ہمارا نظام تعلیم اور طبقہ بندی


میرے آفس کے رستے میں ایک سرکاری اسکول پڑتا ہے جس پہ لکھا ہوا ہے
Come to learn Go to serve
یعنی پڑھنے آیے خدمت کو جایے

آج کل اسکول شخصیت نکھارنے کا کام نہیں کرتے بلکہ آپ کو ہر اسکول کے سلوگن سے پتا چل جاتا ہے یہاں کیسا ”مال“ تیار کیا جاتا ہے جیسے لان کے کپڑوں میں ورائٹی ہوتی ہے ایک ڈزائنر لان ہوتی ہے پھر آجاتی ہے اس کی فرسٹ کاپی پھر تیسری اور چوتھی کاپیاں پھر سستی والی لان چائنا میچنگ کے دوپٹے شلوار کے ساتھ۔ تو اسی طرح ان اسکولوں میں بھی معیار ہیں کچھ ہیں کانونٹ اسکولز کچھ ان کی ذرا بہتر معیار کے نقل چور پھر سستے نقل چور اور پھر دیہی علاقوں کے سرکاری اسکول۔ آپ کو کبھی کسی مہنگے اسکول کا سلوگن خدمتوں اور نوکریوں کی تشہیر کرتا نظر نہیں آئے گا۔
ان کے سلوگن کچھ اس قسم کے ہوتے ”پڑھو آگے بڑھو اور جیت لو“ ،”پڑھو اور رہنما بن جاو“، ”پڑھو اور سورج بن کے چمکو“ مگر وہیں پہ گلی محلوں کے اسکولوں اور سرکاری اسکولوں کے سلوگن ایسے ہوتے ہیں جیسی مثال بات کے آغاز میں دی۔

کبھی سوچا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ آیے مل کر غور کرتےہیں۔ ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ایک لمبے عرصے تک بادشاہت رہی اور بادشاہت کا پیچھا ہم نے چھوڑا نہیں بلکہ ہم سے چھڑوایا گیا۔ بادشاہت کی رسم رہی ہے کہ جوں ہی شہزادے شہزادیاں سمجھ بوجھ کے قابل ہوجایا کرتے تھے تو ایک فوج مقرر کر دی جاتی تھی جو کہ ان کی تعلیم و تربیت پہ معمور ہوتی تھی فن سپاہ گری، لسانیات، منطق، شاعری و ادب، موسیقی اور سب سے اہم شاہی ادب و آداب سکھائے جاتے۔ انہیں عام عوام سے ملنے کی اجازت بالکل نہیں تھی کہ کہیں وہ عام بچوں والی عادتیں نا سیکھ جائیں۔ بچوں کی طرح اچھل کود، مٹی میں کھیلنا اپنے کام خود کرنا ان سب کی سختی سے ممانعت تھی۔

انہیں بچپن ہی سے احساس دلایا جاتا تھا کہ وہ اور عوام الگ الگ ہیں اور اسے یونیورسل ٹرتھ یا کائناتی سچائی کی طرح مانا جاتا تھا کہ ایک نجیب الطرفین شاہی گھرانے کا مقابلہ عام رعایا سے ہو ہی نہیں سکتا۔ تربیت کا یہ طریقہ نسل در نسل ایک مخصوص ذہنیت کی بقاء کا ضامن تھا۔ جب سے دنیا بنی تب سے بادشاہت تو تھی ہی نہیں تو یہ بادشاہت اور اس میں نجیب الطرفین کی اصطلاح کیونکر شامل ہوسکی؟ تو اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ جو بھی بغاوت کر کے بادشاہت پہ قبصہ کرلے اس کی اولاد نجیب الطرفین کہلانے کی ایلیجبلٹی ( معیار) پہ پوری اترنے لگتی۔ دنیا نے وقت کے ساتھ ساتھ بادشاہی نظام سے تو چھٹکارا پا لیا کچھ جگہ خود بغاوت کی کچھ جگہ زبردستی باہر سے والوں نے آکر بادشاہوں کو تخت سے اتارا تو چھٹکارا ملا۔ یعنی بادشاہ تو چلے گئےمگر جو طبقات وہ بنا گئے وہ رہ گئے۔ اور اس طبقوں میں بٹی عوام کی درست کارکردگی کے لئے ایسے اداروں کی ضرورت تھی جو اس مشین کے درست پرزے فراہم کرتے رہیں

اگر غور کیجیے تو ہمارا تعلیمی نظام بالکل اسی مقصد کے تحت کام کرتا ہے جس مقصد کے تحت شاہی نظام تعلیم کام کرتا تھا۔ بس اب سر پہ تاج کی ضرورت نہیں جیب میں پیسے کی ضرورت ہے۔ یہ مہنگے تعلیمی ادارے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ دنیا پہ حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔ آپ سوچیں گے اس میں کیا برائی ہے۔ جناب برائی یہ ہے کہ یہ نظام تعلیم یافتہ اور مہذب بناتا نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور مہذب صرف ”لگنا“ سکھاتا ہے۔ وہاں وہ سارے اصول سکھائے جاتے ہیں جس سے کسی طرح بھی آپ غریب، محنت کش اور دیسی نا لگیں۔ ہمارا نظام تعلیم شعور نہیں دیتا حکمران طبقے کی طرح رہن سہن سکھاتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم کسی کی بھی تعلیم کا اندازہ اس کی نشت برخاست اور خاص طور سے اس کے لباس سے لگاتے ہیں۔ اردو یا علاقائی زبان بولنے والا تو تعلیم یافتہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شلوار قمیض پہننے والا مرد اور برقعہ پہننے والی عورت یقینا کم تعلیم یافتہ ہوگی۔ اور جو پتا چل جائے کہ پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں تو کہا جاتا ہے ”لگتے تو نہیں“

ہم نے تعلیم یافتہ کا مطلب یہ سمجھ لیا کہ کسی بھی طرح آپ کے لباس اور لہجے سے آپ کے علاقے کی جھلک نا آئے۔ آپ اتنے صاف ستھرے ہوں کہ پتا چلے کی زندگی میں کبھی خود اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کیا۔ اور اس کے بھی الگ معیار ہیں کہ آپ کس قسم کے تعلیمی ادارے سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو کس طبقے کا کوسٹیوم دیا جائے گا۔ آپ اگر سرکاری دیہی اسکول میں ہیں تو بس لکھنا پڑھنا سکھا دیا جائے گا۔ آپ کو کاسٹیوم کی ضرورت نہیں آپ کمی تھے اور کمی ہی رہیں گے۔ پھر شہری سرکاری اسکول یا گلی محلے کے اسکول یہاں آپ کو کلرک بننا سکھایا جائے گا۔ تمیز سے بنے بال کئی بار دھلے ہوئے یونیفارم میں ملبوس جی صاب جی صاب کہتا بچہ۔ کیونکہ اسے بڑے ہوکر بھی یہی گیت گاتے رہنا ہے۔

پھر ذرا مہنگے اسکول جہاں کا بچہ انگلش میں جی صاب سوری یس سر یس سر کا راگ سیکھتا ہے کیونکہ یہ مینجمنٹ لیول پہ کام کرنے کے پرزے ہیں۔ اور آخر میں ہیں مہنگے ادارے جہاں بیک وقت اپر مینجمنٹ اور حکمران طبقہ کے لئے پرزے تیار کیے جاتے ہیں۔ موقع کی مناسبت سے یس سر یس سر کرنے والے بچے جن کی والدین آکر آپ کو یس سر یس سر کرنے پہ مجبور کردیں اور پھر وہیں پہ بہت ہی خاص وہ بچے جنہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اسکول انتظامیہ ان کے سامنے یس سر یس سر کرتی ہے۔ ایک ہی اسکول کی ایک ہی کلاس کے الگ الگ سیکشنز اور اس کی اگلی اور پچھلی سیٹیں تک انہی طبقوں کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہیں۔ جہاں پیچھے ان طلبہ کو ٹھونسا جاتا ہے جو لڑھک لڑھک کے پاس ہوتے ہیں اور کسی سستے ادارے کا مینیجر بن کے بیٹھتے ہیں کیونکہ تعلیمی اسناد میں مہنگے ادارے کا نام ہوتا ہے۔ اور آگے وہ بیٹھتے ہیں جنہیں ہمارے سر پہ بیٹھنا ہوتا ہے سیاستدان یا بیوروکریٹ بن کر۔ ہم ویسے تعلیم کا مقصد نئی نسل کو فرمانبردار بنانے کے لئے سمجھتے ہیں مگر ساتھ ہی ہمارے تعلیمی نظام میں اس بات کا خاص طور سے خیال رکھا جاتا ہے کہ حکمران بچے یہ فرمانبرداری غلطی سے بھی نا سیکھ لیں۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima