درخت کی شہادت


پنجاب یونیورسٹی کے سر سے اس کے بزرگ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ یہاں گیٹ کے برابر مال روڈ پر ایک اونچا گھنا درخت بہت زمانے سے کھڑا تھا۔ اس یونورسٹی میں بہت وائس چانسلر آئے اور چلے گئے۔ مگر یہ وائس چانسلر اپنی ایک وضع کے ساتھ قائم تھا اور یونیورسٹی کی باوقار روایت کا حصہ بنا ہوا تھا۔ اس ہفتے عجب افتاد پڑی کہ سڑک کی توسیع کی فکر کرنے والوں نے اس پر آرا چلایا اور اس صاحب منزلت مقتول کی لاش کئی دن مال روڈ پر پڑی رہی۔

ایک سابق طالبعلم نے مال پر چلتے چلتے اس لاش کو دیکھا اور افسوس کے ساتھ کہا کہ ’’میں اس کے نیچے کھڑے ہو کر اس کا انتظار کیا کرتا تھا۔‘‘

تب میں نے سوچا کہ اس جوان علاقے کے اس بوڑھے درخت سے انتظار کی کتنی یادیں اور ملنے نہ ملنے کے کتنے واقعات وابستہ ہوں گے۔ یہاں سائے میں کھڑے ہو کر کب کب کس کس نے کس کس کا انتظار کیا ہوگا۔ وہ خوشگوار اور ناخوشگوار لمحے تو گزر گئے مگر یہ گوشہ ان کی یادوں کا امین تھا۔ درخت ہمارا حافظہ ہیں۔ یادوں کو محفوظ رکھنا ان کا مقدس فریضہ ہے۔ مگر یادیں صنعتی تہذیب کا مال نہیں ہیں۔ نئے شہروں میں ٹریفک کے مسئلہ نے یادوں کے مسئلہ پر فوقیت حاصل کر لی ہے اور درخت کٹتےچلے جا رہے ہیں۔

درخت اس سے پہلے بھی کٹے ہیں مگر اب سے پہلے درخت کٹنا ایک واقعہ ہوتا تھا۔ روایت ہے کہ حضرت زکریاؑ نے اپنی امت کی دستبرد سے بچ کر ایک درخت کے تنے کے اندر پناہ لی۔ ان کی امت نے اس درخت پر آرا چلایا اور اپنے درخت اور پیغمبر دونوں کو دو نیم کر دیا۔ مگر کہانی کی جو شہزادی درخت کے تنے میں جا کر چھپی تھی اس نے میٹھی آواز سے آرا چلونے والوں کو لبھایا اور اپنی جان کو بچایا۔ کچھ درخت پیغمبر ہوتے ہیں۔ کچھ درخت شہزادیاں ہوتے ہیں۔ مگر پیغمبروں اور شہزادیوں کا دور گزر گیا۔ اب لاہور کارپوریشن ہے اور بسیں اور موٹر کاریں اور ٹیکسیاں ہیں اور غریب شہر درخت ہیں۔

درخت کا کاٹنا پہلے ایک واقعہ تھا اور اس واقعے کو کبیر نے یوں بیان کیا ہے :

بڑھئی آوت دیکھ کر ترور ڈالن لاگ

ہم کٹے تو اب کٹے، پنکھیرو تو بھاگ

مگر مال روڈ کا درخت کارپوریشن والوں کو آتے دیکھتا ہے اور ساتھ کے درختوں کو خاموشی سے دیکھ کر بغیر کچھ کہے سنے رخصت ہو جاتا ہے۔

اس شہر کا شاعر وداع ہوتے ہوئے درختوں کے متعلق کچھ نہیں کہتا۔ پچھلے برس جب اسی مال پر انارکلی جانے والی سڑک کے موڑ پر کھڑا ہوا بزرگ درخت کارپوریشن کی زد میں آیا تھا تو میں نے اس کا ذکر بیرسٹر افسانہ نگار سے کیا۔ بیرسٹر موصوف نے کہا کہ ’’تم نوسٹالجیا میں مبتلا ہو۔ اپنی بستی کے املی کے پیڑوں کا نوحہ کرتے کرتے لاہور کے درختوں کے بارے میں جذباتی ہونے لگے۔ مگر یہ کوئی قصبہ نہیں ہے یہ نیا شہر ہے اور ہم بیسویں صدی میں رہتے ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر بیرسٹر افسانہ نگار نے ہارن دیا۔ میں رستے سے ہٹ گیا اور وہ ماڈل ٹاؤن روانہ ہو گیا اور میں نے اطالیہ کے افسانہ نگار البرٹو موراویہ کو یاد کیا۔ اس نئے شہر روما میں ایک درخت ٹریفک کے تقاضوں کے تحت کاٹا گیا۔ تب البرٹو موراویہ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور فریاد کی کہ کارپوریشن قاتل ہے۔ اس نے میرے ایک زندہ ہم عصر کو شہید کیا ہے۔

درختوں کو مردہ مت کہو۔ درخت زندہ مخلوق ہیں۔ پیغمبروں، مہا رشیوں، شاعروں اور شہزادیوں نے یہی جانا اور یہی کہا ہے۔

لاہور شہر میں کل تک تصوف کی روایت اور درختوں کی جڑیں گہری تھیں۔ اب یہ جڑیں ہل گئی ہیں۔ اگلے زمانے میں غریب اور ایماندار لوگ حاکموں کے ستم کو دیکھتے تھے اور کسی صوفی کے قدموں میں جا بیٹھتے تھے۔ اس شہر کے بے گھر بے در لوگ نئے تعمیری منصوبوں کو، نئی نئی آباد ہوتی بستیوں کو دیکھتے ہیں اور درختوں کے قدموں میں جا بیٹھتے ہیں اور یہ گننا بہت مشکل ہے کہ اس شہر میں اس وقت کتنے درخت ہیں اور کتنے غریب غربا ان کے سائے میں بستر ڈالے پڑے یا کوئی ٹوٹی پھوٹی دکان لگائے بیٹھے ہیں۔ شکر ہے کہ یہاں کی ہر سڑک مال روڈ نہیں ہے اور ہر سڑک کے بارے میں یہاں کی کارپوریشن اتنی متفکر نہیں ہے۔ امین میں ہیں وہ درخت جو مال روڈ پر نہیں ہیں۔

مگر ٹریفک کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور شہر پھیل رہا ہے اور جو سڑکیں آج وسیع نہیں وہ کل وسیع ہوں گی۔ پس درختوں پر اس شہر کی زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے جو درخت کٹتا ہے وہ دوسروں سے یہ کہہ کر رخصت ہوتا ہے:

آج ہم، کل تمہاری باری ہے۔

21 مارچ،1964 ء


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).