ میری کردار کشی کے مواد کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔

میرے جیسے بےضرر سے اور بھی بہت سے لوگ اس کی زد میں آئے۔ یہ گندہ کام کرنے والوں کے لیے یہ ’’گناہ بےلذت‘‘ نہیں تھا، انہیں اس کی ’’جزا‘‘ کہیں نہ کہیں سے ملتی تھی تاہم جو بات کہنے کے لیے میں نے یہ ساری تمہید باندھی ہے وہ یہ کہ کردار کشی کے نام پر ایسا آرڈی ننس لاگو کرنا جو وہ آزادیٔ اظہار کے منافی ہو، میں اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے باوجود قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ میں محسن بیگ سے ذاتی طور پر واقف نہیں ہوں مگر میں نے وہ ٹی وی پروگرام دیکھا تھا جس کے نتیجے میں بغیر وارنٹ اس کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور اب وہ ایف آئی اے کی تحویل میں وہ سب کچھ بھگت رہے ہوں گے جو اس ’’در‘‘ سے ہر ملزم بھگتنا ہے۔ میں حکومت سے درخواست (عوام درخواست ہی کیا کرتے ہیں) کروں گا کہ ان کے نافذ کیے گئے آرڈی ننس اور اس کے اطلاق پہ حکومت کی بہت ذلت ہوئی ہے اور یہ سلسلہ نہ صرف یہ کہ جاری ہے بلکہ اس کی ہر نئی ’’قسط‘‘ کے بعد ’’جاری ہے‘‘ اور لگتا ہے جاری ہی رہے گا۔ ایک ستم ظریف کے بقول رنجیت سنگھ کانا تھا چنانچہ لفظ کانا کسی بھی پس منظر میں لکھنے کی سزا بلاوارنٹ گرفتاری اور پانچ سال قید مکرر کر دی گئی تھی، حکومت اخبارات سے بھی گلہ کرتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے حالانکہ ان میں سے دو ایک تو ہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتے ہیں مگر ہماری صحافت الحمدللہ مجموعی طور پر آزادیٔ اظہار کے اصولوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ حکومت ان حالات میں ایسا قانون لے کر آئی ہے جو اسے کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہوگا، کردار کشی کا بہت بڑا ٹارگٹ میں خود بنا ہوں مگر میں اس کے باوجود کبھی یہ تسلیم نہیں کروں گا کہ الزام لگانے والوں کو قانون کی صاف و شفاف گزرگاہوں سے گزارے بغیر ظلم اور ناانصافی کے کانٹوں بھرے رستے سے گزارا جائے۔ یہ آرڈی ننس کردار کشی کے خلاف نہیں میرے نزدیک بذاتِ خود کردار کش ہے۔

اور اب آخر میں غالباً اس آرڈی ننس کے حوالے سے شہزاد قیس کی ایک غزل کے چند اشعار:

دل دھڑکنے پہ بھی پابندی لگا دی جائے

لاش احساس کی سولی پہ چڑھا دی جائے

ذہن کی جامہ تلاشی کا بنا کر قانون

سوچنے والوں کو موقعے پہ سزا دی جائے

آرزو جو کرے دیوانوں میں کر دو شامل

خواب جو دیکھے اسے جیل دکھا دی جائے

آج سے قومی پرندہ ہے ہمارا طوطا

نسل شاہین کی چن چن کے مٹا دی جائے

حالات سے ہر شخص کو مجنوں کرکے

بھیڑ میں قیس کی آواز دبا دی جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments