ملاوٹ شدہ اور زہریلے دودھ کی شناخت کے آسان طریقے


خدا تعالیٰ کی بیش قیمت نعمتوں میں سے ایک دودھ بھی ہے۔ یہ سفید سیال غذائیت کا خزانہ ہے۔ ایک گلاس دودھ انسان کو پروٹین، چکنائی، کاربوہائڈریٹ، کیلشیم، میگنیشم اور قیمتی وٹا من فراہم کرتا ہے۔ افسوس کہ انسان کے لالچ نے اس آفاقی نعمت کو بھی تنازعات اور اسکینڈلوں کا نشانہ بنا دیا۔

دودھ ایک غذائیت بخش غذا ہے، مگر جب وہ لالچی لوگوں کے ہاتھ لگی، تو موت بانٹنے والی ہر کارہ بن گئی۔ پاکستان میں ہر سال 40 ارب لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دودھ تقریباً تریسٹھ لاکھ جانوروں (گائیں و بھینسیوں) سے ملتا ہے۔ دودھ کے کاروبار سے دس لاکھ خاندان وابستہ ہیں۔ جدید اعدادو شمار کی رو سے بھارت میں ہر سال میں ایک کھرب چھیالیس ارب لیٹر، چین میں 45 ارب لیٹر، پاکستان میں 40 ارب لیٹر، جرمنی میں 30ارب لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ بہت سےماہرین بھارت اور پاکستان کے اعداد و شمار پر شک و شبے کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان ان دونوں ممالک میں کروڑوں لیٹر دودھ ملاوٹی ہوتا اور کیمیائی مادوں سے بنتا ہے۔ دودھ میں پانی ملانا ملاوٹ کا قدیم ترین طریقہ ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ دودھ کی مقدار بڑھ جائے مگر پانی ملانے سے دودھ کی غذائیت کم ہو جاتی ہے۔

اگر پانی آلودہ ہے تو وہ دودھ کو مضر صحت بھی بنا دیتا ہے۔ میں ٹوٹل پلیٹ کاونٹ میں یہ سارے بیکٹریا کی گروتھ دیکھتی ہوں۔ سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ دودھ میں ملاوٹ کے بھی نت نئے طریقے سامنے آ گئے۔ حتیٰ کہ حیوان نما انسان جن کو حیوان کہنا بھی توہین ہے کیمیائی مادوں سے مصنوعی دودھ بنا کر گاہکوں کو زہر پلانے لگے ہیں۔ پاکستان کے شہروں میں ایسا مضر صحت دودھ عام ملتا ہے۔ حکومتیں وقتاً فوقتاً اس لعنت کے خلاف مہم چلاتی ہیں مگر وہ اسے کُلی طور پر ختم نہیں کر سکیں۔ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کا نتیجہ خراب دودھ پی کر عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دودھ کو دیر تک محفوظ کرنے کی خاطر پہلے پہل پاکستانی گوالوں نے کیمیائی مادوں کا استعمال شروع کیا۔ دراصل گوالوں کی اکثریت علی الصبح دودھ نکالتی ہے۔ یہ دودھ پھر چند گھنٹے بعد شہروں کو سپلائی ہوتا ہے۔ چناںچہ دودھ کو خراب ہونے سے بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے گوالے اس میں جراثیم کش (جراثیم مارنے والے) کیمیکل مثلاً ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ، فارملین، پنسلین، بال صفا پاؤڈر، بوریکس وغیرہ ملانے لگے۔

ٹھنڈا دودھ جلد خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔ چناںچہ دودھ تادیر ٹھنڈا رکھنے کی خاطر اس میں برف، یوریا کھاد، ایمونیم سلفیٹ وغیرہ کی بھی آمیزش ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ گوالوں کو علم ہوا کہ کھانے کا سوڈا (بیکنگ سوڈا) اور کاسٹک سوڈا بھی دودھ کو تادیر محفوظ رکھتے ہیں۔ لہذا یہ کیمیکل بھی ملائے جانے لگے۔ آہستہ آہستہ دودھ میں کئی اشیاء کی ملاوٹ معمول بن گیا۔ ہر گوالا چاہتا ہے کہ اس کی گائے یا بھینس زیادہ دودھ دے تاکہ آمدن بڑھ سکے۔ آمدن بڑھانے کی یہی تمنا اب تمام اخلاقی حدود پار کر چکی ہے۔

بہت سے گوالے اب جانوروں کو آکسی ٹوسین (Oxytocin) اور بوائنsomatotropin Bovine ہارمون کا ٹیکا لگاتے ہیں جو دودھ کی پیداوار میں 50 فیصد، ، تک اضافہ کر سکتا ہے۔ گویا ٹیکا لگانے سے گوالے کو ایک جانور سے پانچ کلو کے بجائے نو دس کلو دودھ لیتے ہیں۔ یہ ہارمون بھی گائے بھینس میں دودھ کی مقدار بڑھاتا ہے۔ پاکستان میں گائے بھینسوں کو یہ ہارمون دینا عام ہے۔ یہ دونوں ہارمون زیادہ مقدار میں انسانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ غرض دودھ میں شامل کیے جانے والے تمام کیمیکل اور اشیاء مضر صحت خصوصیت ضرور رکھتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ کہ تقریباً ہر انسان روزانہ دودھ استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا دودھ میں شامل کیمیائی مادے کم مقدار میں ہوتے ہوئے بھی انسان کو رفتہ رفتہ مختلف بیماریوں کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔

مریض تو دودھ کو صحت بخش غذا سمجھتا ہے۔ چناںچہ اسے احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ فلاں مرض دراصل دودھ میں شامل کیمیائی مادوں کی وجہ سے اسے چمٹا ہے۔ بعض اوقات مسلسل ملاوٹ شدہ دودھ پینے کی وجہ سے انسان موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔ ملاوٹ شدہ دودھ کے ذریعے انسان کو نشانہ بنانے والی بیماریوں اور طبی خرابیوں میں یہ قابل ذکر ہیں: ٹائیفائیڈ، ہیضہ، پیٹ کے امراض، ہڈیوں اور جلد کی بیماریاں، ہیپاٹائٹس، ہائپر ٹینشن، تیزابیت، غنودگی طاری رہنا، ذہانت میں کمی، بال جھڑنا، بالوں کا قبل از وقت سفید ہو جانا، بچہ وقت سے پہلے پیدا ہونا، صبر و برداشت میں کمی آ جانا، گردوں کی خرابیاں، گنجا پن، غم و غصے میں اضافہ، دل کی شریانوں کے امراض۔ ان سب طبی خرابیوں سے بچنے کے لیے خالص دودھ نوش کیجیے اور مصنوعی دودھ کو تو ہاتھ نہ لگایئے۔ افسوس انسانی لالچ و ہوس نےعظیم غذائی نعمت کو سفید زہر بنا دیا ہے۔

خالص اور ملاوٹ شدہ دودھ کی جانچ کے طریقے

وطن عزیز میں دودھ عام استعمال کی غذا ہے۔ کروڑوں لوگ روزانہ اسے کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ملاوٹ شدہ دودھ نہ صرف مالی نقصان پہنچاتا بلکہ یہ مضر صحت بھی ہے۔ خوش قسمتی سے ملاوٹ شدہ دودھ میں کیمیکل اور دیگر ملاوٹی اشیا شناخت کرنے کی خاطر ٹیسٹ ایجاد ہوچکے ہیں۔ بعض ٹیسٹ گھر میں بھی کیے جاسکتے ہیں۔ ایسے ہی ٹیسٹوں کا بیان درج ذیل ہے۔

(1) پانی۔ ۔ ۔ یہ ملاوٹی شے انسانی صحت کے لیے تو خطرناک نہیں مگر جیب پر بار ضرور بنتی ہے۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ جاننے کے لیے اس کا ایک قطرہ کسی ڈھلواں چکنی سطح پر گرائیے۔ اگر قطرہ پیچھے سفید لکیر چھوڑتا بہہ جائے، تو یہ خالص دودھ کی نشانی ہے۔ اگر قطرہ کوئی سفید لکیر نہ چھوڑے، تو سمجھ جائیے، دودھ میں پانی ملا ہوا ہے۔

(2) نشاستہ۔ ۔ ۔ گوالے دودھ میں چکنائی کی مقدار بڑھانے کے لیے نشاستہ ملاتے ہیں۔ اس کی ملاوٹ جاننا آسان ہے۔ بس تھوڑے سے دودھ میں آئیوڈین محلول یا ٹنکچرکے چند قطرے ملائیے۔ تھوڑی دیر بعد دودھ نیلا ہوجائے، تو اس میں نشاستے کی ملاوٹ ہے۔

(3) یوریا۔ ۔ ۔ یہ کھاد فصل کی پیداوار بڑھاتی ہے، مگر لالچی گوالے اس سے دودھ گاڑھا کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ یہ ملاوٹی دودھ کا عام جز ہے۔ اسے شناخت کرنے کی خاطر ایک چمچ دودھ کسی برتن میں ڈالیے۔ پھر اس برتن میں سویابین یا ارہر کی دال کا آدھی چمچی سفوف ڈال دیجیے۔ اب دونوں چیزوں کو اچھی طرح ملائیے۔ پانچ منٹ بعد اس آمیزے میں لٹمس کاغذ ڈالیے۔ ڈیڑھ منٹ بعد کاغذ نکال لیجیے۔ اگر سرخ لٹمس پیپر نیلا ہوجائے، تو جان لیجیے، دودھ میں یوریا ملایا گیا ہے۔

(4) ڈیٹرجنٹ۔ ۔ ۔ کپڑے دھونے کا پاؤڈر بھی ملاوٹی دودھ میں ملانا عام ہے۔ اس کی شناخت خاصی آسان ہے۔ بس ایک برتن میں دس ملی لیٹر دودھ لیجیے۔ پھر اس میں اتنا ہی پانی ملائیے۔ اب دونوں کو اچھی طرح ہلائیے۔ اگر دودھ میں صابن سے بننے والی جھاگ پیدا ہوجائے، تو اس میں ڈیٹرجنٹ ملایا گیا ہے۔

(5) مصنوعی دودھ۔ ۔ ۔ غذا کے نام پر تیار ہونے والا یہ زہر پاکستان ہی نہیں بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان میں بھی کروڑوں افراد کو پلایا جاتا ہے۔ اس دودھ کی خاص علامات یہ ہیں: چکھنے پر اس کا ذائقہ نہایت تلخ محسوس ہوتا ہے۔ جب اسے انگلیوں کے مابین مسلا جائے، تو صابن لگنے کی طرچ چکناہٹ کا احساس ہوتا ہے۔ یہ دودھ گرم کیا جائے، تو ابلنے پر پیلا پڑجاتا ہے۔

ذیل کے ٹیسٹ عام طور پر لیبارٹری میں انجام دیے جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان ٹیسٹوں میں کیمیکل استعمال ہوتے ہیں:

(1) بناسپتی گھی۔ ۔ ۔ مصنوعی طور پر تیار کردہ یہ گھی مسلسل بڑی مقدار میں کھایا جائے، تو انسان کو مختلف امراض کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ دودھ میں بناسپتی گھی کی ملاوٹ شناخت کرنے کے لیے 3 ملی لیٹر دودھ ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالا جاتا ہے۔ پھر اس میں ہائیڈرو کلورک ایسڈ کے دس قطرے ملائے جاتے ہیں۔ بعد میں اس آمیزے میں چینی ملائی جاتی ہے۔ پانچ منٹ بعد آمیزے کا معائنہ ہوتا ہے۔ اگر آمیزہ سرخ رنگت اختیار کرلے، تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ دودھ میں بناسپتی گھی ملا ہوا ہے۔

(2) فارملین۔ ۔ ۔ یہ کیمیکل دودھ کی عمر بڑھانے کے لیے ڈالا جاتا ہے۔ مگر اس کا طویل استعمال انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ اس کیمیکل کی جانچ کی خاطر ٹیسٹ ٹیوب میں 10 ملی لیٹر دودھ ڈالا جاتا ہے۔ پھر اس میں 5 ملی لیٹر گاڑھا (Concentrated) گندھک کا تیزاب (سلفیورک ایسڈ) ملایا جاتا ہے۔ جس جگہ دودھ اور تیزاب کا ادغام ہوتا ہے، اگر وہاں جامنی یا نیلا حلقہ نمودار ہوجائے، تو یہ دودھ میں فارملین ملانے کی گواہی ہے۔

(3) ایمونیم سلفیٹ۔ ۔ ۔ دودھ میں یہ کیمیکل لیکٹومیٹر ریڈنگ بڑھانے کے لیے ملاتے ہیں۔ اس کی شناخت کا طریق کار یہ ہے کہ 5 ملی لیٹر دودھ ٹیسٹ ٹیوب میں لیا جائے۔ پھر اس میں عموماً سڑک (Citric) ایسڈ ملایا جاتا ہے۔ کیمیائی ردعمل سے جھاگ جنم لیتا ہے جسے الگ کرلیا جاتا ہے۔ اس جھاگ کو نئی ٹیسٹ ٹیوب میں ڈال کر اس میں 0۔ 5 ملی لیٹر پانچ فیصد بیریم کلورائیڈ ملایا جاتا ہے۔ اگر جھاگ تلچھٹ میں بدل جائے، تو یہ دودھ میں ایمونیم سلفیٹ موجود ہونے کی نشانی ہے۔

(4) نمک۔ ۔ ۔ گوالوں کی اکثریت دودھ میں نمک بھی ملاتی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ لیکٹومیٹر ریڈنگ میں اضافہ ہوجائے۔ یاد رہے، لیکٹومیٹر دودھ کا خالص پن جانچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی کم ریڈنگ دودھ کا ناخالص ہونا ظاہر کرتی ہے۔ دودھ میں نمک کی ملاوٹ جاننے کے لیے سلور نائٹریٹ کا 0۔ 5 ملی لیٹر آمیزہ ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالا جاتا ہے۔ پھر اس میں پوٹاشیم ڈائی کرومیٹ (Potassium dichromate) آمیزے کے دو تین قطرے ڈالے جاتے ہیں۔ پھر اس ٹیسٹ ٹیوب میں 7 ملی لیٹر دودھ ڈال کر سب چیزوں کو اچھی طرح ملایا جاتا ہے۔ اگر ٹیوب میں موجود آمیزہ پیلا ہوجائے، تو مطلب یہ کہ اس میں نمک موجود ہے۔ اگر آمیزہ سرخی مائل گندمی یا چاکلیٹ جیسی رنگت اختیار کرے، تو دودھ میں نمک شامل نہیں۔

(5) ہائیڈروجن پرآکسائیڈ۔ ۔ ۔ یہ دودھ میں ملایا جانے والا عام کیمیکل ہے۔ یہ دودھ کی عمر بڑھانے میں مستعمل ہے۔ اسے دودھ میں دریافت کرنے کی خاطر 5 ملی لیٹر دودھ ٹیسٹ ٹیوب میں لیتے ہیں۔ پھر اس میں پیرا فینالینیڈائمین (paraphenylenediamine) کے تین قطرے ملاکر اچھی طرح ہلاتے ہیں تاکہ دونوں اشیا مل جائیں۔ اگر اس آمیزے کا رنگ نیلا پڑجائے، تو ثابت ہوجاتا ہے کہ دودھ میں ہائیڈروجن پر آکسائیڈ ملایا گیا ہے۔

اس کیمیکل کی جانچ کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ اسی طریقے میں ٹیوب میں 10 ملی لیٹر دودھ بھر کر اس میں وناڈیم پینٹوآکسائیڈ محلول کے دس پندرہ قطرے ڈال اچھی طرح مکس کیا جاتا ہے۔ اگر آمیزہ سرخ یا گلابی رنگت کا ہوجائے، تو یہ دودھ میں ہائیڈروجن پرآکسائیڈ ڈالنے کی نشانی ہے۔

(6) چینی۔ ۔ ۔ دودھ میں شکر کی ایک قسم ’’لیکٹوز، ، قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے۔ ملاوٹ شدہ اور مصنوعی دودھ کو میٹھا اور گاڑھا کرنے کی خاطر اس میں چینی ڈالی جاتی ہے۔ چینی ڈالنے سے لیکٹومیٹرکی ریڈنگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ دودھ میں چینی کی ملاوٹ پانے کے لیے ٹیسٹ ٹیوب میں 3 ملی لیٹر دودھ ڈالیے۔ اس میں 2 ملی لیٹر ہائیڈروکلورک ایسڈ ڈالیے۔ پھر ٹیوب میں 50 ملی گرام ریسورسینول (resorcinol) ڈال کر ٹیوب کو گرم کیجیے۔ اس کے اندر موجود آمیزہ سرخ ہوجائے، تو دودھ میں چینی ملی ہے۔

(7)سوڈیم بائی کاربونیٹ۔ ۔ ۔ یہ کیمیکل دودھ کو گاڑھا بناتا ہے۔ اس کی شناخت کے لیے 3 ملی لیٹر دودھ ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالتے ہیں۔ پھر اس میں 5 ملی لیٹر ریکٹیفائڈ اسپرٹ (Rectified spirit) ملاتے ہیں۔ آخر میں روزلک ایسڈ کے چار قطرے ملائے جاتے ہیں۔ پھر یہ آمیزہ اچھی طرح ہلایا جاتا ہے۔ آمیزے کی رنگت سرخ ہوجائے، تو یہ دودھ میں سوڈیم بائی کاربونیٹ موجود ہونے کا سگنل ہے۔

(8) بورک ایسڈ۔ ۔ ۔ یہ تیزاب بھی دودھ میں ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ تادیر محفوظ رہ سکے۔ اس کی تشخیص کا طریق کار یہ ہے کہ ٹیسٹ ٹیوب میں 3 ملی لیٹر دودھ ملاتے ہیں۔ پھر اس میں ہائڈروکلورک ایسڈ کے 20 قطرے ملاتے اور اچھی طرح حل کرتے ہیں۔ پھر اس میں پیلے کاغذکی پٹی(yellow paper strip) ڈبوتے ہیں۔ اگر پیلا رنگ سرخ ہو جائے تو دودھ میں بورک ایسڈ ملا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).