مار نہیں پیار اور یار بھی چاہیے


تقسیم کے وقت جس انسانی المیے نے جنم لیا ہم نے وہ نہیں دیکھا۔ اس کی کہانیاں بھی کم کم سنی ہیں۔ تقسیم کا دکھ بیان کرنے والے لکھاریوں کو اگر پڑھا بھی تو ریس لگا کر ان کی تحریر کو ختم کیا ہے۔ ہمارے خاندان میں کوئی مشرقی پنجاب سے اٹھ کر نہیں آیا۔ البتہ جس آزادی کا جشن منایا جاتا ہے اس کا ذکر جب کسی بزرگ سے یا بوڑھی مائیوں سے سنا تو یہی سنا کہ جب اجاڑا پڑا تھا۔

سکھر بیراج بنا تو بہت سے پنجابی خاندان اپنی تھوڑی سی زمین بیچ کر سندھ پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے بے آباد زمینیں خرید لیں۔ نانا بھی رانی پور سندھ گئے تھے جہاں انہوں نے کتنے مربعے لیے تھے پتہ نہیں۔ جب چوہتر میں گوٹھ چھوڑ کر پاکپتن آئے تو ساری آباد نہیں کر سکے تھے۔ ان کے آنے کے بعد یہ گوٹھ رفتہ رفتہ اجڑ گئی تھی۔ میں اپنے والدین کا پہلا بچہ تھا خاندان کے رواج مطابق ننھیال میں پیدا ہوا رانی پور کی اسی گوٹھ میں۔ انسان کا اپنی جنم بھومی سے جانے کیسا تعلق ہوتا ہے۔ سیم زدہ اس گوٹھ میں جب بھی جانا ہوا ننگے پیر پھرا۔

سندھ میں بہت اپنے اب بھی رہتے ہیں۔ تراسی کی ایم آر ڈی کی تحریک میں جب حالات خراب ہوئے تو سندھ میں پنجابی بولنے والے ارائیں ایک پریشر میں آئے۔ کسی نے انہیں کچھ کہا یا نہیں کہا بہت سے زمین بیچ کر پنجاب آ گئے۔ جو سندھ چھوڑ کر آئے تھے جب بھی ان لوگوں سے بیٹھ کر ان کی باتیں سنیں تو انہیں وہاں گزرا اچھا وقت یاد کرتے ہی سنا۔ جو لوگ آئے تھے ان کے ساتھ ویسا کچھ نہیں ہوا تھا جو تقسیم کے وقت لوگوں نے دیکھا۔ پھر بھی ایسے لوگوں میں ایک حسرت اک یاد اک خوف (شاید سب کچھ کھو جانے کا) دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے جو کھونا تھا کھو دیا تھا۔ ان کی اکثریت کو خوشحال سے بدحال ہوتے غریب ہوتے دیکھا۔ کچھ کو لوٹ کر واپس جاتے بھی سنا۔ یہ چند درجن خاندانوں کی کہانی ہے وہ بھی بہت عام سی۔ لیکن اسی کو پھیلا کر جب تقسیم سے جوڑ کر دیکھا تو بہت کچھ سمجھ آیا۔

مرضی سے کوچ کرنے میں جبری ہجرت کرنے میں ایک بڑا فرق ہوتا ہے۔ جبری ہجرت کرنے والوں میں ایک مستقل خوف باقی رہتا ہے جو ان کے فیصلوں میں جھلکتا ہے۔ ان کا عدم تحفظ ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اردو بولنے والے اپنی مرضی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ رفتہ رفتہ وہ بھی اس طرح بی ہیو کرنے لگ گئے جیسے جبری ہجرت والے کرتے ہیں۔ بھارت میں اقلیت ہونے کا خوف پاکستان آ کر جب فرزند زمین نہ ہونے کے خوف میں ملا تو ہم بحیثیت قوم بے سمت ہونے لگ گئے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فیصلہ کرنے والوں میں خاصی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو ہجرت کر کے آئے تھے اور نامعلوم خدشات کا شکار ہو گئے۔

اس کمیونیٹی کے یہ خدشات حقیقت میں بدلے تو اردو بولنے والوں کی قیادت الطاف حسین کی صورت میں ابھر کر سامنے آ گئی۔ انہیں اپنا آپ منوانے ثابت کرنے کےلیے ہر ایک سے لڑنا پڑا۔ کسی کو یاد ہے ان کا بیان کہ ٹی وی بیچو کلاشنکوف خریدو۔ اس پر ہمارے اک قبائلی ملک کا تبصرہ سنیں کہ او ظالما لڑنا سیکھ لیا صلح کرنے والا کوئی نظام بنایا ہی نہیں کوئی جرگہ تھا ہی نہیں جو حق دلوا دیتا لڑائی روک لیتا۔ ہم نے الطاف حسین کو کھو دیا جن میں پوٹینشل تھی کہ وہ ہماری سیاست میں بڑا کچھ بدل سکتے تھے۔

اپنی کہانی کی جانب واپس چلتے ہیں۔ سندھ میں ہمارے ایک عزیز ایسے بھی تھے جنہوں نے گوٹھ اجڑنے کے بعد سندھ میں ہی قیام کا فیصلہ کیا۔ وہ خیر پور سے اٹھے تو گھوٹکی آ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہیں مرنا یہیں دفن ہونا ہے سندھ نہیں چھوڑنا۔ نئی جگہ پہنچے انہیں دن چار نہیں ہوئے تھے ایک ڈٓاکہ پڑا۔ دو لوگ مر گئے گھر کا سارا سامان لٹ گیا۔ بھائی کپڑے جھاڑ کر کھڑا ہو گیا کہ ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا جو یہاں رہنے والوں کے ساتھ نہیں ہوتا، یہیں رہنا یہیں مرنا ہے۔

بھائی نے صرف فصل پکنے کا انتظار کیا۔ آڑھتی سے پیسے پکڑے سیدھا پشاور پہنچا ہماری مدد سے درے جا کر ایک رائفل خرید لی بہت نسلی قسم کی۔ بھائی اب بڑی شان سے رہتا تھا۔ ایک سردیوں میں اپنی رائفل سے جپھی ڈال کر سو رہا تھا جب چور بکری کھولنے آیا۔ رائفل دیکھ کر رک گیا جب بھائی نے کروٹ لی تو چور رائفل بھی اٹھا کر لے گیا بکری کے ساتھ جھونگے میں۔ بھائی پھر پشاور پہنچ گیا اس اطلاع کے ساتھ کہ یار بزتی بڑی ہوئی اے پر رہنا وہیں ہے۔ اب جب دوبارہ درے گئے تو ملک صاحب کو قصہ سنایا تو انہوں نے کہا کہ خانہ خراب صرف رائفل کافی نہیں ہے۔ چار سجن بھی بناؤ جہاں رہتے ہو ادھر کسی کو اپنا بھی بناؤ ان کے اپنے بھی بنو۔ ایسا کر کے دیکھو نہ چور آئے گا نہ ڈاکو۔ بھائی سمجھ دار تھا سمجھ گیا باقی زندگی اس نے وڈیروں کی طرح گزاری۔

وڈیروں جیسی یہ زندگی گزارنے کی صرف ایک وجہ تھی کہ بندہ خوف کے سامنے جھکنے سے انکاری تھا۔ اپنے ٖفیصلے خوف کے تحت نہیں کرتا تھا۔ اس کی ناکامیاں تب کامیابیوں میں بدل گئیں جب اس نے ملک صاحب کی بات پلے باندھی کچھ لوگ اپنے بنا لیے۔ خود بھی بہت سوں کا اپنا بن گیا۔ ہماری ایک بدقسمتی شاید یہ بھی ہے کہ ہم قومی فیصلے خوف کے تحت کرتے ہیں۔ کبھی ہم بھارت سے ڈرتے ہیں کبھی ہم مسکین افغانیوں سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں اپنی طاقت پر اعتماد ہی نہیں کہ ہم اکیس کروڑ ہیں۔ اتنی بڑی آبادی میں کتنے ہیں جو تقسیم کے وقت ہجرت کر کے آئے تھے۔ کیا وہ دس پندرہ یا بیس فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے البتہ ہمارے قومی فیصلوں میں اسی ہجرت اسی تقسیم کا ڈر جھلکتا ہے۔ افغانستان بھی ہمارا ایک فوبیا ہے جس سے ہم نکل ہی نہیں رہے۔ سادہ سی بات وہی ہے کہ ہمیں امن سکون سے رہنے کے لیے رائفل کی نہیں کچھ سجن بیلیوں کی ضرورت ہے۔ کسی کو اپنا بنانے کسی کا اپنا بننے کی ضرورت ہے۔ کوئی خانہ خراب سن رہا ہے؟

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi