انصار الشریعہ پاکستان کیسے قائم ہوئی؟


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس اور انٹیلیجنس ادارے شدت پسند گروہ ‘انصار الشریعہ پاکستان’ سے اس وقت تک نا واقف تھے جب تک اس نے وارداتوں کے بعد اپنی شناخت خود ظاہر نہیں کی تھی۔ کراچی میں گذشتہ چند ماہ سے جاری پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری اس گروپ نے قبول کی تھی اور یہ ذمہ داری ٹویٹر اکاؤنٹ سے قبول کی گی جو منگل کی شب سے بلاک کر دیا گیا ہے۔

انصار الشریعہ پاکستان کا قیام کیسے عمل میں آیا اس بارے میں تنظیم کا تین صفحات پر مشتمل پیغام موجود ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ گروپ داعش سے ناراض تھا۔ اپنے پیغام میں گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی، پنجاب اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین داعش سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں جس نے اتحاد و اتفاق کی بجائے انتشار کو اپنایا، اس صورت حال میں وہ جہاد پاکستان سے منسلک رہنے والوں سے انضمام کرتے ہوئے جماعۃ انصار الشریعہ پاکستان کا اعلان کرتے ہیں۔

اپنے پیغام میں تنظیم نے خود کو القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہروی کا پیروکار بتایا اور ساتھ میں یہ وضاحت بھی کر دی کہ فی الوقت ان کی کسی عالمی جہادی تنظیم سے کوئی وابستگی یا رابطہ نہیں ہے۔

بعض انٹیلیجنس ادارے اس گروپ کا تعلق ابوذر برمی سے جوڑ رہے ہیں تاہم اس گروپ نے اپنے پیغام میں قبائلی رہنما حاجی منصور محسود اور احمد عبدالعزیز کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس گروپ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ حاجی منصور کا ان سے تنظیمی تعلق نہیں۔ یاد رہے کہ حاجی منصور محسود تحریک طالبان کے رہنما ہیں جبکہ احمد عبد العزیز کے بارے میں گروپ کا کہنا ہے کہ وہ ابو مصعب السوری کے شاگرد ہیں جو شامی اور پاکستانی جہادیوں کے استاد ہیں۔

کاؤنٹر ٹیررازم محکمے کے ایس پی مظہر مشوانی کا کہنا ہے کہ انصار الشریعہ جنود الفدا گروپ سے نکلا ہے جو بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقے میں سرگرم ہے لیکن یہ مقامی اور خود پر انحصار کرنے والا گروپ ہے۔

اس گروپ نے اپنے قیام کے بعد کارروائیوں کا آغاز کیا اور رواں سال فروری میں پولیس فاؤنڈیشن کے ایک محافظ کو نشانہ بنایا، اپریل میں شاہراہ فیصل پر فوج کے ریٹائرڈ کرنل طاہر ضیا ناگی کو ہلاک کیا جس کے بعد انصار شریعہ پاکستان کا نام سامنے آیا۔ مئی میں بہادر آباد میں موبائل پر فائرنگ کی گئی جس میں دو اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ جون میں سائیٹ ایریا میں افطار کے لیے ہوٹل پر موجود اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں چار اہلکار ہلاک ہوئے۔ اسی طرح عزیز آباد میں اگست میں ڈی ایس پی ٹریفک کو ہلاک کیا گیا۔

پاکستان انسٹیٹوٹ آف پیس سٹڈی کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس اداروں نے جب ان اطلاعات پر کہ کراچی سے کچھ لوگ بھرتی ہوکر عراق اور شام کی جانب جا رہے ہیں کارروائیاں کیں تو اس دوران انصار شریعہ کا نام سامنے آیا اور یہ معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسا گروپ ہے جو داعش سے مطمئن نہیں ہے اور اپنی کارروائیوں کا آغاز کر چکا ہے۔

‘اس گروپ نے پولیس کو نشانہ بنایا اس کے ساتھ کچھ لٹریچر تقسیم کیا تاکہ سکیورٹی فورسز کو اپنی موجودگی کے بارے میں بتا سکے اس کے علاوہ اس میٹریل کی سوشل میڈیا تک رسائی آسان بنائی کہ اور ظاہر کیا کہ یہ بالکل الگ گروپ ہے۔’

عامر رانا کہتے ہیں کہ پاکستان کی انصار شریعہ بین الاقوامی جہادی تنظیم کی اتحادی یا ماتحت نہیں بلکہ نظریاتی طور پر اس کے قریب ہے، یہ داعش سے نکل کر آئے ہیں جبکہ انھوں نے خود کو ابھی تک کسی فرقہ ورانہ گروہ یا القاعدہ سے جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔

انصار شریعہ پاکستان اور صفورا واقعے میں گرفتار سعد عزیز کے گروپ میں کافی قدر مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ تاہم کاؤنٹر ٹیررازم ادارے موجودہ گروپ کو زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔ ایس پی مظہر مشوانی کا کہنا ہے کہ سعد عزیز گروپ داعش کا پیرو کار تھا اور وہ فرقہ ورانہ دہشت گردی میں بھی ملوث تھا لیکن یہ گروپ صرف فورسز کو نشانہ بناتا رہا ہے۔

کراچی میں صورت حال اس وقت دلچسپ بن گئی جب دو ہفتہ قبل نادرن بائی پاس سے تین نامعلوم افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملیں اور ساتھ میں انصار شریعہ کے نام سے پمفلٹ ملا جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس رضاکار کی ہلاکت کا بدلہ لیا گیا ہے، ساتھ میں یہ بھی تحریر تھا کہ اگر دہشت گرد دشمن ممالک کی ایجنسیوں کی ایما پر پولیس کو نشانہ بنائیں گے تو وہ انھیں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنائیں گے۔ یہ حربہ کس نے اور کیوں استعمال کیا تاحال واضح نہیں ہے۔

انصار شریعہ نے اپنے ٹویٹر ہینڈل سے عام لوگوں کے لیے پانچ صفحات پر مشتمل ہدایت نامہ بھی جاری کیا جس میں لوگوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ سکیورٹی فورسز کے قافلوں اور چوکیوں سے دور رہیں۔

شدت پسند تنظیم انصار شریعہ کا قیام سنہ 2012 میں لیبیا میں عمل آیا جہاں اس نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز ٹریفک میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد اور سڑکوں کی صفائی سے کیا تھا۔ امریکی حکومت بن غازی میں اپنے قونصل خانے پر حملے اور دو ملازمین کی ہلاکت کا ذمہ دار بھی اسی گروپ کو سمجھتی ہے۔

(ریاض سہیل)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp